اے عاشقاں اے عاشقاں ہنگام کوچ است از جہاں
اے عاشقاں اے عاشقاں ہنگام کوچ است از جہاں
در گوش جانم می رسد طبل رحیل از آسماں
اے عاشق! دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے۔
میری روح آسمان میں بجنے والے کے بجنےوالے نقارے کی آواز سن سکتی ہے۔
نک سارباں برخاستہ قطارہا آراستہ
از ما حلالی خواستہ چہ گفتہ اید اے کارواں
دیکھو قافلہ صفوں میں چلنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ ہم سے بھی تیاری کرنے کو کہ دیا گیا ہے۔
اٹھو، قافلے کے ساتھ چلو۔ کیا تمہیں نیندآرہی ہیں؟
ایں بانگ ہا از پیش و پس بانگ رحیل است و جرس
ہر لحظہ ای نفس و نفس سر می کشد در لا مکاں
یہ جو آگے اور پیچھے سے آواز سنائی دے رہی ہے وہ چلنے اور گھراٹوں کی آوازوں ہیں۔
ہر لمحہ جان اور سانس ایک بے مقام جگہ پر جا رہے ہیں۔
زیں شمع ہائے سرنگوں زیں پردہ ہائے نیلگوں
خلقے عجب آمد بروں تا غیب ہا گردد عیاں
ان اوندھے چراغوں سے اور ان نیلے رنگ کے پردوں سے طرح طرح کی انفرادیتیں کھل رہی ہیں تاکہ رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکے۔
زیں چرخ دولابی تو را آمد گراں خوابی تو را
فریاد ازیں عمر سبک زنہار ازیں خواب گراں
ایسے آسمان سے مجھے گہری نیند آگئی ہے۔
اس تیز رفتار عمر سےفریاد اور اس شدید نیند سے فریاد-
اے دل سوئے دلدار شو اے یار سوئے یار شو
اے پاسباں بیدار شو خفتہ نشاید پاسباں
اے دل! محبوب کے پاس چلو اور اے دوست! محبوب کے پاس چلو۔چوکیدار! اٹھو، تمہارا اس طرح سونا ٹھیک نہیں ہے۔
ہر سوئے شمع و مشعلہ ہر سوئے بانگ و مشغلہ
کامشب جہان حاملہ زاید جہان جاوداں
چاروں طرف سے خوشی اور مسرت کی آوازیں آرہی ہیں۔ ہر گلی کوچے میں چراغوں اور مشعلوں کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
اس لیے کہ آج یہ فانی دنیا ایک لافانی دنیا کو جنم دے گی اور آج اس نے اپنی خوش نصیبی کے تحت یہ سعادت مند شکل اختیار کر لی ہے۔
تو گل بدی و دل شدی جاہل بدی عاقل شدی
آں کو کشیدت ایں چنیں آں سو کشادت آں چناں
تو خاک تھا لیکن اب دن بن گئے ہو۔ بیوقوف تھا لیکن اب سمجھدار ہو گئے ہو۔
جس نے تمہیں ایسا بنایا ہے وہ تمہیں بھی ایسے ہی وہاں لے جائے گا۔
اندر کشاکش ہائے او نوش است ناخوش ہائے او
آب است آتش ہائے او بر وے مکن رو را گراں
اس کے ساتھ اس جھگڑے میں جو مصیبتیں آتی ہیں اسے شہد کی مٹھاس سمجھ۔
اس کی آگ کو پانی کی طرح ٹھنڈا سمجھ اور اس سے ناراض مت ہو۔
در جاں نشستن کار او توبہ شکستن کار او
از حیلۂ بسیار او چوں زرہ ہا لرزاں دلاں
اس کے افعال روح میں جذب ہو جانا اور قسم توڑنا ہیں،
بے شمار اعمال کی وجہ سے ہر ایک کا دل ہوا میں ذرے کی طرح کانپتا ہے۔
اے ریش خندۂ رخنہ جہہ یعنی منم سالار دہ
تا کئے جہی گردن بنہ ور نے کشندت چوں کماں
اے بیوقوف! تم کہتے ہو کہ میں گاؤں کا مالک ہوں۔ کب تک اس طرح غرور میں ڈوبے رہوگے۔
سر نہ جھکاؤ ورنہ کمان کی طرح تجھس کمان پر چڑھاینگے۔
تخم دغل می کاشتی افسوس ہا می داشتی
حق را عدم پنداشتی اکنوں ببیں اے قلتباں
تم نے ہمیشہ دھوکے کا بیج بویا، اور پچھتائے بہت،
تم سمجھتے تھے کہ خدا نہیں ہے۔ اب، اے پاگل! اپنے کام سے لطف اندوز ہو۔
اے خر بہ کاہ اولیتری دیگ سیاہ اولیتری
در قعر چاہ اولیتری اے ننگ خان و خانداں
اے تھان کے گدھے اور گھر کا نام ڈبونے والے
بہتر ہوتا کہ تم کالے دیگ کی طرح کنویں کے نیچے پڑے رہتے۔
در من کسے دیگر بود کہ چشم ہا از وے جہد
گر آب سوزنی کند ز آتش بود ایں را بداں
میرے اندر کوئی اور رہتا ہے اور یہ سوتے اسی سے جاری ہے۔
اگر پانی جلنے لگے تو سمجھ لینا کہ (میری) آگ کی وجہ سے ہے۔
در کف نہ دارم سنگ من با کس نہ دارم جنگ من
بر کس نمیرم تنگ من زیرا خوشم چوں گلستاں
میں نہ کسی سے لڑتا ہوں اور نہ کسی کو دباتا ہوں۔
میں اس کی وجہ سے ہمیشہ باغ کی طرح خوش رہتا ہوں۔
پس خشم من زاں سر بود وز عالم دیگر بود
ایں سو جہاں آں سوں جہاں بہ نشستہ من بر آستاں
یہی وجہ ہے کہ میری آنکھوں کا تعلق کسی اور دنیا سے ہے۔ میں دنیا اور آخرت کے درمیان دروازے کی چوکھٹ کی طرح بیٹھا ہوں۔
بر آستاں آں کس بود کو ناطق اخرس بود
ایں رمز گفتن بس بود دیگر مگو در کش زباں
دروازے کی چوکھٹ پر صرف وہی بیٹھتا ہے جو گونگا ہوتا ہے۔ میں
صرف اتنا ہی اشارہ دیتا ہوں، تم سمجھو (کہ میرا مطلب کیا ہے) اور چپ رہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.