اگر تو نیستی در عاشقے خام
بیا بگریز زیں یاراں بدنام
اگر تم عشق میں پختہ نہیں ہو تو
آؤ! ان بدنام یاروں سے گریز کرو
تو آں مرغے کہ میل دانہ داری
نباشد در جہاں یک دانہ بے دام
تم وہ پرندہ ہو جسے دانہ کی چاہت ہے
دنیا کا کوئی دانہ جال کے بغیر نہیں ہوتا
حریفا اندر آتش صبر می کن
کہ آتش آب می گردد بایام
اے حریف آگ کے اندر صبر کر
کیوں کہ آگ بھی وقت کے ساتھ ٹھنڈی ہو جاتی ہے
نشاں دہ راہ مے خانہ کدام ست
بدادم من جہانے را بیک جام
ذرا مجھے میخانے کے راستے کی رہنمائی کرو
کیوں کہ میں نے ایک جام کے بدلے ایک دنیا نچھاور کردی ہے
برادر کوئے قلاشاں کدام ست
اگر در بستہ باشد رفتم از بام
بھائی اہل فنا کی گلی کون سی ہے، میری رہنمائی کر دو
اگر اس کا دروازہ بند ہوگا تو میں چھت سے ہو کر چلاؤں گا
بہ پیش میر میخانہ بمیرم
زہے مرگ و زہے برگ و سر انجام
میں پیر مغاں کے سامنے اپنی جان دے دوں گا
اس موت، اس زاد سفر کا کیا کہنا اور اس آخری انجام کا کیا کہنا
بنام شمسؔ تبریزی شود شام
ہمیں باشد مرا معلوم و اعلام
شمس تبریزی کے نام سے میری شام ہوا کرتی ہے
یہی میرے علم کا مرجع اور یہی میری پہچان ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 481)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.