وا کہ محروم از طواف کعبۂ جاں می رویم
وا کہ محروم از طواف کعبۂ جاں می رویم
تشنہ لب از ساحل دریائے عمان می رویم
ہائے افسوس! ہم کعبۂ جان کے طواف سے محروم ہی چلے جا رہے ہیں،
پیاسے لبوں کے ساتھ دریائے عمان کے کنارے سے گزرے جا رہے ہیں۔
بر لب دریا بہ صد فریاد و افغاں آمدیم
باز چوں دریا بہ صد فریاد و افغاں می رویم
ہم دریا کے کنارے سینکڑوں آہ و فریاد لے کر آئے تھے، اور اب دریا ہی کی طرح سینکروں آہ و فریاد کے ساتھ واپس جا رہے ہیں۔
یا رسول اللہ بہ خواں ما را بہ سوئے خود کہ ما
روضہ ات نا دیدہ سوئے بیت احزاں می رویم
یا رسول اللہ ﷺ! ہمیں اپنی طرف بلا لیجیے، ہم آپ کے روضے کا دیدار کیے بغیر ہی غم و اندوہ کی طرف جا رہے ہیں۔
چشمۂ شیریں توئی ما شور بختاں از تو دور
شربتے فرما کہ با تلخی ہجراں می رویم
آپ ہی چشمۂ شیریں ہیں اور ہم بدنصیب آپ سے دور ہیں، ہم پر ایک نظر کرم کیجیے کہ ہم ہجر کی تلخی لیئے رخصت ہو رہے ہیں۔
فیضیؔ از ظاہر پرستان ارادت نیستیم
ما بہ طوف کوئے او از راہ پنہاں می رویم
فیضیؔ کہتا ہے کہ ہم ظاہر پرست لوگوں میں سے نہیں ہیں،
ہم اس کے کوچے کا طواف چھپے ہوئے راستوں سے کرتے ہیں۔
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 207)
- مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.