شور افگندن بعالم چوں کہ خود منظور بود
شور افگندن بعالم چوں کہ خود منظور بود
جلوہ کرد آں حسن را کز چشمہا مستور بود
دنیا میں شور و ہنگامہ برپا کرنا اسے منظور تھا اس لۓ اس نے اپنے چھپے ہوۓ حسن کو ظاہر کر دیا۔
آں پری از دیدۂ خود خویشتن مستور بود
لیک میل دیدن حسن خودش منظور بود
وہ حسین پری وش اپنی نظروں سے خود پوشیدہ تھا،لیکن وہ خود اپنا حسن دیکھنا چاہتا تھا۔
از نگاہ مست ساقی و سرود مطرباں
ہر یکے در بزم جاناں بے خود و مخمور بود
ساقی کی مست نگاہوں اور موسیقاروں کی نغمہ سرایی سے محفل یار میں ہر ایک مسرور و مدہوش ہے۔
بے دل و ننگ و رسوائی و بد نامی تمام
عاشقاں را از قضا و از قدر منشور بود
تمام بیدلی، عار و عیب،رسوائ و بدنامی ازل سے عاشقوں کی تقدیر بن چکے ہیں۔
احمداؔ گر عاشقی از تیغ جاناں سر متاب
کشتن عشاق اندر کوئے او دستور بود
احمد اگر تو سچا عاشق ہے تو محبوب کی تلوار کے آگے سے پیچھے مت ہٹ اس لۓ کہ عاشقوں کا قتل اس گلی کا دستور ہے۔
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 123)
- مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.