Font by Mehr Nastaliq Web

عشوہ دادستے کہ من در ہے وفائی نیستم

رومی

عشوہ دادستے کہ من در ہے وفائی نیستم

رومی

MORE BYرومی

    عشوہ دادستے کہ من در ہے وفائی نیستم

    بس کن آخر بس کن آخر روستائی نیستم

    تم نے جھوٹ بولا کہ میں بے وفا نہیں ہوں

    بس کرو میں بھی کوئی گنوار نہیں ہوں

    چوں جدا کردی بخنجر عاشقاں را بند بند

    چوں مرا گوئی کہ در بند جدائی نیستم

    جب تو نے خنجر سے عاشقوں کا جوڑ جوڑ الگ کر دیا

    اب مجھےکہتے ہو کہ میں جدائی کے بند میں نہیں ہوں

    من یکے کو ہم ز آہن در میان عاشقاں

    من ز ہر بادے نگردم من ہوائی نیستم

    میں عاشقوں میں لوہے کا ایک پہاڑ ہوں

    میں ہر ہوا کے ساتھ نہیں چلتا، میں فضا کا باشندہ نہیں ہوں

    جوئے آب و روغنم اندر میامیزم بکس

    زاں کہ من جان غریبم ایں سرائی نیستم

    میں پانی اور تیل کی طرح ہوں، میں کسی سے گھل مل نہیں سکتا

    میں بالکل اجنبی ہوں، میں اس سرائے کا باشندہ نہیں ہوں

    اے فرو رفتہ باندیشہ کہ آوخ چہ کنم

    پس بگو کہ من خدایم من خدائی نیستم

    اے فکرمیں رہنے والے افسوس! میں کیا کروں

    تم ہی کہوکہ میں خدا ہوں، میں خدا نہیں ہوں

    من نگویم چوں کنم دریا مرا تا چوں برد

    غرقہ ام در بحر در بند سقائی نیستم

    میں کیا کہوں، دریا مجھے بہا لے گیا ہے

    میں سمندر میں غرق ہوں، میں کسی سقہ کے بند میں نہیں ہوں

    در غم آنم کہ او خود را نماید بے حجاب

    ہیچ اندر بند خویش و خود نمائی نیستم

    میں اس آدمی کے غم میں ہوں جو مجھے بے پردہ جلوہ دکھاتا ہے

    میں نمود و نمائش نہیں کرتا، میں خود پسند نہیں ہوں

    مأخذ :
    • کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 532)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے