Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

معین الارواح اردو ترجمہ مونس الارواح

جہاں آرا بیگم

معین الارواح اردو ترجمہ مونس الارواح

جہاں آرا بیگم

MORE BYجہاں آرا بیگم

    دلچسپ معلومات

    خواجہ معین الدین چشتی کے حالات و کرامات کو فارسی زبان میں مونس الارواح کے نام سے جہاں آرا بیگم نے لکھی ہے جسے مولوی عبدالصمد نے معین الارواح کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    حدِّ قیاس سے زیادہ حمد و سپاس اس صانع قدیم جلّ جلالہ کو جس نے اپنی قدرت کاملہ سے تمام انبیا اور رسول کو اہل انام کا ہادی اور رہنما مقرر فرمایا اور احاطۂ تحریر سے باہر شکر و ثنا اس خالقِ رحیم عمّ نوالہ کو جس نے اپنی صفت شاملہ سے اولیا اور مشائخ کو دین اسلام کا مقتدا اور پیشوا بنایا۔ اے صاحب، اے خداوند، اے بادشاہ جب کہ انبیائے مرسلین اور ملائکہ مقربین کی زبان تیری تعریف میں عاجز ہے، اس ضعیفہ کی کیا مجال کہ تیرے اوصاف میں زبان کھولے۔

    اشعار

    اے بہ و صفت بیانِ ماہمہ ہیچ

    ہمہ آں توزانِ ماہمہ ہیچ

    ہر چند بیند خیالِ ماہمہ نقص

    ہرچہ گوید زبان ماہمہ ہیچ

    مابکنہ حقیقت نہ رسیم

    ایں یقین و گمانِ ماہمہ ہیچ

    اور صلوات طیبات بے انتہا اس پر جس کا لقب سیدالاولین والآخرین رحمۃ للعالمین ہے۔ اور تحّیات زاکیات اس کے واسطے جو باعث ہستی دوجہاں اور شفیع گروہِ عالمیاں ہے۔

    رباعی

    سلطانِ رُسل کزہمہ ہاپاک آمد

    ذ آتش سببِ خلقت افلاک آمد

    در شانِ شریف او حدیث قدسی

    لو لاک لما خلقت الافلاک آمد

    اور آپ کی آل پاک اور اصحاب کبار پر جو اختر برجِ شرافت اور گوہر درجِ ہدایت ہیں، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ جان کہ حضرتِ سبحانہ تعالیٰ نے وجود اولیا کو موجب ثبات قیامِ عالم بنایا ہے اور اس فرقہ کی محبت اور ارادت کو نجات کا وسیلہ مقرر فرمایا ہے۔ مومنین و مومنات کو ان کے سلسلوں سے متعلق کر کے قیامت میں رہائی اور رستگاری کا سبب گرداناہے، اس دن کہ جس کی شان میں آیت کریمہ

    یَومَ یَفِرُّ المَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہ وَبَنیْہِ

    ترجمہ : اس دن یعنی قیامت کے روز بھاگے کا مرد اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور اپنے بیٹے اور بیٹی سے۔

    وارد ہے اور اس روز کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی اور اہل عالم کو طرح طرح کے غم اور ہول اور مصیبتیں لاحق ہوں گی اور مریدوں کے حلقے اپنے پیروں کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوں گے اور بزرگانِ دین کی حمایت میں اُن آفات سے امن میں رہیں گے۔ ہزار حمد و ثنا ہے کارساز بندہ نواز کو کہ حلقۂ اردات سلسلۂ شریفہ چشتیہ کو کہ ممالک وسیع ہندوستان بلکہ معمورۂ جہان میں رواج رکھتاہے اور بہت اولیائے نامدار عالم مقدار اس سلسلہ میں ہوئے ہیں، اِس فقیرہ حقیرہ بنت شاہجہان بادشاہ غازی کے گوش دل و جان میں ڈالا ہے، یہ عاجزہ اگر برسرمو زبان رکھتی ہو اس عطیہ عظیمہ کے شکر سے عاجز ہے اوریہ عاصیہ قطب المشائخ، خلاصۃ الاصفیا، گزیدہ بارگاہِ کبریا، حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی قدس اللہ سرہ العزیز کے مریدانِ بااعتقاد سے ہے اور وہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس اللہ سرہ کے مرید ہیں اور وہ حضرت خواجہ حاجی شریف زندانی کے اور وہ حضرت خواجہ مودود چشتی کے اور وہ حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی کے اور وہ اپنے پدرِ بزرگوار حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی کے اور وہ اپنے پدربزرگوار حضرت خواجہ محمد چشتی کے اور وہ اپنے والدماجد حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی کے اور وہ حضرت خواجہ شیخ اسحاق شامی چشتی کے اور وہ حضرت خواجہ ممشاد ومینوری کے اور وہ حضرت خواجہ ہیبرۃ البصری کے اور وہ حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی کے اور وہ حضرت سلطان ابراہیم ادہم بلخی کے اور وہ حضرت فضیل ابن عیاض کے اور وہ حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید کے اور وہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اور وہ حضرت امیر المومین امام المتقین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے اور وہ حضرت خیرالخلق احمد مجتبیٰ محمد مصفطیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کے مرید تھے، اس سلسلہ متبرکہ کا شجرہ طیبہ سفیۃ الاولیا سے جو اس حقیرہ کے بھائی اور مرشد صاحب ظاہر و باطن سعادت پژوہ سلطان محمد داراشکوہ قادری مد اللہ ظلہ کی تصنیفات سے ہے، نقل کیا اور اس رسالہ کا مونس الارواح نام رکھا۔ امیدوار ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عنایت بیغایت مریدان صادق الاعتقاد کے حال پر مبذول رہے اوردنیا و آخرت میں دستگیری کرے۔ واللہُ الْمُوَ فِقُ فِیْ کُلّ الاُمُوْرِ

    نقل ہے کہ حضرت سلطان الاولیا، سیدالاتقیا، سراج العارفین، معین الملت والدین، محمد حسن الحسنی السنجری الچشتی قدس اللہ سرہ مشائخ کبار میں کرامت اور کمال اور درجات عالیہ کے ساتھ مشہور و معروف ہیں، ولادت باسعادت ولایت سجستان میں ہوئی اور دیار خراسان میں نشو و نما پائی۔ آپ کے پدربزرگوار نقاوہ دودمانِ نبوی خلاصہ خاندانِ مصطفوی تاج السالکین حضرت خواجہ غیاث الدین حسن سنجری چشتی رحمتہ اللہ علیہ صاحبِ زہد و تقویٰ عابد و پارسا تھے، جب انہوں نے انتقال فرمایا حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہ کی عمر پندرہ برس کی تھی۔

    والد ماجد کی میراث سے آپ کو ایک باغ اور ایک پن چکّی پہنچی تھی، آپ اس کے محصول سے اپنی اور متعلقین کی اوقات بسری کرتے تھے، کہتے ہیں کہ وہاں ایک مجذوب اہل حال صاحب کشف و کمال رہتا تھا، اس کو ابراہیم قندوزی کہتے تھے ایک روز حسب ایمائے غیبی خواجہ صاحب کے باغ میں آیا، آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے جب مجذوب کو دیکھا سامنے جاکر رسم ادب و تعظیم بجالائے اور اس کے ہاتھ چوم کر ایک سایہ دار درخت کے نیچے بٹھلایا اور چند خوشہ ہائے انگور پیش کئے، ابراہیم نے کھا کر ایک کھل کا ٹکڑا بغل سے نکالا اور اس پر دانت مار کر حضرت خواجہ صاحب کو کھلایا، کھاتے ہی آپ کے دل میں ایک نورظاہر ہوا اور دنیا و ما فیھا کی محبت دل سے زائل ہوئی، باغ اور ملک کو فروخت کر کے فقرا و مساکین کو نفقہ کیا اور سمر قند و بخارا کی طرف روانہ ہوئے، ایک مدت تک وہاں رہ کر علم ظاہری کی تکمیل فرمائی اور قرآن مجید حفظ کیا پھر عراق و عرب کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب قصبہ ہارون میں کہ نواحی نیشاپور میں ہے، پہنچے منبع جو دو احسان قطب آسمان عرفا خواجہ عثمان ہارونی قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے، خواجہ ہارونی رحمۃ اللہ علیہ اکابر مشائخ سے ہوئے ہیں، لکھا ہے کہ ایک وقت حضرت خواجہ عثمان کا گزر مغوں کے مسکن میں ہوا وہاں بہت بڑا آتش خانہ تھا، اس میں ہر روز بیس چھکڑے لکڑیاں ڈالی جاتی تھیں اس کے قریب فروکش ہوئے، آپ کا خادم چاہتا تھا کہ افطار کے واسطے روٹی پکائے، آگ لینے کے واسطے جب ادھر گیا مغوں نے پہچانا کہ مسلمان ہے، مانع ہوئے۔ خادم نے آکر حضرت سے حال عرض کیا۔ آپ وضو کر کے آتش کدے کی طرف تشریف لے گئے، مختار نام، جو آتش پرستوں کا سردار تھا، اس کی گود میں ایک سات برس کا لڑکا تھا، آپ نے اس مغ سے پوچھا کہ تم لوگ اس آگ کی پرستش کس واسطے کرتے ہو اور جوکہ آگ اور کل مخلوق کا خالق ہے اس کی عبادت نہیں کرتے، اس نے جواب دیا کہ ہمارے دین میں آگ کا بڑارتبہ ہے اورہم اس واسطے اس کی پرستش کرتے ہیں کہ قیامت کے روز ہم کونہ جلائے، آپ نے کہا کہ اتنے سال سے تم آتش پرستی کرتے ہو ایسا بھی ہوسکتاہے کہ تم آگ کو ہاتھ پر رکھو اور نہ جلائے، اس نے کہا کہ آگ کی خاصیت جلانا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا یہ کہہ کر آپ نے اس لڑکے کو اس مغ کی بغل سے اپنی گود میں لے کر آگ کا قصد فرمایا۔ مغوں نے شور کیا کہ اے شیخ یہ کیا کرتاہے۔ حضرت شیخ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر زبان پرلائے قُلنَا یانَارکُوْنِیْ بَرْداً وَّ سَلاَماً عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَاَرادُوا بِہ کَیْداً فَجَعَلْنَا ھُمُ الْاٰخِرِیْنَ۔

