ہر دمم موجے از بحر لا مکاں آید پدید
ہر دمم گنجے دگر از گنج جاں آید پدید
لامکاں کے سمندر سے ہر وقت ایک موج اٹھ رہی ہے
روح کے خزانے سے ہر وقت ایک خزانہ نکل رہا ہے
ہر زمانم میوۂ دیگر بکام جاں رسد
ہر دمم بوئے دگر زاں بوستاں آید پدید
ہر وقت ایک نیا میوہ میرے منہ میں پہنچ رہا ہے
ہر وقت اس باغ سے ایک نئی خوشبو پھوٹ رہی ہے
چوں شود بر دیدۂ عشاق حسنش جلوہ گر
مہر رویش را جہاں چوں سائباں آید پدید
جب عاشقوں کی آنکھوں کے سامنے اس کا حسن جلوہ گر ہوتا ہے
تو اس کے چہرے کے سورج کے سامنے یہ دنیا سائبان بن کر سامنے آ جاتی ہے
دو ہزاراں جام گوناگوں شرابے بیش نیست
پس چرا صد گوناں خاطر درمیاں آید پدید
مختلف شرابوں کے دو ہزار جام پینے کے لیے ناکافی ہے
پھر سامنے ایک دوسو جاموں کو لانے سے کیا فائدہ
گہہ در آید حضرت او در لباس جسم و جاں
گہہ بشکل ماہ و مہر فرقداں آید پدید
کبھی وہ جسم و جاں کی صورت میں جلوہ گر ہوا تو
کبھی وہ چاند و سورج اور دو چمکتے ستارے کی شکل میں ظاہر ہوا
خلوت از اغیار خالی ساز تا در خلوتت
ناگہاں شمسؔ جہاں گوہر فشاں آید پدید
اپنی ذات کو غیروں سے خالی کرو تا کہ تمہاری خلوت میں
دنیا کا سورج اپنی موتیاں لٹاتا رہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 273)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.