جہاں را بدیدم وفائے ندارد
جہاں در جہاں آشنائے ندارد
میں نے دیکھا کہ دنیا میں وفا نہیں ہے
پوری دنیا میں کہیں کوئی آشنا نہیں ہے
پس آنگہ شتاباں شدہ سوئے دامش
چہ کوری کہ در کف عصائے ندارد
ایک دن تم اس کے جال کی طرف اور اس اندھے کی طرف
دوڑتے جاؤ گے جس اندھے کے ہاتھ میں لاٹھی نہیں ہے
ازو گشتہ ترساں برو گشتہ لرزاں
زہے علتے کاں دوائے ندارد
کبھی اس سے ڈرنا اور کبھی اس کو جھڑکنا
اس بیماری کا کیا کہنا، اس کی کوئی دوا نہیں ہے
کسے جاں دہد در رہش کز شقاوت
ز جاناں رہ جاں فزائے ندارد
کوئی اپنی بدبختی کی وجہ سے اپنی جان دے دیتا ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ محبوب کی راہ سے بہتر کوئی راہ نہیں ہے
چہ شاہاں کہ از عشق صد ملک بردند
کہ آں سلطنت منتہائے ندارد
ان بادشاہوں کا کیا کہنا جنہوں نے عشق کے سبب
سیکڑوں ایسے ملک کو فتح کیا جن کی کوئی انتہا نہیں ہے
چہ تقصیر کردست ایں عشق با تو
کہ منکر شدی کو عطائے ندارد
اس عشق نے تجھ سے کیا گستاخی کی
کہ مجھ سے چہرہ پھیرے ہو ئے ہو اور مجھ پر کوئی کرم کی نگاہ نہیں کرتے
خمش کن نثارست بر عاشقانش
گہرہا کہ ہر یک بہائے ندارد
خاموش رہو کہ عاشقوں پر ایسے ایسے موتی نثار ہیں
جن کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 345)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.