صبح دم مرغ چمن با گل نو خاستہ گفت
دلچسپ معلومات
ترجمہ: قاضی سجاد حسین
صبح دم مرغ چمن با گل نو خاستہ گفت
ناز کم کن کہ در ایں باغ بسے چوں تو شگفت
بلبل نے صبح کے وقت ایک نئے کھلے ہوئے پھول سے کہا
ناز، کم کر اس لیے کہ اس باغ میں تجھ جیسے بہت سے کھلے ہیں
گل بہ خندید کہ از راست نہ رنجیم ولے
ہیچ عاشق سخن تلخ با معشوق نہ گفت
پھول ہنسا کہ سچی بات سے ہم رنجیدہ نہیں ہوتے ہیں لیکن
کسی عاشق نے معشوق کو سخت بات نہیں کہی
گر طمع داری ازاں جام مرصع مے لعل
در یاقوت بہ نوک مژہ ات باید سفت
اگر اس جام سے، لعل جیسی شراب پینے کی تجھے تمنا ہے
تو تجھے پلکوں کی نوک سے موتی اور یاقوت پرونے چاہئیں
تا ابد بوئے محبت بہ مشامش نہ رسد
ہر کہ خاک در مے خانہ بہ رخسار نرفت
اس شخص کی ناک میں قیامت تک محبت کی خوشبو نہ پہنچے گی
جس نے مے خانہ کی خاک، رخسار سے صاف نہ کی
در گلستان حرم دوش چو از لطف ہوا
زلف سنبل ز نسیم سحری می آشفت
جب گذشتہ رات جنت کے باغ میں ہوا کی پاکیزگی سے
نسیم سحری کی وجہ سے سنبل کی زلف بکھر رہی تھی
گفتم اے مسند جم جام جہاں بینت کو
گفت افسوس کہ آں دولت بیدار نہ خفت
میں نے کہا اسے جمشید کی مسند!تیرا جام جہاں نما کہاں ہے؟
اس نے کہا افسوس، وہ جاگتی دولت سو گئی
سخن عشق نہ آنست کہ آید بہ زباں
ساقیا مے دہ و کوتاہ کنیں گفت و شنفت
عشق کی بات وہ نہیں ہے ، جو زبان پر آئے
اے ساقی! شراب دے، اور اس گفت و شنید کو ختم کر
اشک حافظؔ خورد و صبر بہ دریا انداخت
چہ کند سوز و غم عشق نہ یارست نہفتم
حافظ کے آنسوؤں نے صبر اور عقل کو دریا میں پھینک دیا
کیا کرے، عشق کے غم کی سوزش کو چھپا نہ سکا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.