    ترجمہ : ہم نے کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ فریب کا ارادہ کیا پس اس کو بہت خسارہ پانے والوں میں سے کیا۔

    اور آگ میں داخل ہوئے، کئی ہزار آتش پرست وہاں موجود تھے۔ سب نے غل مچایا تھوڑی دیر بعد آپ معِ طفل آگ سے باہر آئے اور لڑکے اور آپ کے جامہ ٔمبارک پر بھی آگ کا اثر نہ پہنچا ۔مغوں نے لڑکے سے پوچھا تونے اس آتش خانہ میں کیا دیکھا، کہاکہ وہاں ایک باغ تھا، اس میں طرح طرح کے پھول کھلے تھے اور عجیب بہار تھی۔ مغوں نے جب یہ کرامت دیکھی سبھوں نے اخلاص کی روسے اپنا سرپائے مقدس پر رکھا اور صدق دل سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے، آپ نے مختار کا نام شیخ عبداللہ اور لڑکے کا نام ابراہیم رکھا۔ یہ دونوں کامل ولی ہوئے پھر مغوں نے اس آتش خانہ کو خانۂ خدا بنایا اورعبادت میں مشغول ہوئے۔ ڈھائی برس تک آپ وہاں مقیم رہے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی وفات مکہ معظمہ میں ماہ شوال کی چھٹی تاریخ واقع ہوئی۔ الغرض حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے بیس سال اور چھ ماہ حضرت شیخ قدس اللہ سرہ کی خدمت میں ریاضت اور مجاہدہ کے ساتھ بسر کئے اور کام کو انجام پر پہنچایا۔ آپ سفر و حضر میں اپنے پیر ومرشد کا جامۂ خواب اور چھاگل اور جانماز وغیرہ اپنے سر پر لئے پھرتے تھے، پھر حضرت مرشد سے خرقۂ خلافت حاصل کر کے قصبہ سنجر میں تشریف لائے۔ دو ماہ اور پندرہ روز وہاں رہ کر قصبہ جیلان میں پہنچے اورحضرت غوث الثقلین محبوب سبحانی شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس اللہ روحہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قصبۂ جیل بغداد شریف سے سات روز کی راہ ہے۔ آپ پانچ مہینے اورسات روز حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے۔ خواجہ صاحب کا حجرۂ متبرکہ اس مقام فرخ فرجام میں اب تک موجود ہے، پھر وہاں سے ہمدان میں اور ہمدان سے تبریز میں پہنچے اور وہاں کے بزرگوں سے ملاقات کی۔ نقل ہے کہ حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے پیر حضرت خواجہ قطب الدین احمد بن موسیٰ اوشی سے سنا کہ فرماتے تھے کہ میرے پیر و مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ ریاضت و مجاہدہ عظیم رکھتے تھے۔ سات روز کے بعد ایک روٹی کے ٹکڑے کو جو پانچ مثقال سے زیادہ (ایک مثقال ساڑھے چارماشہ کا ہوتاہے) نہ ہوتا تھا، پانی میں بھگوکر افطار کرتے تھے اور شیخ نظام الدین بدایونی قدس اللہ سرہ سے منقول ہے کہ حضرت خواجہ دوتائی بخیہ زدہ پہنتے تھے اور ہر جنس کے پرانے کپڑوں سے پیوند لگاتے تھے اور شیخ شکر گنج نے فوائد الفواد میں تحریر فرمایا ہے کہ

    ’’میں نے اس دوتائی کو دیکھا ہے۔ لکھا ہے کہ وہ جامہ متبرکہ حضرت شیخ نظام الدین کو ملا‘‘

    اور کہتے ہیں کہ خرقہ بھی پایا اور حضرت خواجہ غریب نواز نے جب حضرت خواجہ عثمان علیہ الرحمہ والغفران سے خرقہ حاصل کیا آپ کی عمر شریف باون سال کی تھی اور مشغولی کامل رکھتے تھے اور اکثر قدم تجرید و تفرید کے ساتھ سفر کرتے اور جہاں پہنچتے اکثر قبرستان میں رہتے اور ہر روز قرآن مجید کے دو ختم لازم فرئے تھے اور آپ چاہتے تھے کوئی شخص آپ کے حال سے واقف نہ ہو۔ جب کوئی مطلع ہوجاتا پھر وہاں توقف نہ فرماتے اور اظہار کرامت و خوارق سے اجتناب رکھتے تھے اور حضرت خواجہ ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ معین الدین، اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور مجھے اس کے مرید ہونے سے فخر ہے اور جب آپ اپنے پیر برحق سے مرخص ہوئے بغداد شریف اور تبریز اور استرباد اور ہرات میں ایک مدت تک قیام پذیر رہے۔ اکثر راتوں کو شیخ الاسلام شیخ عبداللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے بقعۂ شریفہ میں رہتے اور دن کو سیر میں گذارتے تھے اور ایک مقام میں کم قیام فرماتے تھے اور ایک خادم کے سوا دوسرا خدمت میں نہیں رہتاتھا اور اکثر صبح کی نماز عشا کے وضو سے ادا کرتے تھے۔ جب ہرات میں شہرت پائی قدم مبارک سے سبزوار کو رونق بخشی۔ وہاں کا حاکم محمد یادگار نام بے دیانتی اور بدخلقی اور ظلم کے ساتھ مشہور تھا۔ آپ اس کے باغ میں تشریف لاکر حوض کے کنارے پر بیٹھے۔ وہ بھی وہاں آیا، جب اس کی آنکھ حضرت پر پڑی، اس کے تمام اعضا میں لرزہ پڑا اوراوندھے منہ گر کر بیہوش ہوگیا اور اس کے رفیقوں پر خوف غالب ہوا۔ آپ نے اس حوض کا پانی اس کے منہ پر مارا، وہ ہوش میں آیا پھر حضرت نے بلند آواز سے فرمایا کہ تونے توبہ کی۔ اس نے عجز تمام کے ساتھ کہا کہ میں نے توبہ کی اورجو لوگ اس کے ہمراہ تھے، وہ تائب ہوئے۔ پھر آنے فرمایا کہ وضو کر کے دوگانۂ شکر ادا کرو سب نے ادا کیا اور پھر محمد یادگار اپنے تابعین کے ساتھ آپ کا مرید ہوا اور جو کچھ اس کے تصرف میں تھا راہِ خدا میں صرف کیا پھر حضرت خواجہ وہاں سے بلخ کو تشریف لے گئے۔ اس جگہ ایک حکیم تھا، ضیاؤالدین نام، وہ اہلِ تصوف کی طرف سے بداعتقاد تھا۔ کہتا تھا کہ علم تصوف ایک ہذیان ہے کہ تب زدہ اور دیوانہ زبان پر لاتے ہیں اور آپ کے خادم کے ساتھ تیر و کمان اور چقماق اور نمکدان کے ساتھ رہتا تھا۔ جب کبھی آبادی سے دور پڑتے، جنگل میں گزرتے اور قوت کے واسطے شکار کرکے بے شبہ لقمہ سے افطار فرماتے ایک دن ایک کلنگ کا شکار کیا تھا۔ جب شہر میں داخل ہوئے جہاں حکیم ضیاؤالدین علم حکمت کا درس کہتاتھا، وہاں آپ کا گزر ہوا۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھے خادم کباب بناتاتھا اورحضرت مخدوم نماز میں مشغول تھے۔ حکیم نے دیکھ کر چاہا کہ وہاں جاکر بیٹھے اور کباب سے ایک حصہ پائے۔ آپ کے دیدار کے مشاہدے سے حکیم کے دل میں اثرِ عظیم پیدا ہوا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے حکیم نے سلام کیا اور خادم نے حضرت کی خدمت میں کباب حاضر کئے۔ آپ حکیم کی خواہش پر واقف ہوئے اور بسم اللہ کہہ کر کباب سے ایک ران عطا کیا اور آپ کباب کھانے میں مشغول ہوئے، اس کے کھاتے ہی ضیاؤالدین کے سینہ سے فلسفیات کی تاریکی یکبارگی زائل ہوئی۔ نورِ معرفت دل میں چمکا اوربیخودی طاری ہوئی۔ اس حال میں آپ نے اس کباب کا کچھ گوشت دہن مبارک سے جھوٹا کر کے اس کے منہ میں ڈالا، وہ ہوش میں ہوا۔حاصل کلام فلسفہ کی تمام کتابوں کو پانی میں ڈال کر اپنے شاگردوں کے ساتھ تائب اور آپ کا مرید ہوا۔ بعدہٗ آپ نے لاہور کا قصد فرمایا۔ پھر دہلی میں تشریف لائے۔ چند روز وہاں اقامت کی۔ جب خلقت کا ہجوم بہت ہوا، اجمیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ نقل ہے کہ جب آپ اپنے پِیر سے نعمت حاصل کر کے مکہ معظمہ میں پہنچے اور اس جگہ سے مدینہ منورہ کو تشریف لے گئے، ایک مدت تک وہاں مشغول رہے، ایک روز حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ وسلم کے روضہ مقدسہ سے آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہمارے دین کا معین ہے، ہندوستان کی ولایت تجھ کو حوالہ ہوئی۔ وہاں جاکر اجمیر میں اقامت کر، اس سر زمین میں کفر کا بہت غلبہ ہے۔ تیرے جانے سے اسلام قبول ہوگا۔ یہ سن کر حضرت خواجہ صاحب کو حیرت ہوئی کہ اجمیر کدھر ہے۔ اس فکر میں آپ کو کچھ غنودگی پیداہوئی اور حضرت رسول مقبول کو واقعہ میں دیکھا۔ حضرت سیدالثقلین نے ایک طرفۃ العین میں تمام عالم مشرق سے مغرب تک خواجہ صاحب کو دکھایا اور اجمیر کے قلعہ اور پہاڑوں کا نشان بتلایا اور ایک انار عطا کرکے فریا کہ جامیں نے تجھے خدا کو سونپا۔ القصہ آپ نے مدینہ منورہ سے ملک ہند کا عزم مصمم فرمایا اور آپ شہروں کی سیر کرتے ہوئے اور مشائخ اور درویشوں سے ملتے ہوئے آتے تھے اور چالیس آدمی معتقدین اور مریدوں سے ہمراہ تھے۔ اس وقت اجمیر کا حاکم پتھورانام کاتھا۔ اس کی ماں علم نجوم سے بہرہ ٔوافر رکھتی تھی۔ اس نے آپ کے وہاں پہنچنے سے بارہ برس پہلے پتھورا سے کہا تھا ایک مرد بزرگ پیدا ہوگا جس کے سبب تیری دولت اور سلطنت بربادہوگی۔ اس سبب سے وہ ہمیشہ اندوہ گیں رہتاتھا اور پتھورا کی والدہ نے آپ کا حلیہ لکھ کر اس کو دیا تھا، اس نے وہ حلیہ لکھوا کر جابجا بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ جس کو اس حلیہ کے مطابق پاؤ اس کو گرفتار کر لاؤ۔

