چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
سن ری کوئل باوری تو کیوں ملہاریں گائے ہے
او پپیہا آ ادھر میں بھی سراپا درد ہوں
آم پر کیوں جم گیا میں بھی تو ویسی زرد ہوں
فرق اتنا ہے کہ اس میں رس ہے مجھ میں ہائے ہے
ہائے وہ کیوں چل دیے مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
یہ بھی نہ سوچا کہ یہ مر جائے گی دم توڑ کر
ایسے بے دردی کا دل لوہے سے ٹکر کھائے ہے
چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
کیا یہ بیمار الم اس درد سے بچ پائے گا
یا کہ غم کھا کھا کے یہ فرقت ہی میں مر جائے گا
کچھ تو بولو اے مسیحا کیا تمہاری رائے ہے
چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
او پپیہا چپ بھی رہ بس کر خدا کے واسطے
رین آدھی ہو گئی کیا ہو گیا ظالم تجھے
تیرے پی پی کہنے سے وہ بے وفا یاد آئے ہے
چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
چونچ سونے سے منڈھا دوں تیری پنچھی آ ادھر
میری پتیاں پی کو دے اور پی کی لا دے تو خبر
کہیو بیرنیا سے کیوں مورا جیا کلسائے ہے
چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
کیوں نہ کوسوں گی پیا مضطرؔ تمہاری بھول کو
اپنی سیجوں پر نہ رکھا ما رنگیلے پھول کو
تم نہ آئے بگیا میں رت آئے ہے رت جائے ہے
چھا رہی اودی گھٹا جیرا مورا گھبرائے ہے
- کتاب : خرمن حصہ - ۳ (Pg. 378)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.