سر فرو کرد از فلک آں ماہ روئے سیم تن
آستیں را می فشاند اندر اشارت سوئے من
اس چاندنی جیسے بدن والے نے اپنے سر کو آسمان سے نیچے کیا
وہ میری طرف اشارہ کر کے اپنا آستین جھاڑ رہا ہے
ہمچو چشم کشتگاں چشمان من حیران او
وز شراب عشق او ایں جان من بے خویشتن
دیوانے کی آنکھ کی طرح میری آنکھیں اسے دیکھ کر حیران ہیں
اس کے عشق کی شراب سے میری یہ جان بے قابو ہے
زیر جعد زلف مشکیں صد قیامت را قیام
در صفائے صحن رویش آفت ہر مرد و زن
اس کے خوشبودار گھنگھرالے بال کے نیچے سیکڑوں قیامتیں موجود ہیں
اس کے چہرے کے صحن کی چمک مردوزن کے لیے باعث فتنہ ہے
مرغ جاں اندر قفس می کند پر و بال خویش
تا قفس را بشکند اندر ہوائے آں شکن
جان کا پرندہ پنجرے کے اندر اپنا بال و پر نوچ رہا ہے
تا کہ پنجرہ کو توڑ ڈالے اور اس تک رسائی حاصل کر لے
گفتمش آخر حجاب در میان ما و دوست
من جمال دوست خواہم کوست مر جاں را شکن
میں نے اس سے کہا کہ میرے اور دوست کے درمیان ایک حجاب ہے
میں جان کو برباد کرنے والے اس دوست کے جمال کا طلب گار ہوں
میر مست و خواجہ مست و روح مست و جسم مست
از خدیو شمس دیںؔ آں ماہ تبریز و زمن
تبریز کے اس چاند اور شمس دیں کے سلطان
سے میر، خواجہ، روح اور جسم سب مست ہیں
- کتاب : کلیات شمس تبریزی، جلد دوم (Pg. 635)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.