    روایت ہے کہ جب آپ قصبہ سِمانہ میں تشریف لائے پتھورا کے آدمیوں نے آپ کو اس حلیہ کے مطابق پاکر از راہِ فریب ،تملّق و تواضع سے پیش آکر کہا کہ ہم نے آپ کے واسطے ایک مناسب جگہ معین کی ہے، آپ وہاں تشریف رکھیں۔ خواجہ صاحب نے مراقبہ کیا اور مکاشفہ کے عالم میں حضرت رسولِ کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کو دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ معین الدین اِس گروہ ناہنجار کے قول کا اعتبار نہ کر یہ تجھ کو مضرت پہنچانا چاہتے ہیں۔ آپ نے اس امر سے خبردار ہوکر ان سے انکار کیا اوراپنے ہمراہیوں کو اِس حال سے اطلاع بخشی پھر اجمیر کا قصد فرمایا۔ جب آپ اجمیر میں پہنچے چاہا کہ ایک درخت کے تلے قیام کریں، ایک شخص نے آواز دی کہ یہاں راجہ کے اونٹ باندھے جاتے ہیں اورکہیں ٹھہرو۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا ہم اورجگہ جاتے ہیں بعدہٗ حضرت خواجہ صاحب اَنا ساگر کے کنارے پر پہاڑ کے متّصل فروکش ہوئے اورراجہ کے اوُنٹ جووہاں باندھے گئے ،ہر چند ساربانوں نے اُٹھایا اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ پرتھوی راج یہ بات سُن کر بہت ملول ہوا۔ لکھا ہے کہ اس وقت کئی ہزار بتخانہ ساگر کے کنارے پر تھے اور اُن میں کئی مَن روغن اورپھولوں کا روزمرّہ صرف تھا۔ نقل ہے کہ جب اَناساگر کے کنارے قیام پذیر ہوئے، ایک خادم نے ایک شکار کے کباب تیار کئے۔ ہنود کا جگر آتشِ غیرت سے کباب ہوا اور آپ کے آدمی جب وُضو اورغسل کے واسطے اُدھر گئے، وہ لوگ مانع ہوئے ۔ خواجہ والا صفات نے جب یہ بات سنی ایک مرید سے کہا کہ اِس چھاگل میں تالاب سے پانی بھرلا۔ جب اُس نے بھرا تو تمام ساگر کا پانی خشک ہوگیا اوراُس شہر اور اُس کے حوالی میں جہاں کوئی چشمہ یا پانی تھا بے آب ہوا، بلکہ چوپایوں اوربچہ دارعورتوں کا دودھ بھی پستانوں میں سوکھ گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک جن جس کو پتھورا اوراُس کا باپ اوراہل شہر پوجتے تھے اوراپنا اقبال و دولت اُس کی بدولت جانتے تھے اورچند پرگنہ اس کے خرچ کے واسطے وقف کئے تھے وہ جن ترساں اور لرزاں آپ کے پاؤں پر آگرا اورمسلمان ہوا ۔حضرت نے مناٰدی اس کا نام رکھا۔ الحاصل جب یہ خبر پتھورا کو پہنچی اُس کی والدہ نے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے آنے کی خبر میں نے تجھے دی تھی ۔خبر دار اس شخص سے کچھ جھگڑا نہ کرنا بلکہ اُس کو بہت خوش رکھنا۔ روایت ہے کہ رانی پتھورا نے اجے پال جوگی کے پاس جو بڑا جادوگر تھا، اپنا آدمی بھیجا۔ اُس نے یہ جواب دیا کہ اُس صاحب جاہ سے یوں عرض کرنا کہ آپ اطمینان رکھیں ،یہ سب جادو ہے، میں اس کا علاج بخوبی تمام کروں گا۔ یہ سُن کر پتھورا نے کہلا بھیجا کہ میں وہاں جاتاہوں تواپنا بندوبست کرکے جلد آ ۔راجہ اثنائے راہ میں حضرت خواجہ صاحب کی نسبت ایذارسانی کا ارادہ کرتاتھا ،اندھاہوجاتاتھا اورجب اِس قصدسے باز آتا بینائی پاتاتھا۔ اس طرح سات بار بینا اورنابینا ہوا۔ آخر ارادۂ فاسد دل سے باہر کیا اورخدمت میں حاضر ہوا ۔اجے پال بھی سات سو مارِ خونخوار جو جادو سے اُس کے مسخر تھے اورایک ہزار پانچ سو چکّر کہ ہَوا میں مُعلق ہوکر دشمنوں کے سرپر گرتے تھے اورسات سو شاگردوں کے ہمراہ آپہنچا اورطرح طرح کے جادو چلائے مگر کوئی کارگر نہ ہوا اورجب چکروّں کو ہَوا پر پہنچاکر آپ کی طرف پہنچتا تھا وہ برگشتہ ہوکر اُس کے شاگردوں پر گرکر ہاتھ پاؤں توڑتے تھے اور زخمی کرتے تھے اورجوسانپ جادو کے زور سے چلاتاتھا وہ سب زمین میں سماجاتے تھے اورلکھا ہے کہ اجے پال جب کسی سے جنگ کرتا،کوئی شخص اُس سے لشکر غنیم کے مغلوب کرنے کے واسطے مدد چاہتا وہ اُن چکّروں کو کوسوں تک رواں کرتاتھا ،وہ جاکر دُشمنوں کے سر اُڑا دیتے تھے۔ القصّہ جب اجے پال ہر طرح سے عاجز ہوا تو اُس نے فی الحال ہرن کی کھال ہَوا پر پھینکی وہ معلق ٹھہرگئی اورآپ دم کھینچ کر اورجست مار کر اُس پر جابیٹھا اوردم بدم آسمان کی طرف اڑاجاتاتھا اوراُس کے آدمی بہت خوش ہوتے تھے۔ حضرت سرور اولیا نے تھوڑی دیر کے بعد مراقبہ سے سراُٹھا کر فرمایا کہ اجے پال کہا ں تک پہنچاہے۔ آپ کے معتقدین سے ایک نے عرض کیا کہ ایک پرندہ کے برابر معلوم ہوتاہے ۔پھر آپ نے ایک لمحہ کے بعد استفسار کیا کہ اب کتنی بلندی پر ہے ،کہا کہ نظر سے غائب ہے ۔خواجہ خواجگان نے اپنے نعلین کو اشارہ کیا وہ فی الفور ہَوا کی طرف اڑا اور جوگی کے سر پر پہنچ کر زدوکوب شروع کردیا۔ اجے پال کے نالہ وفریاد کی آواز حاضرینِ جلسہ سنتے تھے۔ المختصر وہ نعلین اُس کو مارتے مارتے ہَوا سے زمین پر اُتار لائے۔ اجے پال حضرت کے پاؤں پر گِرا اورامان چاہی۔ آپ نے اشارہ سے منع فرمایا۔ ضربیں موقوف ہوئیں۔ جب پتھورا اور اجے پال نے یہ حال دیکھا تضّرع اورزاری کرنے لگے اورساگر کے پُر آب ہونے اوراونٹوں کے بارے میں التجا کی۔ خواجہ صاحب نے اجے پال سے فرمایا کہ چھاگل کو اٹھالا۔ اس نے ہر چند زور کیا اُٹھا نہ سکا۔ پھر آپ نے شادی جن سے ایما کیا وہ اُٹھا لا یا۔ آپ نے اس سے تھوڑا سا پانی ساگر کی طرف چھڑکا ۔اُس فیض مآب کے فیض سے سب حوض اور چشمے اور کنویں پُر آب ہوگئے اور اونٹ بھی اُٹھ کر چراگاہ کو گئے۔ اِن کرامتوں کے ظاہر ہونے اورمطلع ہوجانے سے مخالفین بہت حیران اورپشیمان ہوئے اورکہا کہ ہم نے تمام عمر اس جن کی پرستش اوراجے پال کی خدمت کی اوراِ ن کے واسطے خزانے صرف ہوئے مگر کچھ کام نہ آیا۔ الغرض اجے پال نے دست بستہ عرض کیا کہ حضرت کو سرِ مقامات میں کہاں تک رسائی ہے۔ آپ نے مراقبہ کیااور روح مظہر عالم ملکوت میں داخل ہوئی۔ اجےپال بہت مجاہدہ اورریاضت کئے ہوئے تھا۔ اُس کی روح کو قوتِ استدراج حاصل تھی ۔اُس کی روح آپ کی روحِ مبارک کے پیچھے پیچھے جارہی تھی یہاں تک کہ وہ پہلے آسمان پر گزری۔ حضرت خواجہ چشتی ؒ کی روح نے بالائے فلک عروج فرمایا اوراجے پال کی روح آسمان پر نہ جاسکی ۔تضّرع وزاری کی کہ مجھے بھی ہمراہ لے چلئے آپ کی روح مقدس اُس کی روح کو ساتھ لے کر عرش معلیٰ تک پہنچی اور آپ کی روح کی برکت سے اجے پال کی روح کے سامنے سے حجاب اُٹھ گیا تھا ۔فرشتے ہر مقام پر جو حضرتِ خواجہ صاحب کی تعظیم وتکریم کرتے تھے ،یہ سب دیکھتے تھے۔ جب روح مطہر منزل قرب پر پہنچی اجے پال کی روح آگے جانے نہ پائی۔ بہت گِڑگڑائی اورعرض کیا کہ مجھے تنہا نہ چھوڑئے کہ میں بھی حضرت حق جل وعلا کی قدرت کا تماشا کروں ۔حضرت حقیقت آگاہ کی روح نے فرمایا کہ توجب تک صدق دل سے خدائے مطلق اوررسول برحق پر ایمان نہ لائے گا، آگے داخل نہ ہوپائے گا۔ اجے پال کی روح نے خلوص دل کے ساتھ کہا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ اورایمان لایا ۔پھر التماس کیا کہ یاحضرت ایک یہ تمنّا اورہے کہ میں قیامت تک زندہ رہوں۔ آپ نے مناجات کی، آواز آئی کہ تیری دعا قبول ہوئی۔ پھر خواجہ صاحب نے اپنا ہاتھ اجے پال کے سر پر رکھ کر فرمایا کہ تو قیامت تک زندہ رہے گا۔ القصّہ دونوں روحوں نے دوزخ اوربہشت اورعرش وکرسی وغیرہ کی سیر کر کے عالم سفلی کی طرف رجوع کیا ۔جب آپ نے آنکھ مراقبہ سے کھولی اجے پال کلمہ طیبہ کہتا ہوا قدموں پر گرا۔ وہاں ایک خلقت کا ہجوم تھا ۔یہ حال دیکھ کر سب حیرت میں آئے اوررائے پتھورا اوراُس کے گروہ کے آدمی نادم وشرمندہ ہوکر گھر کو روانہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ اجے پال اب تک زندہ ہے اوراجمیر کے کوہستان میں اکثر مشغول عبادت رہتاہے اورحضرت خواجہ ؒ کے روضۂ مبارک کو آیا کرتاہے۔ منقول ہے کہ آپ نے رائے پتھورا کو اسلام کی ہدایت فرمائی۔ وہ کج رائے شقی ازلی ایمان نہ لایا اورآپ کی بددعا سے لشکر اسلام کے ہاتھوں گرفتار ہوکر داخلِ جہنم ہوا۔ اِس کا ذکر آگے آئے گا۔ انشا ء اللہ تعالیٰ۔

