محمد آبروئے دلبرانست
محمد آبروئے دلبرانست
محمد تاب موئے مہوشانست
1. محمد معشوق کی آبرو ہیں۔ یعنی حسینوں کے زلف کی آب ان ہی سے قائم ہے۔
چو نرگس چشم نگرانیم از شوق
محمد رنگ و بوئے بوستانست
2. وفور شوق میں نرگس کی طرح میری آنکھیں دیکھ رہی کہ محمد سے ہی گلوں کو رنگینی اور چمن کو خوشبو حاصل ہے۔
خدا چوں می کند بر دل تجلی
محمد ہوش و گوش عارفانست
3. اللہ تعالیٰ جب عارفوں کے دلوں پر تجلی فرماتا ہے (اور وہ تجلی کی تاب نہ لاکر جذب ومستی کے عالم میں راہ شریعت سے ہٹنے لگتے ہیں) تو محمد ہی عارفوں کا ہوش وگوش بن جاتے ہیں (یعنی ان کو سنبھالتے ہیں اور اپنی تو جہات روحانی سے افاضہ فرماتے ہیں تو عارف ثابت قدم ہوجاتا ہے مقامات سلوک میں)۔
بہ عالم جز محمد نیست پیدا
دگر ہر چہ بود وہم و گمانست
4. دنیا میں آپ کے سوا کوئی چیز ظاہر وموجود نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ محض وہم وگمان ہے (کیونکہ آپ کے نور سے ساری چیزوں کو وجود حاصل ہوا، تو اصل آپ ہی کی ذات اور آپ کا وجود ہوا، دوسروں کے وجود آپ کے وجود مبارک کے عکس وپرتو ہیں)۔
دو عالم قالب آمد در تن نصرؔ
محمد درمیانش ہم چو جانست
5. نصر کے جسم کی طرح جب دونوں عالم قالب ہوئے تو ان کے درمیان محمد مثل روح ہوئے (یعنی جب کائنات کا بود ونمود، آپ ہی کی وجہ سے ہے تو اس کائنات ارض و سما میں آپ کی حیثیت جسم میں جان کی طرح ہوئی)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 168)
- Author : شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.