ماہ من در پردہ دارد زلف مشک افشاں ہنوز
ماہ من در پردہ دارد زلف مشک افشاں ہنوز
بر نیفگندست پردہ از رخ رخشاں ہنوز
میرے چاند نے درپردہ اپنی زلف اب تک بکھیر رکھا ہے
اپنے روشن چہرہ سے اس نے اب تک پردہ نہیں ہٹایا ہے
کرد کویش گوئے دل ہا گشتہ سرگرداں ہنوز
ترک رخسارش نہ کردہ زلف را چوگاں ہنوز
اس کی گلی نے دل کے گیند کو بھٹکنے والا بنا دیا ہے
لیکن اس کے رخسار نے زلف کو ابھی میدان نہیں بنایا ہے
در تبسم آں لب و دنداں نہ دیدہ ہیچ کس
اندکے دانست با قیمت در و مرجاں ہنوز
ان ہونٹوں اور دانتوں کی مسکراہٹ کسی نے نہیں دیکھی
بہت ہی کم لوگوں کو اس موتی اور مرجان کی قیمت معلوم ہے
بلبلاں در نالہ اند و عندلیباں در خروش
خود نگشتہ غنچۂ رخسار او خنداں ہنوز
بلبل بھی نغمہ سنج ہیں اور عندلیب بھی زمزمہ سنج
لیکن اس کے رخسار کا پھول ابھی کھلا نہیں ہے
گرچہ افشاندہ است دامن بارہا ایں خاک رہ
تا قیامت داشت ایں خاکی و آں داماں ہنوز
گرچہ اس راستے کی خاک نے بارہا اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی
لیکن قیامت تک اس کےدامن میں یہ مٹی موجود رہے گی
از پئے آں گنج صد رہ شد خراب آں کنج دل
ہم چناں افتادہ است ایں گنج دل ویراں ہنوز
اس خزانے کی تلاش میں دل کا گوشہ مختلف طریقے سے برباد ہوا
دل کا یہ خزانہ اب بھی ویران اور سنسان ہے
پرتوے از مہر رویش در ازل دیدست شمسؔ
گشتہ سرگرداں ازاں دہشت چہ سرگرداں ہنوز
شمس نے اس کے چہرے کے سورج کا پرتو ازل میں دیکھا ہے
اس دہشت سے یہ آج تک حیران اور پریشان ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 400)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.