    قصہ کوتاہ اجے پال اورشادی جن آپ کو بہت منت اور عاجزی کرکے شہر میں لائے ۔آپ نے شادی جن کا مقام بخوشی تمام اختیار فرمایا اوروہاں عبادت خانہ اورمطبخ بنایا اورجہاں باورچی خانہ تھا، اب وہاں آپ کا روضۂ منورہ ہے ۔حضرت قطب الدین بختیار کاکی سے مروی ہے کہ میں بیس سال تک حضرت خواجہ خواجگان قدس اللہ سرہٗ کی خدمت میں رہا، ہرگز نہ دیکھا کہ کسی کو اپنے پاس آنے دیا ہو اورجب مطبخ میں کچھ نہ رہتا تو خادم آکر عرض کرتا۔ آپ مصّلیٰ اٹھا کر فرماتے کہ اِتنا خرچ لے کہ آج اورکل کے واسطے کفایت کرے ۔خادم اُسی قدر لیتا۔ ہمیشہ درویشوں کو وظیفہ آپ کی طرف سے پہنچتا تھا اورجو کوئی مسافر یا مریض آتا دل کا مقصد پاتا ۔مصّلیٰ کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو کچھ ملتا عطا فرماتے اورچارہ جوئی کرتے۔ حضرت قطب الاقطاب سے مذکور ہے کہ ایک شخص پتھورا کے یہاں سے مرید ہونے کے ارادے سے حاضر ہوا ۔آپ نے اس کو مرید نہ کیا۔ وہ واپس گیا اورپتھورا سے آپ کا شکوہ کیا ۔اُس نے ایک شخص آپ کے پاس بھیجا اورپیغام دیا کہ آپ نے اِس شخص کو کس واسطے مرید نہیں کیا۔ فرمایا کہ اس کی تین وجہیں ہیں ۔ اوّل یہ کہ وہ بڑا گنہگار ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم اُس آدمی کو کلاہ نہیں دیتے جو دوسرے کے سامنے سرجھکادے ۔تیسری یہ کہ ہم نے لوح محفوظ میں لکھا دیکھا ہے کہ وہ اِس جہان سے بے ایمان جائے گا۔ راجہ نے جب یہ بات سنی غضبناک ہوکر کہا کہ یہ درویش غیب کی باتیں کہتا ہے۔ اِس سے کہہ دو کہ اس شہر سے باہر چلا جائے۔ حضرت ولی اللہ نے جب یہ پیغام سنا متبسم ہوکر فرمایا کہ اُس سے کہہ دینا کہ ہمارے اورتیرے درمیان تین دن کی مہلت ہے۔ یا ہم چلے جائیں گے یا تو ۔چنانچہ ایساہی ہوا کہ تین روز کے بعد سلطان معزالدین بن سام کا لشکر اسلام اجمیر میں آپہنچا اور فتحیاب ہوکر راجہ کو گرفتار کیااور وہ شخص جو مرید ہونے کے واسطے آیا تھا اسی تلکہ میں دریا میں ڈوب کر مرگیا ۔اورپتھورا پر آپ کے خشمگیں ہونے کا سبب اس طرح بھی لکھا ہوا دیکھا کہ پتھورا ایک مسلمان کو رنجیدہ کرتاتھا اوروہ آپ کے پاس شکایت لایا۔آپ نے اپنا آدمی بھیج کر اُس کو اِس فعل شینع سے منع فرمایا مگر وہ باز نہ آیا۔ جب آپ اِس بات سے واقف ہوئے، غصہ میں آکر کہا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کرکے دیا۔ اُنہیں دنوں میں سلطان غوری لشکر جرّار کے ساتھ نواحیٔ اجمیر میں آپہنچا اور پتھورا لشکر اسلام سے مقابلہ کرکے زندہ گرفتار ہوا ۔تبھی سے ہندوستان میں دین اسلام نے قوت پائی اورکفر وضلالت کی جڑ اُکھاڑی گئی ۔ الحمد للہ علی ذالک

    حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے بعض کلمات قدسی آیات

    فرمایا کہ عاشق کا دل محبت کا آتشکدہ ہے جو کچھ اُس میں آئے جل جائے اورناچیز ہوکس واسطے کہ کوئی آگ آتشِ محبت سے زیادہ نہیں اورندّیاں جب جاری ہوتی ہیں ،اُن سے شور اورآواز پیدا ہوتی ہے اورجب دریا میں مل جاتی ہیں آواز نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب طالب ذات حق سے واصل ہوتاہے خاموش رہتاہے اورجوش وخروش دنیوی زائل ہوجاتاہے اورفرمایا کہ میرے پیرومرشد نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کے ایسے دوست ہیں کہ اگر دنیا میں تھوڑی دیر بھی محجوب ہوں نابود ہوجائیں اورجس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اُس کو دوست رکھے گا۔ اوّل سخاوت۔ سخاوت دریا کی مانندہے ۔دوسری شفقت ۔ شفقت آفتاب کی مثال ہے کہ تمام جہان میں اس کا نور اورفیض پہنچتاہے۔ تیسری تواضع، زمین کی تواضع کی طرح اورفرمایا کہ نیکوں کی صحبت ،کار نیک سے بہتر ہے۔ اورمرید توبہ میں اس وقت ثابت قدم ہوتاہے کہ بائیں طرف کا فرشتہ بیس برس تک اُس کا کوئی گناہ نہ لکھے اورصوفی فقر کا مستحق جب ہوتاہے کہ عالم فانی میں اُس سے کچھ باقی نہ رہے اورمُحب وہ ہے کہ مطیع ہو اوراِس بات سے ڈرے کہ دوست مجھ کو نکال نہ دے اورعارف کا ایک مرتبہ یہ ہے کہ جب وہ اُس مقام پر پہنچتا ہے تو تمام عالم اورجو کچھ اُس میں ہے اسے اپنی دو انگشت کے درمیان دیکھتاہے۔

