تا دلم در طلب وصل تو از جاں برخاست
طوطی نطق من از درد فراقت گویاست
میرا دل تمہارے وصل کی طلب میں بے قرار ہے
میری گویائی کی طوطی تیرے فراق کے درد سے کراہ رہی ہے
رفت جان و دل و دیں در سر سودائے غمت
ہم چناں در سر سودائے تو ام پا برجاست
تمہارے غم میں میرا دل اور میرا دین سب لٹ گیا
لیکن اب بھی دل میں تمہارا خیال اسی طرح موجود ہے
چہ کنم درخور احسان تو اے جان جہاں
نیم جانیست مرا واں ہم ز انعام شماست
اے جان جہاں میں تمہارے احسان کا شکر کیسے ادا کروں
میں نیم جان ہوں، یہ بھی تو تمہارا ہی انعام ہے
ماہ رویا چہ کنی روئے پس پردہ نہاں
پردہ بردار کہ روئے تو چو جاں درخور ماست
وہ دل کیا دل ہے جسے ہمیشہ تمہاری چاہت ہوا کرتی ہے
وہ آنکھیں کتنی اچھی ہیں جو ہمیشہ تجھے دیکھا کرتی ہیں
اے خوش آں دل کہ تمنائے تو دارد ہمہ وقت
روشن آں دیدہ کہ دائم بجمالت بیناست
اسے دولت مل گئی جو تیری خوشبو کے لیے بھٹکتا رہا
اسے وصل میسر ہوا جو تیری طلب میں دیوانہ ہوگیا
دولت آں یافت کہ بر بوئے تا راہی سپرد
وصلت آں دید کہ خوش در طلب از جاں برخاست
تمہارے کوچے میں شمس کی طرح بہت بھٹک رہے ہیں
دیکھیے تمہارے وصل کی بارگاہ میں باریابی کس کی ہوتی ہے
گرد کویت ہمہ چوں شمسؔ بسرگردانند
در حریم حرم وصل تو بار کراست
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 154)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.