دگر بارہ پریشانم دگر بارہ پریشانم
چناں مستم چناں مستم رہ خانہ نمی دانم
میں اب بھی پریشان ہوں، میں اب بھی پریشان ہوں
میں اتنا مست ہوں، میں اتنا مست ہوں کہ مجھے گھر کا راستہ نہیں معلوم
بیا ساقی بیا ساقی شراب عشق اندر دہ
وگر باشد غبار دل بہ آب دیدہ بہ نشانم
اے ساقی آؤ، اے ساقی آؤ، مجھے عشق کی شراب دو
اگر دل میں غبار ہے تو میں تو اسے اپنی آنکھ کے پانی سے بٹھا دوں گا
نہ مستم من نہ ہشیارم نہ در خوابم نہ بیدارم
نہ با یارم نہ بے یارم نہ غمگینم نہ شادانم
میں نہ مست ہوں، نہ میں ہشیار ہوں، نہ خواب میں ہوں، نہ بیدار ہوں
نہ میں یار کے ساتھ ہوں، نہ میں بغیر یار کے ہوں، نہ میں غمگین ہوں، نہ میں شاد ہوں
چو من خورشید تابانم چرا در ابر پنہانم
چہ بد کردم کہ از ناگہہ اسیر بند و زندانم
جب میں چمکتا سورج ہوں، تو بادل میں کیوں چھپا ہوں
میں نے کیا غلطی کی کہ میں اچانک قید و بند میں مبتلا ہوں
ندانستم ترا قدرے بہ جرم مبتلا کردی
ندانستم ندانستم پشیمانم پشیمانم
میں تمہارے مرتبہ کو نہیں پہچان سکا، تم نے مجھے ہجر میں مبتلا کر دیا
مجھے پتہ نہیں تھا، مجھے پتہ نہیں تھا، میں پشیمان ہوں، میں پشیمان ہوں
خطا از من عطا از تو گناہ از من صواب از تو
بکن شفقت بکن رحمت عفو گرداں گناہانم
مجھ سے خطا سرزد ہوئی، تو عفو کرنے والاہے، میں گناہ کرنے والاہوں، تو پاک ہے
مجھ پر شفقت کرو، مجھ پر رحم کرو، میرے گناہوں کو معاف فرما
اشارت دہ بہ شب خیزی کہ آیا شمسؔ تبریزی
چہ می ترسی چہ می لرزی نمی دانی کہ رحمانم
کسی رات مجھے اشاروں میں بتلا دے کہ اے شمس تبریزی
تو کیوں ڈرتا ہے، تجھے کس بات کا خوف ہے، کیا تجھے نہیں معلوم کہ میں رحمان ہوں
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 461)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.