    اورعارف وہ ہے کہ جو کچھ وہ چاہے وہ سامنے آجائے اور جس چیز سے کلام کرے اس سے جواب پائے اورفرمایا کہ ہم برسوں اِس کام کے درپے رہے آخر کار ہیتہ کے سِوا کچھ نصیب نہ ہوا اورارشاد کیا کہ گناہ اتنا ضرر نہیں رکھتا جتنا برادرمسلمان کو خوار رکھنا اورجب تک محبت، حق کے صیقل سے دُنیا کے زنگار ،دل کے آئینہ سے دُور نہ کرے اوراللہ تعالیٰ کے ذکر سے موانست نہ پکڑے اورجب تک غیر کی ہستی درمیان سے نہ اُٹھے بندہ ہر گز واصل نہیں ہوسکتا اورخدائے عزّوجل کوپہنچاننے کی شناخت خلقت سے بھاگنا اورمعرفت کے حال میں خاموش رہنا ہے اورسالک جب تک معرفت کو یاد نہ کرے عارف نہیں اورعارف وہ شخص ہے کہ غیر خدا کو دل سے اُٹھادے کہ یگانہ ہوجاے جس طرح دوست یگانہ ہے اوراہل محبّت وہ ہیں کہ اُن کے اورحق ِتعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو اورعارف وہ ہے کہ اندوہگین اوردرد مند ہو اورجس نے نعمت پائی سخاوت وکرم سے۔اور چار چیزیں گوہر نفس ہیں۔ اوّل درویشی کو تونگری دکھلائے۔ دوسری گر سنگی کہ سیری ظاہر کرے۔ تیسری اندوہگینی کہ خُرمی کا پیرا یہ رکھتی ہو۔ چوتھی وہ کہ دشمن کے ساتھ دوستی کرے۔ اورفرمایا کہ حضرت خواجہ عثمان علیہ الرحمۃ فرماتے تھے کہ مومن وہ ہے کہ تین چیزوں کو دوست رکھے۔ پہلی چیز فقر وفاقہ۔ دوسری چیزبیماری۔ تیسری چیز موت جو شخص ان تین چیزوں کو دوست رکھے گا اللہ تعالیٰ اوراُس کے فرشتے اُ س کو دوست رکھیں گے اوربہشت اُس کی جگہ ہوگی اوردرویش وہ ہے کہ جوکوئی اہل ایمان اُس کے پاس حاجت لائے اُس کو محروم نہ رکھے اورعارف وہ ہے کہ جہان سے دل برداشتہ رہے اورمتوکل وہ ہے کہ خلق سے رنج ومحنت کو منقطع کرے نہ کسی سے حکایت کرے نہ شکایت۔ اورعارف ترین خلق وہ ہے کہ متحیر ہو اورعارف وہ ہے کہ جب صبح کو اٹھے رات کی یاد نہ آوے اورارشاد کیا کہ موت کودوست رکھنا اورراحت کو چونڑنا اوریاد مولا کے ساتھ مانوس ہونا عارف کی علامت ہے اورفاضل ترین اوقات وہ ہے کہ وسواس کا دروازہ خاطر پر بندھا ہوا ہو اور علم بحر محیط ہے اورمعرفت اُس کی ایک ندّی ہے پس خدا ئے بزرگ کہاں اوربندہ کہاں ،اللہ تعالیٰ کو علم ہے اوربندے کو معرفت اوراہل معرفت آفتاب کی مانند ہیں کہ تمام عالم پر ٹکتی ہیں اورآدمی منز ل گاہِ قرب میں نہیں پہنچتا مگر اہتمام نماز سے اس لئےکہ نماز مومن کی معراج ہے اورارشاد کیا کہ میں ایک مدّت تک کعبہ کے گرد طواف کرتاتھا جب سے واصل حق ہوا ہوں کعبہ میرے گرد طواف کرتاہے اوربیان فریاکہ جسد حضرتِ آدم علیہ السلام سے لغزش واقع ہوئی تمام چیزوں نے حضرت آدمؑ پر زاری کی مگرزروسیم نے نہیں کی، روئے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کیوں نہیں روئے کہاکہ الٰہی جو تیرا عاصی ہو ہم اُس پر گریہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی عزت وجلال کی قسم کہ میں تمہاری قدرت وقیمت اورجو کچھ تمہاری قسم سے ہو فرزند آدم پر آشکارا کروں گا اوراُن کو تمہارا غلام بناؤں گا ۔ اورفرمایا کہ میں نے ریاض میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک وقت حضرت رسولﷺ ایک جماعت پر گزرے وہ جماعت ہنستی تھی۔ آپ نے ان کو سلام کیا۔ سب تعظیم کو اٹھے اورسلام کا جواب دیا ۔پھر حضرت سرورِ کائنات علیہ الصّلٰوۃ نے فرمایا کہ کیا تم گور کی منزل سے گزرچکے ہو کہا نہیں، پھر فرمایا کہ عذاب ودوزخ سے رہا ہوگئے ہو کہا نہیں۔ ارشاد کیا پھر تم کیوں ہنستے ہو سبھوں نے توبہ کیاپھر اُن کو کسی نے خنداں نہ دیکھا اورحضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ عارف اس کو کہتے ہیں کہ ہر روز اُس پر سو ہزار تجلی نازل ہو اورایک شمّہ اظہار نہ کرے اورصاحب معرفت وہ ہے کہ سب علم جانے اورہزارمعانی بیان کرے اورہروقت دریائے معرفت میں شناوری کرے کہ ایک موتی اسرارا لٰہی کے موتیوں سے باہر لادے اوراگر جو ہری مبصر کے سامنے بیان کرے معلوم ہو کہ وہ عارف ہے اوراہل محبت کی توبہ تین طرح پر ہے اول ندامت دوسری قطع معاملت تیسری ترک معصیت۔ اورخدائے عزو جل کے دوست تین صفت کے ساتھ قائم ہیں ۔ایک قوتِ صائم یعنی روزہ رکھنے کی قوت، دوسری نماز دائم، تیسری ذکر قائم ۔ اورطریق محبت میں عارف وہ ہے کہ کسی چیز پر اُس کو عجب وتکبر نہ ہو اس لئے کہ دعویٰ اورتسلیم جمع نہیں ہوسکتے اورفرمایا کہ ہم سانپ کی طرح کینچلی سے باہر آئے اورجب نگاہ کی توعشق اورعاشق کو ایک دیکھا اورارشاد کیا کہ جب درویش کو عبادت میں حلاوت پیدا ہو وہ حلاوت اُ س کے واسطے حجاب ہوگی اورعارف کا درجہ یہ ہے کہ عُجبِ طاعت سے اجتناب کرے اوربیان فرمایا کہ جب ہم بہت محنت کے بعد اُس بارگاہ میں پہنچے کچھ زحمت نہ تھی۔ تمام راحت پائی اورہم نے اہل دنیا کو دیکھا تو اُن کو دنیا کے ساتھ مشغول پایا اورجب اہل عقبیٰ کی طرف نظر کی تو ان کو عقبیٰ کی قید میں محجوب مطلق دیکھا اورمحبت میں صادق وہ ہے کہ جب اس پر کوئی بلا پہنچے تو خوشی اوررغبت سے اُ س کو قبول کرے اورفرمایا کہ میں نے آثار الاولیا میں لکھا دیکھا کہ ایک وقت رابعہ بصری اورمالک دنیار اورشیخ حسن بصری اورشیخ شفیق بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم ایک جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے اورصدق باطن میں بات چلی تھی ۔ہر شخص ایک ایک بات کہتاتھا جب رابہر کی نوبت آئی تو کہا کہ محبت کی راہ میں سچا وہ ہے کہ جب اُس کو کوئی دردوالم پہنچے تو دوست کے مشاہدے میں اس کو فراموش کرے اوربیان کیا کہ ایک بار میں ایک بزرگ کے ساتھ ایک قبر کے پاس بیٹھا تھا اورصاحب گور کو عذاب ہورہاتھا۔ اُس بزرگ نے جب یہ حال مشاہدہ کیا تو نعرہ مارا اورجان بحق تسلیم ہوا ۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ پگھلا اورپانی ہوکر پدید ہوا پھر فرمایا کہ اے عزیز واگر خفتگان زیر خاک کا حال کہ اسیر مورومار اورزندان گور کے گرفتاری ہیں جانو کہ اُ ن پر کیامعاملہ گزرتاہے ہیت سے نمک کی طرح پگھل جاؤ اورکسی نے آپ سے سوال کیا کہ بقاکیا ہے، جواب پایا کہ بقاعین حق ہے ۔پھر پوچھا کہ تجرید کیا چیز ہے فرمایا کہ غیر سے قطع کرنا اوردوست سے ملنا اورخواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس اللہ سرہٗ العزیز نے تذکرہ کیا کہ میں بیس سال تک حضرت خواجہ بزرگ علیہ الرحمۃ کی خدمت بابرکت میں رہا کسی پر اُن کو غصہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا مگر ایک روز کہیں جاتے تھے، آپ کا ایک مرید تھا شیخ علی نام ، راہ میں اُس کو ایک شخص نے پکڑااورکہا کہ جب تک تو میرا روپیہ نہ دے گا میں تجھ کو نہ چھوڑوں گا ۔جب آپ وہاں پہنچے تواُ س کو منع کیااور اُ س نے نہ مانا۔ آپ نے غصہ میں آکر چادر جودوش مبارک پر تھی، زمین پر ڈال دی ۔فی الحال وہ زرو دینار سے بھر گئی۔ ارشاد کیا کہ جتنا تیرا آتا ہے اُتنا لے لے۔ اُ س نے چاہا کہ حق سے زیاہ لے اورہاتھ بڑھا یا ۔وہ ہاتھ فوراًخشک ہوگیا ۔چلاّ یا کہ میں نے توبہ کی ۔آپ نے دعافرمائی ۔اُس کا ہاتھ حالت اصلی پر آگیا ۔ نقل ہے کہ ایک دن ایک شخص ظاہراً ارادت کے واسطے اورباطناً آپ کے قتل کے ارادے پر سرِ مجلس آکر بیٹھا ۔ اُس کی بغل میں چھری تھی ۔آپ جب اُس کی طرف دیکھتے تھے تبّسم فرماتے تھے آخر فرمایا کہ اے درویش جو شخص درویشوں ے پاس آتاہے یا روئے خدا سے یا روئےخطا سے ،تیرا آنا کس وجہ سے ہے ۔جب اُس نے یہ بات سُنی اُٹھا اورہاتھ باندھ کر اپنے ارادہ فاسد کا اقرار کیا اورچھری بغل سے نکال کر ڈال دی اورخلوص نیت سے آپ کا مرید ہو ا۔کہتے ہیں کہ اُ س نے پنتالیس حج اداکئے۔ نقل ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ حق سبحانہ تعالیٰ کی یاد میں مستغرق تھے اورعالم علوی اُن پر منکشف ہورہاتھا۔ اِ س اثنا میں ایک مرید نے آکر والیٔ ملک کا شکوہ کیا کہ وہ مجھ کو شہر سے نکالتا ہے ۔آپ نے پوچھا کہ وہ اِ س وقت کہاں ہے ،کہا سَوارہوکر میدان کی طرف گیا ہے فرمایا کہ جاوہ گھوڑے سے گرِ کر مرگیا۔ جب وہ شخص وہاں سے چلا سُنا کہ والیِ ٔ مذکور اُسی طرح راہی ملکِ عدم ہوا خواجہ قطب الدین بختیار ؒ نے فرمایا کہ میں بیس برس تک حضرت پیر کی صحبت میں رہا ہرگز نہ سنا کہ کبھی آپ نے اپنی صحتِ جسمانی چاہی ہو اکثر زبان الہام بیان پر آتاتھا کہ الٰہی جہاں کہیں درد ومحنت ہو معین الدین کے نامزد کر۔ میں نے عرض کیا کہ یاحضرت یہ کیا دعاہے، فرمایا کہ جب کسی مسلمان کو بلا ئےسخت اوربیماری میں مبتلا کرتے ہیں اُس کی صحتِ ایمان کی دلیل ہے وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوتاہے جیسا طِفلِ مادرداز۔ ایضا ًنقل ہے کہ ایک دن آپ شیخ اوحدالدین کرمانی اورشٰخر الشیوخ شہاب الدین سہروردیؒ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔اِ س درمیان میں سلطان شمس الدین التمش عالم صغرسنِّی میں تیر وکمان لئے ہوئے اُدھر سے آ نکلا ۔آپ کی نظر مبارک اُس پر پڑی ،فرمایا کہ یہ لڑکا بادشاہ دہلی ہوگا، آخر ایساہی ہوا۔ منقول ہے کہ ایک روز آپ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جلسہ میں تھے اور سلوک میں بات تھی ۔جب داہنی طرف نگاہ کرتے تھے کھڑے ہوجاتے اورحاضرین اِس امر میں حیران تھے۔ جب وہاں سے واپس آئے مریدوں میں سے ایک نے عرض کیا کہ آپ کے باربار اُٹھنے کا کیا باعث تھا۔ فرمایا کہ اُس طرف میرے مرشد برحق رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک تھا۔ جب میں اُدھر نظر کرتاتھا اورمرقد منّورہ کو مشاہدہ کرتاتھا بے اختیار تعظیم کو اٹھتاتھا۔ نقل ہے کہ حضرت خواجہ بزرگوار ہررات کو خانٔہ کعبہ کے طواف کے لئے جاتے تھے اورحج کرنے والے ہمشہ آپ کو طواف میں دیکھتے تھے اورگھر کے آدمیوں کو یہ گمان نہ ہوتاتھا کہ آپ عبادت خانہ میں تشریف رکھتے ہیں آخر معلوم ہوا کہ آپ ہر شب مکہ شریف کو تشریف لے جاتے ہیں اورفجر کی نماز جماعت خانہ میں ادا فرماتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت خواجہ صاحب ستّر سال تک نہیں سوئے ۔پہلوئے مبارک زمین سے نہ لگا اورآپ صائم الدہر اورقائم اللیل تھے اورحضرت کا وضو قضائے حاجت کے سوا اورسبب سے زائل نہیں ہوتاتھا اورآپ ہمیشہ آنکھیں بند کئے ہوئے مراقبہ میں مشغول رہتے تھے اورجب آنکھ کھولتے تھے جس پر نظر پڑجاتی واصل خدا ہوجاتاتھا اورجس فاسق کی طرف دیکھتے وہ گناہوں سے توبہ کرتاتھا۔ مروی ہے کہ حضرت خواجہ عثمان علیہ الرحمۃ والغفران نے فرمایا کہ جو کوئی معین الدین یا اُس کے مریدوں کا مرید ہوگا معین الدین ہر گز بہشت میں پاؤں نہ رکھے گا جب تک اُن کو اپنے ہمراہ نہ لے گا اور قیامت تک جو اُس کے سلسلہ میں داخل ہوگا اُس کو نجات کی امیدہے اورحضرت ولی الہند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دن میں خانۂ کعبہ میں مشغول تھا ۔غیب سے آواز آئی کہ اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں اورہم نے تجھے بخشا ۔میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اورعرض کیا الٰہی اگرچہ بیچارہ معین الدین کو آتش دوزخ سے بے خوف کیا لیکن یہ عاجز ایک عرض رکھتاہے اگر قبول ہو، غیب سے صدا آئی کہ تو ہمارادوست ہے، مانگ جو کچھ چاہتاہے۔ میں نے کہا کہ یارب جو میرےمرید ہیں اورجو میرے مریدوں اورفرزندوں کے مرید ہیں اُن کو بھی بخش دے ۔الہام ہوا کہ ہم اُن سب کی خطا سے درگزرے ۔لکھا ہے کہ حضرت صاحبِ سماع تھے اور مدام شراب عشق الٰہی سے مست رہتے تھے ،جو کوئی اُن کے پاس بیٹھتا اہل سماع ہوجاتا۔ کہتے ہیں کہ حضرت کبھی ہندی راگ بھی سنتے تھے اورآپ حافظِ کلامِ مجید تھے اورہر روز دوختم کرتے تھے اورہر ختم پر صدائے غیبی سُنتے تھے کہ ہم نے قبول کیا۔ منقول ہے کہ جب حضرت خواجہ عثمان غفراللہ لہ وَلِوالِدیہ نے خواجہ صاحب قدس اللہ سرہٗ کو اپنی جگہ بٹھلایا، فرمایا کہ تونے درویشوں کا خرقہ پہنا ہے تجھ کو چاہئے کہ درویشوں کے کام کرے اور درویشی فاقہ کھینچناہے اوررنج و الم اہل دیکھنا،فقرے کے نزدیک غم وشادی برابر ہے اورراحت وجراحت یکساں ،درویش کو چاہئے کہ غریبوں اورفقیروں سے محبت کرے اورمسکینوں اوردرویشوں سے صحبت رکھے اوراہل دُنیا سے محترز رہے، جب ایسا کیا حضرت ذوالجلال کا مقرب ہوا پھر حضرت خواجہ صاحب کا ہاتھ پکڑکر کہا الٰہی معین الدین کو قبول فرما اوراپنے درگاہ کا مقرب کر، غیب سے آواز آئی کہ ہم نے اُس کا نام اپنے محبوبوں کے زمرے میں لکھا ہے اوراُ س کوسر قومِ مشائخ کیا۔ نقل ہے کہ جو کوئی تین دنِ تک آپ کی ملازمت میں رہتاتھا ولی اللہ اورصاحب کرامت ہوجاتاتھا۔ مرقوم ہے کہ بغداد میں سات ترسا صاحبِ ریاضت اوراہل مجاہدہ تھے اوروہ چھہ مہینے کے بعد ایک لقمہ طعام کھاتے تھے ۔ خلق اُن کی متعقد تھی۔ جو کوئی اُن کے پاس جاتا اُ س سے بات کرتے۔ ایک دن وہ ساتوں خدمت گرامی میں حاضر ہوئے جب نظر مبارک اُن پر پڑی ہیبت سے پائے مقّدس پر گرے ۔آپ نے ارشاد کیا کہ تعجب ہے کہ تم غیر خدا یعنی آگ کی پرستش کرتے ہو کہا کہ ہم اس واسطے آگ کی پوجا کرتے ہیں کہ قیامت میں ہم کو نہ جلائے اورحرمت نگاہ رکھے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو وہ آتش دوزخ سے بھی نجات دے اورتمہاری آبرو بھی نگاہ رکھے ۔انہوں نے جواب دیا کہ تم خدا کو پوجتے ہو اگر آگ تم کو نہ جلائے تو ہم ایمان لائیں۔ فرمایا کہ آگ ہم کو تو کیا ہماری جوتیوں کو بھی نہیں جلا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی آنکھ سے ایسا دیکھیں تو ضرور دین اسلام قبول کریں۔ آپ نے اپنی پاپوش کو آگ میں ڈال دیا اورفرمایا اے آتش معین الدین کی کفش کو ہر گز نہ جلانا۔ معاًوہ آگ سرد ہوگئی اورپاپوش کو ذرا بھی ضرر نہ پہنچا ۔پھر غیب سے آواز ہوئی کہ آگ کی کیا مجال جوہمارے دوست کی پاپوش کو جلائے۔ جب ترساؤں نے یہ حال دیکھا ڈرے اورفی الحال کلمہ طیّبہ پڑھا اورآپ کے مرید ہوکر اولیا میں شامل ہوئے۔روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ مسافر تھے اورکہیں کفرستان میں پہنچے۔ کُفّار کو خبر ہوئی کہ چند مسلمان آئے ہیں سب تکواریں کھینچ کر آپ کی طرف دوڑے ۔جب اُن کی نظر آپ کے روئے مبارک پر پڑی یکبارگی فریاد کی ،ہم سب حضرت کے فرمانبردار ہیں، ہم پر شفقت و کرم کیجئے کہ ہم مسلمان ہوجائیں۔ آپ نے کلمہ شہادت اُن کو تلقین کیا پھر وہاں کے تمام اہل کُفر اسلام میں داخل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے عہد میں کفار بے شمار مسلمان ہوئے اورجب آپ اجمیر کو جاتے تھے لاہور سے دہلی پہنچے اورچند روز وہاں اقامت کی پھر اجمیر کا قصدفرمایا۔ مروی ہے کہ سلطان شمس الدین طاب ثراہ کے عہد میں آپ دو بار دہلی تشریف لائے تھے اورمولانا مسعود نے مولانا احمد آپ کے خادم سے روایت کی ہے کہ آپ جب پہلی مرتبہ اجمیر سے دہلی میں تشریف لائے پھر اجمیر میں رونق افروز ہوکر متاہل ہوئے اس کی تفصیل یوں ہے کہ سید وجیہ الدین محمد مشہدی خطۂ اجمیر میں داروغہ تھے ۔اِ ن کی ایک دختر صاحب عصمت اورباجمال تھی ۔مبارک بی بی عصمت نام ،وہ حدِّ بلوغ پر پہنچی تھی، سید صاحب موصوف چاہتے تھے کہ کسی بزرگ زادے سے اُس کا نکاح کردیں مگر اس کے لایق کوئی شخص نہیں ملتاتھا۔ اسی فکر میں رہتے تھے ایک رات حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ اے فرزند جگر پیوند حضرت نبوت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایما اس طرح پر ہے کہ تواس دختر نیک اخترکو ہمارے نورِ نظر معین الدین حسن سنجری ؒ کے عقد نکاح میں لائے ۔سیّدوجیہ الدین صاحب نے یہ واقعہ خواجۂ دین پر ظاہر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگرچہ میری عمر آخر ہوئی ہے مگر جبکہ حضرت سیّد انام علیہ واٰلہ والصّوٰۃ والسلام کا یہی اشارہ ہے میں انکار نہیں کرسکتا۔ روایت ہے کہ نکاح کے بعد حضرت سات سال تک زندہ رہے ۔عمر مبارک ستانوے سال کی تھی ،اورآپ کی رحلت دوشنبہ کے دن چھٹی ماہ رجب المرجب؁ ۶۳۳ چھ سو تینتیس ہجری میں واقع ہوئی۔ یہ مقدمہ سیرالعارفین سے لکھا گیا۔ ماہ رجب کی چھٹی تاریخ کو آپ کا عرس بڑی دھوم دھام سے ہوتاہے۔ ختے کثیر اطراف ممالک سے زیارت کو آتی ہے اورفیض پاتی ہے ۔ یہ فقیرہ حقیرہ بھی تاریخ مذکورہ پر اُس عالی مرتبت کا عرس کرتی ہے۔ اورایک نسخہ میں یوں لکھا ہے کہ آپ تاہل کے بعد سترہ سال تک رونق افروز عالم دنیا رہے اورسنِ شریف ایک سو سترہ برس تک پہنچاتھا ۔اورملفوظات میں آیا ہے کہ انتقال کے بعد آپ کی پیشانی نورانی پر لکھا ہوا ظاہر ہوا ھٰذَا حَبِیْبُ اللہِ مات فِیْ حُبِّ اللہِ شیخ عبدالحق دہلوی نے بھی اخبارلاخیار میں اسی طرح قلم بند فرمایا ہے ۔اورایک قول سے ماہ ذی الحجہ اورسِن مذکور میں آپ کی رحلت ہوئی ۔قول اوّل صحیح ہے۔ اوراجمیر میں آپ اپنی اقامت کی جگہ مدفون ہوئے ہیں ۔پہلے مرقد منّور خشتی تھا، ایک زمانہ کے بعد اُس پر پتھر کا صندوق بنایا گیا اورقبر شریف کو بدستو رچھوڑا، اِس سبب سے مرقدِ معلیٰ اونچا ہے۔ اوّل خواجہ حسین ناگوری نے عمارت کی بعدہٗ اوربادشاہ ہوں نے خانقاہ کا دروازہ بنوایا۔ منقول ہے کہ جب آپ اِس جہان فانی سے عازم عالمِ جاودانی ہوئے بزرگان دین سے ایک جماعت نے حضرت سرورِ عالم کو عالمِ رویا میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ خدا کا دوست معین الدین حسن سنجری آتاہے، ہم اُس کے استقبال کے واسطے کھڑے ہیں۔ اورکہتے ہیں کہ ایک بزرگ نے رحلت کے بعد آپ کو خواب میں دیکھا، دریافت کیا کہ نزع اورقبر کا حال اورفرشتوں کا سوال کیوں کر تھا، فرمایا کہ خدائے رحیم وکریم کے فضل سے سب آسان ہوامگر جب مجھ کو عرش کے نیچے لے گئے آواز آئی کہ تو اِتنا کس واسطے ڈرا، میں نے کہا کہ الٰہی تیری قہّاری اورجبّاری سے ۔ فرمان آیا کہ اے معین الدین ؒ جو شخص دسویں ماہ ذی الحجہ کو سورہ بقرہ پڑھے اُس کو خوف سے کیا کام ،میں نے تجھے بخشا اوراپنے واصلوں سے کیا۔ اوراجمیر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آجانام راجہ نے جو حدِّ غز نیں تک تصرف رکھتاتھا اجمیر کو آباد کیا اورمیرہند میں پہاڑ کو کہتے ہیں اوراوّل جو دیوار ہندوستان میں پہاڑ پر بنائی گئی وہ کوہ اجمیر ہے اورپہلے جو حوض ہندوستان میں کھوداگیا پُہکر ہے جو اجمیر سے چودہ کوس پر ہوگااورانیس الارواح میں حضرت خواجہ صاحب ؒنے اپنی بیعت کا حال اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ بغداد شریف میں خواجہ جنید قدس اللہ سرہٗ کی مسجد میں یہ درویش خواجہ عثمان علیہ الرحمۃ کی قدم بوسی سے مشرف ہوا ،مشائخ کبار حاضر تھے، اس عاصی نے زمین پر سر رکھا اورکھڑا ہوا۔ خواجہ عثمان قدس اللہ سّرہٗ العزیز نے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھ، میں نے پڑھی، کہا کہ قبلۂ رو ہوکر بیٹھ۔ میں بیٹھا پھر ارشاد کیا کہ سورہ بقرہ پڑھ، بندہ حکم بجالا یا۔ فرمایا کہ ساٹھ بار سبحان اللہ کہہ، میں نے کہا پھر آپ کھڑے ہوئے اورآسمان کی طرف منہ کر کے میرا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ آتجھ کو خداسے واصل کروں اورکلاہ چار تُرکی دست مبارک سے میرے سر پر رکھا اوراپنا خاص کمبل مرحمت کیا ،پھر فرمان ہوا کہ بیٹھ، یہ احقر بیٹھ گیا پھر ارشاد کیا کہ ہزار بارسورہ اخلاص پڑھ ۔میں نے حسب فرمان عمل کیا۔ پھر فرمایا کہ ہمارے خانوادے میں یہی ایک شبانہ روز مجاہدہ ہے ،جا ایک رات دن ریاضت کر، میں نے ایسا ہی کیا جب صبح ہوئی خدمت سراپا برکت میں حاضر ہوا اورسرعجز زمین پر رکھا۔ فرمایا کہ بیٹھ، عاصی بیٹھا، ارشاد کیا کہ آسمان کی طرف دیکھ ۔میں نے دیکھا ،فرمایا تو کہاں تک دیکھتاہے۔فدوی نے عرض کیا کہ عرش عظیم تک پھر کہاکہ زمین کی طرف دیکھ ۔خاکسارنے دیکھا فرمایا کہ کہاں تک نظر آتاہے۔ اِس عاجز نے عرض کیا کہ تحت الثریٰ تک ،پھر ارشاد ہوا کہ ہزار بارسورۂ اخلاص پڑھ، جب میں پڑھ چکا فرمایا کہ آسمان کی طرف دیکھ ،میں نے تعمیل حکم کی، ارشاد کیا کہ کہاں تک منکشف ہوا ۔میں نے کہا کہ حجاب عظمت تک ،پھر حکم ہوا کہ آنکھیں بند کر، میں نے بند کیں، فرمایا کھول۔ میں نے کھول لیں، پھر دو انگلیاں مجھ کو دکھلائیں اورفرمایا کہ تو کیا دیکھتاہے، فقیر نے عرض کیا اٹھارہ ہزا عالم ،پھر کہا کہ تیرا کام پورا ہوا، پھر ایک اینٹ سامنے موجود تھی ،ارشاد کیا اُس کو اٹھا، جب میں نے اٹھایا ایک مٹھی دینار تھا۔ گوہر افشاں ہوئے کہ لے جا اورفقیروں کو صدقہ کر ،درویش نے اسی طرح کیا۔ پھر فرمان ہوا کہ چند روز ہماری صحبت میں رہ، میں نے کہا بسر وچشم حاضر ہوں، پھر حضرت مشیخت مآب علیہ الرحمۃ دمشق کی طرف مسافرہوئے اوریہ فرمانبردار خدمت میں ہمراہ تھا۔ الغرض ایک شہر میں پہنچے، ایک جماعت کو پایا کہ یہ لوگ ہستی سے بے خبر تھے۔ سننے میں آیا کہ یہ لوگ ہمیشہ دریائے تحیر میں غرق رہتے ہیں ،ہر گز ہوشیار نہیں ہوتے ،پھر وہاں سے حرمین شریفین کا قصد فرمایا جب مکہ معظمہ میں پہنچے کعبہ شریفہ کے پرنالے کے نیچے کہ قبولیتِ دعا کی جگہ ہے میرا ہاتھ پکڑکر میرے حق میں دعا کی۔ آواز آئی کہ ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔ جب مدینہ منورہ میں پہنچے حضرت سرورکائنات کے روضۂ مقدسہ کی زیارت کی اورمجھ سے فرمایا کہ سلام کر، میں نے سلام کیا۔ مرقد معلّیٰ سے آواز پیدا ہوئی کہ وعلیک السلام یا قطب المشائخ جاکہ توکمال کو پہنچا،پھر وہاں سے بخارا میں پہنچے، میں وہاں کے بزرگوں سے ہم صحبت رہتاتھا، الغرض احقر دس برس تک حضرت پیرومرشد کےساتھ سفر میں رہا ،پھر آپ وہاں سے بغداد کو تشریف لے گئے اورمعتکف ہوئے۔ چند روز کے بعد پھر مسافرہوئے ،دس سال اورسفر میں رہے ۔یہ درویش حضرت کا جامہ خواب اورچھاگل ساتھ لئے پھرتاتھا۔ جب بیس برس پورے ہوئے پھر بغداد میں آکر آپ نے اقامت کی اورمجھ سے فرمایا کہ اب میں باہر نہیں نکلوں گا، تجھ کو چاہئے کہ ہر روز چاشت کے وقت میرے پاس آیاکرے کہ علم فقر کی تعلیم اوردوسرے فوائد بیان کروں۔ میں ہر روز خدمت میں حاضر ہوتاتھا اورجو کچھ زبان فیض بیان سے سنتاتھا لکھ لیتا تھا، الحاصل اِس عاصی نے اٹھائیس روز تک حاضر ہوکر اٹھائیس مجلس لکھی اوراُس مجموعہ کو انیس الارواح کے ساتھ موسوم کیا۔

