بہ روز مرگ چو تابوت من رواں باشد
گماں مبر کہ مرا درد ایں جہاں باشد
موت کے دن جب میرا تابوت لے جایا جائے گا
ایسا مت سمجھو کہ مجھے اس دنیا کا غم ہوگا
جنازہ ام چو بہ بینی مگو فراق فراق
مرا وصال ملاقات آں زماں باشد
جب میرے جنازے کو دیکھنا تو الوداع مت کہنا
کیوں کہ مجھے اس وقت ہی وصال کی دولت نصیب ہوگی
مرا بہ گور سپاری مگو وداع وداع
کہ گور پردۂ جمعیت جناں باشد
مجھے قبر کے حوالے کرنا تو الوداع مت کہنا
کیوں کہ قبر اہل جنت کا پردہ ہوتی ہے
کدام دانہ فرو رفت در زمیں کہ نرست
چرا بدانہ انسانت ایں گماں باشد
ایسا کون سا دانہ ہے جو زمیں کے اندر گیا اور اگا نہیں
انسان کے دانے سے متعلق بھلا بدگمانی کیوں رکھی جائے
ترا غروب نماید ولے شروق بود
لحد چو حبس نماید خلاص جاں باشد
تجھے یہ غروب معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ طلوع ہے
قبر قید خانہ معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل یہ جان کی خلاصی ہے
ترا چناں بنماید کہ من بہ خاک شدم
بزیر پائے من ایں ہفت آسماں باشد
تمہیں ایسا لگ رہا ہے کہ میں مٹی ہوگیا
میرے قدم کے نیچے آسمان پڑے ہوئے ہیں
جمال مفخر آفاق شمسؔ تبریزی
کہ نور دیدہ و عقل دل رواں باشد
شمس تبریزی کے شہرہ آفاق جمال سے
عقل و نظر کا نور پورے جوش میں ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 327)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.