دل می رود ز دستم صاحب دلاں خدا را
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
اے صاحب دلو! خدا کے واسطے مدد کرو دل ہاتھ سے نکلاجاتا ہے۔ افسوس کہ عشق کا راز پنہاں آشکار ہو رہا ہے (جس کو ظاہر نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ عشقِ حقیقی کے غلبہ میں ایسی باتیں بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جس کے عوام متحمل نہیں ہوتے، غلبۂ حال میں ایسے موقع پر رمز آشنایان معرفت یعنی صاحبان دل ہی مدد کرسکتے ہیں جو مغلوب الحال نہیں ہوتے)۔
کشتی شکستگانیم اے باد شرط بر خیز
باشد کہ باز بینم آں یار آشنا را
ہم ٹوٹی ہوئی کشتی میں بیٹھنے والے لوگ ہیں، اے موافق ہوا چل کہ ہم پھر اس یار آشنا (محبوبِ حقیقی) کو دیکھ سکیں (یعنی اغراض نفسانی کے سفینے میں پھنس کر محبوب (ذات باری تعالیٰ) سے دور ہوگئے ہیں، ہوائے موافق یعنی توفیقِ الٰہی پھر دستگیری کر کے راہ مستقیم پر پہنچا دے یا موت ہوائے موافق بن کر وصالِ الٰہی سے شاد کام کردے)۔
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرفست
با دوستاں تلطف با دشنماں مدارا
دوستوں کے ساتھ مہربانی، دشمنوں کے ساتھ مدارات
دونوں جہان کی راحت ان دو حرفوں کی تفسیر ہے۔
در کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
کوئے نیک نامی میں اہل شریعت ہمیں داخل نہیں ہونے دیتے (گناہگارسمجھتے ہیں) ۔اگر تجھ کو (اے خیرو شر کے مالک) میرے اعمال پسند نہیں ہیں تو پہلے میری تقدیر بدل (کیونکہ اعمال نیک وبد تو تقدیر کے تابع ہیں)۔
حافظؔ بہ خود نہ پوشید ایں خرقۂ مے آلود
اے شیخ پاک دامن معذور دار ما را
شراب آلود خرقہ (بشری خامیوں کا جامہ) حافظ نے خود نہیں پہنا ہے۔ اے شیخ پاک دامن (فرشتو) اس کو معذور سمجھو (اس کے گناہ نہ لکھو)۔
- کتاب : Guldasta-e-Qawwali (Pg. 3)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.