    خلاصۂ کلا م یہ ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ میں نے یہ سب تیرے کمال کے واسطے کہا ،چاہئے کہ تو اِن سب باتوں پر عمل کرے کہ کل قیامت کو شرمندہ نہ ہو، یہ خرقہ اورعصا اور مصّلی مجھ کو عنایت کرکے ارشاد کیا کہ یہ ہمارے مرشدوں کی یادگار ہے، اس کو حفاظت سے رکھنا اورجس کو مردراہ پائے اُس کو دینا،کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ افرادسے تھے۔ نقل ہے کہ آپ ہمیشہ نماز نفل دوگانہ خالق یگانہ کے واسطے پڑھا کرتے تھے اوراکثر درود شریف حضرت محبوب خدا کی روح مبارک پر بھیجا کرتے تھے اورکھانا کھانے کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم کہاکرتے تھے اوراکثر یہ بیت اور مصرع زبان مبارک پر لاتے ، بیت؂ خوبرویاں چوپردہ برگیرند* عاشقاں پیش شاں چنیں میروند۔ مصرع صحبتِ نیکاں بہ از طاعت بود۔ اوربعضوں نے کہا ہے کہ آپ متاہل نہیں ہوئے اوربعض کہتے ہیں کہ آپ متاہل ہوئے تھے مگر کوئی فرزند نہیں ہوا یہ دونوں قول ضعیف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آپ دواہل رکھتے تھے اورفرزند بھی پیداہوئے جیسا کہ شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ آپ کی دو منکوحہ تھیں۔ ایک بی بی عصمت ؒ جن کا حال پہلے تحریر ہوا دوسری بی بی اُمۃ اللہؒ۔ اُن کے نکاح میں آنے کا سبب یوں لکھا ہے کہ خواجہ صاحب نے ایک شب حضرت سرورِ عالم کو خواب میں دیکھا کہ فرمایا کہ اے نور نظر تونے ہماری سنتوں سے ایک سنت ترک کی ہے، اتفاقاً حاکم قلہک بٹھلی ملک خطاب نام جو آپ کا مرید تھا حدود کفار پر تاخت کرکے راجہ کی لڑکی کو جواسیر ہوئی تھی حضور کی خدمت میں لایا ،آپ نےقبول کیااوراُمّۃ اللہ اُس کا نام رکھا۔ ان دونوں خاتونوں سے اولاد ہوئی حضرت بی بی حافظ جمالؒ، بی بی امۃ اللہ ؒ سے پیداہوئیں۔ بی بی حافظ جمال ؒ کی قبرپدر بزرگوار کی پائتیان ہے۔ اُن کے شوہر شیخ رحیمی تھے، شیخ موصوف کا مرقد ناگورکے قصبات سے ایک قصبہ میں حوض ہندلا کے کنارے پر ہے ۔اِ س بی بی سے دو لڑکے پیداہوئے، وہ عالم طفولیت میں انتقال کرگئے اورعوام کا قول ہے کہ بی بی حافظ جمال خواجہ صاحب کی دختر خواندہ تھیں مگر یہ بات نامعتبر ہے۔لکھا ہے کہ آپ کے تین فرزند تھے، شیخ ابو سعید اورشیخ فخرالدین اورشیخ حسام الدین۔ اوراِس میں اختلاف ہے کہ بی بی عصمت سے ہیں یا بی بی امۃ اللہ سے، سید محمد گیسودراز کہ شیخ نصیرالدین چراغ دہلی قدس اللہ سرہٗ العزیز کے مرید ہیں جماعت قلیل کے ساتھ اس بات پر ہیں یہ تینوں فرزند بی بی عصمت سے ہیں، اورسید شمس الدین طاہر ایک جماعت کثیر کے ساتھ یوں متفق ہیں کہ شیخ ابو سعید بی بی عصمت سے ہیں اورشیخ فخرالدین اورشیخ حسام الدین بی بی امۃ اللہ سے۔ واللہ اعلم بالصّواب۔

