آمد خیال خوش کہ من از گلشن یار آمدم
در چشم مست من نگر کز کوئے خمار آمدم
میں محبوب کے باغ سے آیا ہوں، میرے دل میں اچھا خیال آ رہا ہے
میری مست آنکھوں میں دیکھو، میں مئے فروش کی گلی سے آیا ہوں
سرمایۂ ہستی منم ہم دایہ ہستی منم
بالا منم پستی منم چوں چرخ دوار آمدم
میں ہستی کا سرمایہ ہوں، میں ہی وجود کا نگہبان ہوں
میں بلند ہوں، میں پست ہوں، میں آسمان کی طرح گردش کر رہا ہوں
گفتم بیا شاد آمدی دادم بدہ داد آمدی
گفتا بدیدی داد من از بہر ایں کار آمدم
میں نے کہا اچھا ہوا آ گیے، انصاف دے، تو انصاف دینے آیا ہے
اس نے کہاکہ تم نے میرا انصاف دیکھا ہے، میں اسی کام کے لیے آیا ہوں
ہم تو مہ و مہتاب تو ہم گلشن و ہم آب تو
چندیں رہ از اشتاب تو بے کفش و دستار آمدم
اے لڑکے تم نیک نام ہو لیکن تم ابھی کچے ہو
تلخی مت کرو کیوں کہ میں بڑے شوق سے آیا ہوں
فرخندہ نامی اے پسر گرچہ کہ خامی اے پسر
تلخی مکن زیرا کہ من از لطف بسیار آمدم
ہنستے ہوئے آؤ، تلخی کو دور کرو اے اچھی تلخی والے
میں پھول بانٹتا ہوں، بھلے ہی سارے کانٹے سب سے پہلے مجھے ملے
خنداں در آ تلخی بکش شاباش اے تلخی خوش
گلہا دہم گرچہ کہ من اول ہمہ خار آمدم
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 510)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.