وا چہ حسن است ایں کہ نادیدہ دل از ما در ربود
وا چہ حسن است ایں کہ نادیدہ دل از ما در ربود
خود نہاں در پردہ صد درہائے فتنہ می کشود
یہ کیسا حسن ہے جسے ہم نے دیکھا بھی نہیں، پھر بھی اس نے ہمارا دل چھین لیا؛
وہ خود پردے میں چھپا رہتا ہے مگر فتنہ و آشوب کے سینکڑوں دروازے کھول دیتا ہے۔
حسنت اندر پردہ چوں صد پردہ ہا را می درید
آہ زاں ساعت کہ از رخ پردہ را خواہی کشود
تیرا حسن پردے میں رہ کر بھی بے شمار پردوں کو چاک کر دیتا ہے؛
ہائے وہ لمحہ جب تو اپنے چہرے سے پردہ اٹھائے گا!
در حریم و کعبہ و در مسجد و در بت کدہ
چوں نظر کردم بہ جز حسنت دگر چیزے نبود
حرم ہو یا کعبہ، مسجد ہو یا بت کدہ،
جہاں بھی میں نے نظر دوڑائی، تیرے حسن کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔
پیش جام لعل تو در مجلس رندان ما
ساقی و پیر مغان و ہم صراحی در سجود
ہماری رندوں کی مجلس میں تیرے لعل جیسے سرخ جام کے سامنے،
ساقی، پیرِ مغاں، بلکہ خود صراحی بھی سجدہ ریز ہے۔
پیش او اے اوحدیؔ جاں با رضا تسلیم کن
ورنہ چشم مست او جاں از تنت خواہد ربود
اے اوحدی! اس کے حضور اپنی جان خوش دلی سے نثار کر دے،
ورنہ اُس کی مست نگاہ تیری جان کو تیرے جسم سے جدا کر لے گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.