یا رب آں یار کہ مقصود دل ماست کجاست
کہ شب و روز غمش معتکف خاطر ماست
اے خدا وہ یار جو میرے دل کا مقصود ہے کہاں ہے
رات دن اس کا ہی غم ہمارے دل میں بیٹھا ہوا ہے
گرچہ یک ذرہ ز ذرات ازو خالی نیست
دائم از غایت قرب از نظرم ناپید است
اگر چہ دنیا کا کوئی بھی ذرہ اس سے خالی نہیں ہے
پھر بھی حد درجہ قربت کی وجہ سے وہ میری نظروں سے ناپید ہے
اے دل آں را کہ تو جوئی ز خودش دور مجوئے
ور دریں خانہ کسے نیست بگو ایں چہ صداست
اے دل جسے تم تلاش کر رہے ہو اسے خود سے دور مت ڈھونڈو
اگر اس گھر میں کوئی نہیں ہے تو پھر یہ آواز کیا ہے
زاہدا پردہ پندار اگر بفگنی
بازیابی کہ پس پردۂ انکار چہاست
اے زاہد اگر تم پندار کے پردے کو ہٹا دو گے
تو پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ انکار کا پردہ کیا ہوتا ہے
درد سودائے وصال تو بہ جانم آورد
پردہ بردار کہ دیدار تو ام محض دواست
تمہارے وصال کے درد سے میری جان برآئی ہے
پردہ اٹھاؤ کہ اس کی دوا صرف تمہارا دیدار ہے
نرسیدم ببقائے ابدی جز بفنا
در طریق غم عشق تو فنا عین بقاست
فنا کے بغیر ابدی بقا نہیں حاصل نہیں ہوسکتی
تمہارے عشق کے غم کے راستہ میں فنا ہی عین بقا ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 153)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.