اے منور از جمالت دیدۂ جانم چوں شمع
از در بختم در آ تا جاں بر افشانم چو شمع
اے وہ ذات تمہارے جمال سے میری جان کی آنکھ شع کی طرح روشن ہے
میری قسمت کے دروازہ سے آ تاکہ میں شمع کی طرح تجھ پر خود کو نثار کروں
زلف چو مقراض برکش رشتۂ جانم ببر
بیش ازیں در آتش ہجراں مسوزانم چو شمع
زلف کو قینچی کی طرح چلا اور جان کے رشتے کو ختم کر
شمع کی طرح ہجر کی آگ میں مجھے اس سے زیادہ مت جلا
آستین و دامنم پر در شد از دریائے چشم
تا علم زد آتش دل از گریبانم چو شمع
آنکھ کے دریا سے میرا دامن اور آستین دونوں پر ہو گیا
شمع کی طرح دل کی آگ گریبان تک پہنچ گئی
آتش خورشید را در مشعل سبز فلک
ہر سحر از آبگیر دیدہ بہ نشانم چو شمع
میں سورج کی آگ کو نیلے آسمان کے شمع دان میں
ہر صبح شمع کی طرح آنکھ کے تالاب میں رکھ دیتا ہوں
اے رخت نو روز عالم آتش جاں سوز غم
چند سوزی در شب یلدائے ہجرانم چو شمع
تمہارا چہرہ دنیا کے لیے نو روز اور جان کو جلانے والی آگ ہے
شمع کی طرح مجھے ہجر کی شب یلدا میں کب تک جلاتا رہے گا
آفتاب از خاطرم شعلہ فروزد گر شبے
آتش دل گر بہ سوزد رشتہ جانم چو شمع
آفتاب اگر کسی شب میرے دل کو فروزاں کرے
تو میری دل کی آگ میری جان کے رشتے میں شمع کی طرح روشن ہو جائے
چند سوزی خویشتن را شمسؔ تبریزی ز عشق
ماورائے سوختن کارے نمی دانم چو شمع
شمس تبریزی خود کو عشق میں کب تک جلاتا رہےگا
مجھے شمع کی طرح جلنے کے علاوہ اور کچھ کام نہیں ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 429)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.