تا ابد یا رب ز تو من لطف ہا دارم امید
تا ابد یا رب ز تو من لطف ہا دارم امید
از تو گر امید ببرم از کجا دارم امید
اے خدا مجھے تجھ سے ہمیشہ کرم کی ہی امید ہے
اگر تجھ سے امید نہ رکھوں تو پھر کس سے رکھوں
زیستم عمر بسے چوں دشمناں دشمن مگیر
بے وفائی کردہ ام از تو وفا دارم امید
میں نے ایک لمبی عمر گزار دی ہے میرے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک مت کر
گر چہ میں نے بے وفائی کی ہے لیکن مجھے تجھ سے وفا کی امید ہے
ہم فقیرم ہم غریبم بیکس و بیمار و زار
یک قدح زاں شربت دارالشفا دارم امید
میں فقیر، غریب، بیکس، بیمار اور کمزور ہوں
مجھے تجھ سے ایک پیالہ داروئے شفا کی امید ہے
نا امیدم از خود و از جملۂ خلق و جہاں
از ہمہ نو میدم اما از ترا دارم امید
میں خود سے، دنیا سے اور تمام خلق سے مایوس ہوں
میں تمام لوگوں سے مایوس ہوں مگر تیری ذات سے پرامید ہوں
ہر کسے امید دارد از خدا و جز خدا
لیک عمرے شد کہ از تو من ترا دارم امید
ہر آدمی تمام دنیا سے اور تجھ سے امید رکھتا ہے
میں نے تو پوری عمر صرف تجھ سے ہی امید رکھی ہے
ہم تو دیدی من چہا کردم تو پوشیدی ز لطف
ہم تو می دانی کہ من از تو چہا دارم امید
میں نے جو بھی کیا اس کا تجھے علم ہے اور تو نے اس پر پردہ ڈالا
تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں تجھ سے کیا چاہتا ہوں
ہم بدم بد گفتہ ام بد ماندہ ام بد کردہ ام
باوجود ایں خطاہا من عطا دارم امید
میں برا ہوں، بد گفتار ہوں، بری زندگی گزاری ہے اور بدکردار ہوں
ان تمام خطاؤں کے باوجود مجھے تیری عطا کی امید ہے
محیؔ می گوید کہ خون من حبیب من بریخت
بعد ازیں کشتن ازو من لطف ہا دارم امید
محیؔ کہہ رہا ہے کہ میرا خون میرے حبیب نے بہایا
اس خونریزی کے بعد اس سے مجھے لطف و کرم کی امید ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.