عشوہ دادستے کہ من در ہے وفائی نیستم
بس کن آخر بس کن آخر روستائی نیستم
تم نے جھوٹ بولا کہ میں بے وفا نہیں ہوں
بس کرو میں بھی کوئی گنوار نہیں ہوں
چوں جدا کردی بخنجر عاشقاں را بند بند
چوں مرا گوئی کہ در بند جدائی نیستم
جب تو نے خنجر سے عاشقوں کا جوڑ جوڑ الگ کر دیا
اب مجھےکہتے ہو کہ میں جدائی کے بند میں نہیں ہوں
من یکے کو ہم ز آہن در میان عاشقاں
من ز ہر بادے نگردم من ہوائی نیستم
میں عاشقوں میں لوہے کا ایک پہاڑ ہوں
میں ہر ہوا کے ساتھ نہیں چلتا، میں فضا کا باشندہ نہیں ہوں
جوئے آب و روغنم اندر میامیزم بکس
زاں کہ من جان غریبم ایں سرائی نیستم
میں پانی اور تیل کی طرح ہوں، میں کسی سے گھل مل نہیں سکتا
میں بالکل اجنبی ہوں، میں اس سرائے کا باشندہ نہیں ہوں
اے فرو رفتہ باندیشہ کہ آوخ چہ کنم
پس بگو کہ من خدایم من خدائی نیستم
اے فکرمیں رہنے والے افسوس! میں کیا کروں
تم ہی کہوکہ میں خدا ہوں، میں خدا نہیں ہوں
من نگویم چوں کنم دریا مرا تا چوں برد
غرقہ ام در بحر در بند سقائی نیستم
میں کیا کہوں، دریا مجھے بہا لے گیا ہے
میں سمندر میں غرق ہوں، میں کسی سقہ کے بند میں نہیں ہوں
در غم آنم کہ او خود را نماید بے حجاب
ہیچ اندر بند خویش و خود نمائی نیستم
میں اس آدمی کے غم میں ہوں جو مجھے بے پردہ جلوہ دکھاتا ہے
میں نمود و نمائش نہیں کرتا، میں خود پسند نہیں ہوں
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 532)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.
 
                         
 