در کوئے خرابات نشستیم دگر باز
از صومعہ و مدرسہ رستیم دگر باز
شراب خانے کی گلی میں ایک بار پھر ہم بیٹھ گیے
گرجا گھر اور مدرسہ سے ہم ایک بار پھر نجات پا گیے
از ما خرد و دانش و فرہنگ مجو
ہیہات کہ دیوانہ و مستیم دگر باز
ہم سے عقل، دانائی اور علم کی باتوں کی امید مت رکھو
افسوس کہ ہم ایک بار پھر دیوانہ و مجنوں ہو گیے ہیں
آں رفت کہ در صومعہ مستور نشینیم
در میکدہ ہا بادہ پرستیم دگر باز
وہ زمانہ بیت گیا کہ گرجا گھروں میں چھپ کر مئے نوشی کرتے تھے
اب تو ہم نے میکدہ میں کھلم کھلا بادہ پرستی شروع کردی ہے
برخاستہ از عشق تو از عقل و دل و دیں
آسودہ بہ رویت بنشستیم دگر باز
تمہارے عشق میں عقل، دل اور دین سب گیا
سب سے بے نیاز ہوکر ہم تمہارے چہرے کے سامنے پھر بیٹھ گیے ہیں
آں قطرہ کہ بردیم ز دریائے حقیقت
وقتست بدریاش فرستیم دگر باز
ہمیں حقیقت کے دریا سے جو قطرہ ملا
اب وقت آ گیا ہے کہ اس قطرہ کو دریا کے حوالے کر دیں
چوں شمسؔ خمش گشت ازیں خانہ بروں شد
ما ہم دہن از گفت ببستیم دگر باز
جب شمس خاموش ہو گیے اور اس گھر سے دور ہو گیے
تو ہم نے بھی اپنے منہ پر تالا لگا لیا
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 402)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.