چوں آمد عشق آں جاناں ز ہوش جان و تن رفتم
چوں آمد عشق آں جاناں ز ہوش جان و تن رفتم
بدام زلف آں دلبر چوں بلبل در چمن رفتم
جب مجھے اس محبوب سے عشق ہوگیا تو مجھے جان و تن کا ہوش نہ رہا
میں اس محبوب کے جال میں باغ کی بلبل کی طرح گرفتار ہوگیا
چوں زنبور از پئے نگہت بر غنچہ دہن رفتم
ز جور آں جفا پیشہ بچاک پیرہن رفتم
جب میں زنبور کی طرح خوشبو کے لیے اس محبوب کے پاس گیا
اس جفا پیشہ کے ظلم سے میں چاک پیراہن گیا
دویدم در قفائے او رسیدم در سرائے او
شنیدم راز از رویش ز ہوش خویشتن رفتم
میں اس کے تعاقب میں دوڑا اور اس کے سرائے میں داخل ہوا
میں اس کے چہرے کے راز سے باخبر ہوا اور میرا ہوش جاتا رہا
بگفتم آں پری رو را شدم دیوانہ از عشقت
جوابش را چہ می گویم بہر جا چوں سخن رفتم
میں نے اس پری رخ سے کہا کہ میں تمہارے عشق میں دیوانہ ہوگیا ہوں
میں اس کا جواب کیا بتلاؤں، ہر جگہ کیا گفتگو کروں
ندیدم مہر زاں مہ رو نہ آرام از دلارائے
خریدم زاں صنم سودا باندوہ و حزن رفتم
مجھے اس محبوب سے کوئی محبت نہ ملی اور اس دلبر سے کوئی آرام نہ ملا
میں نے اس صنم سے سودا کیا اور غم و الم مول لیا
شراب شوق او خوردم شدم بے ہوش و بے حرمت
نہادم سر بہ پائے او مثال نعرہ زن رفتم
میں نے اس کے شوق کی شراب پی اور بے ہوش و بے حرمت ہوگیا
میں نے اس کے سر پر قدم رکھ دیا اور نعرہ مارتے ہوئے گیا
بدانستم لب شیریں ندانستم فریبش را
بدشت و کوہ سرگرداں مثال کوہکن رفتم
مجھے اس کے شیریں لب کا اندازہ تھا، اس کے فریب کا اندازہ نہیں تھا
کوہکن کی طرح میں صحرا و جنگل میں بھٹکتا رہا
شدم عاشق براں دلبر دلم دیوانہ شد یک دم
بگفتہ اشک در گوشم چوں درہائے عدن رفتم
میں اس دلبر پر عاشق ہوگیا اور میرا دل یک دم دیوانہ ہوگیا
گویا کہ آنسو میرے کان میں عدن کے موتی کی طرح داخل ہوگیا
نمی دانی تو اے لیلیٰ کہ بر تو گشتہ ام مجنوں
گہے چوں باد در کنعاں گہے سوئے یمن رفتم
اے لیلیٰ تجھے معلوم نہیں ہے کہ میں تمہارا مجنوں ہوگیا ہوں
کبھی میں کنعاں کے دروازے پر تو کبھی میں یمن جاتا ہوں
چہ حاصل شد مرا از تو بگو اے بے وفا گل رو
بگریم از غمت چوں جو بدست طعنہ زن رفتم
اے محبوب ذرا مجھے تجھ سے کیا حاصل ہوا
میں تمہارے غم میں روتا ہوں اور لوگوں کے طعنے سنتا ہوں
بگفتہ بلبلے مسکیں بہ گلزارے فغاں کردہ
بغیر از گل شدہ جانم بتربت بے کفن رفتم
اس نے کہا کہ باغ میں گریہ و زاری کرنے والے مسکین بلبل
پھول کے بغیر میری جان تربت میں بےکفن چلی گئی
چراغ روئے جاناں دیدم و دل سوخت از ہجرش
بہ نزدش ہمچو پروانہ میان انجمن رفتم
میں نے محبوب کے چہرے کے چراغ کو دیکھا اور اس کے ہجر میں دل جل گیا
میں اس کے نزدیک پروانہ کی طرح انجمن میں گیا
نہ از ہجر صنم راحت نہ حاصل می شود وصلش
برائے دیدنش ہر سو بصد رنج و محن رفتم
نہ تو مجھے محبوب کے ہجر سے راحت ہے نہ ہی اس کا وصال حاصل ہے
اس کے دیدار کے شوق میں ہر طرف سیکڑوں رنج و الم کے ساتھ گیا
مرا دانستہ آں دلبر بگفتہ ہمچو بیگانہ
کدامی از کجا آئی ازاں چوں بے وطن رفتم
مجھ سے دانستہ طور پر اس محبوب نے بیگانے کی سی گفتگو کی
اس نے کہا تو کون ہے اور کہاں آیا ہے، میں اس طرح بے وطن ہوگیا ہوں
بجستم آں یگانہ را چوں دیوانہ بہر جانب
ہماں جاناں شدہ ہر سو چوں من از ما و من رفتم
میں دیوانے کی طرح اسے ہر طرف ڈھونڈتا رہا
وہ محبوب ہر جگہ ہے اور میں بیخود اور از خود رفتہ ہوں
چوں دانہ زیر گل گشتہ سرش بالا شدہ خوشہ
ببوسیدم روئے دلبر چوں من از کبر تن رفتم
جب دانہ مٹی کے نیچے جاتا ہے اس کا سر خوشہ بن جاتا ہے
میں نے دلبرکے رخ کو اس وقت بوسہ دیا جب میں بوڑھا ہوگیا
مرا معلوم شد عارفؔ ز راہ پیر و پیغامبر
جمال حق عیاں دیدم بہر جانب کہ من رفتم
اے عارف! مجھے پیرو پیغمبر سے معلوم ہوا کہ
جہاں بھی جاؤ جمالِ حق کھلم کھلا کا مشاہدہ ہوتا ہے
- کتاب : دیوان عارفؔ (Pg. 115)
- Author : کشن سنگھ عارفؔ
- مطبع : چشمۂ نور پریس، امرتسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.