    بیان کرتے ہیں کہ شیخ فخر الدین علیہ الرحمۃ بہت بزرگ اورصاحب مقاماتِ عالی تھے۔ زراعت کیا کرتے تھے اورموضع ماندن میں جوحوالی اجمیر میں ہے سکونت رکھتے تھے ۔اورملفوظات مشائخ چشتیہ میں لکھا ہے کہ آپ کے فرزندوں کے ملک میں ایک گاؤں تھا اوروہاں کا حاکم مزاحمت کرتاتھا۔ اِس وجہ سے آپ کے ایک صاحبزادے دہلی کو تشریف لے گئے اورقصبہ سروار میں جو اجمیر سے سولہ کوس ہے ،انتقال فرمایا۔ ان کا مدفن مبارک قصبہ مذکورہ میں حوض کے نزدیک ہے اورشیخ حسام الدین آپ کے چھوٹے لڑکے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ غائب ہوکر ابدالوں میں جاملے اورشیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقوم کیا ہے کہ آپ کو اولاد ہونا یقینی ہے اورجو کچھ بعض آدمی کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ صاحب کوکوئی فرزند نہ تھا غلط ہے۔ اورآپ کی اولاد کا ذکر مشائخ چشت کے ملفوظات میں موجود ہے۔ شیخ فرید شیخ حمیدالدین کے پوتے نے اپنے والد سے نقل کیاہے کہ جب حضرت خواجہ کے فرزند پیدا ہوئے مجھ سے پوچھا کہ اے حمید اِس کی کیا وجہ کہ اس سے پہلے جب ہم قوی اورجوان تھے جو کچھ درگاہِ عزت سے مانگتے تھے جلد ملتاتھا اب کہ پیروضعیف ہوئے دعا دیر میں مستجاب ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ پر ظاہر ہے کہ مریم علیہا السلام کے جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدانہیں ہوئے تھے گرمی کے موسم ،سرما کا میوہ ملتاتھا اوربے سبب محراب میں حاضر ہوتاتھا جب عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت مریم منتظر ہوئیں کہ رزق اُسی طرح دستیاب ہو، فرمان آیا کہ جا درخت خرما کی شاخوں کو ہلا کہ خرما تازہ گریں۔ الحاصل اُس حال میں اور اِس حال میں اس قدر فرق ہے ۔یہ جواب اُس ولایت پناہ نے پسند فرمایا ۔ روایت ہے کہ آپ کے فرزند سیّد فخرالدین کے ایک فرزند شیخ حسام الدین سوختہ نام صاحب سوزعالی مقام تھے اورحضرت شیخ نظام الدین بداؤنی کے ساتھ صحبت رکھتے تھے اورشیخ حسام الدین سوختہ کا مدفن مقدس قصبہ سانبھر میں مغرب کی طرف سرراہ اجمیر ہے اورخواجہ معین الدین خُرد شیخ حسام الدین سوختہ کے بڑے فرزند ہیں۔ اُن کو خواجہ بزرگ کی نسبت سے خواجہ کہتے ہیں۔ اُن کے واسطے یہی منقبت اوربزرگی کافی ہے خواجۂ خُرد بڑے بزرگ تھے، مرید ہونے سے پہلے ریاضت اورمجاہدہ میں یہاں تک کمال حاصل کیا تھا کہ بے واسطہ حضرت خواجہ بزرگ سے استفاضہ کرتے تھے، آخر حضور کے حکم کے موافق حضرت شیخ نصیرالدین محمود قدس اللہ سرّہ کے مرید ہوئے اورعالم متبحر تھے، سلطان محمود خلجی کے عہد میں مدّت کے بعد سفر سے آئے اورحضرت کے ساتھ نسبت فرزندی کا دعویٰ کیا سلطان نے اُن کو خطۂ اجمیر میں تدریس علوم دین کے واسطے مقرر فرمایا ۔ اورشیخ احمد مجرد کہتے ہیں کہ جو اختلاف حضرت خواجہ بزرگ کی فرزندی میں ہے انہیں مشائخ بایزید کی نسبت ہے کہ ایک زمانہ کے بعد جب اجمیر میں آکر مقیم ہوئے ایک جماعت نے انُ کے خواجہ صاحب کے فرزند وں میں ہونے سے انکار کیا اوربادشاہ وقت تک یہ بات پہنچائی ۔بادشاہ نے اس وقت کے علما اورمشائخ سے دریافت کیا، شیخ حسین ناگوری اورمولانا رستم اجمیری نے کہا کہ علماء عصر اورقدماء اجمیر سے تھے عالموں کے ساتھ گواہی دی کہ شیخ بایزید شیخ قیام الدین بن شیخ حسام الدین بن شیخ فخرالدین بن حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہیں قدس اللہ اسرارہم اورشیخ حسین نے شیخ بایزید کے فرزندوں کی نسبت خوشی کی ہے ،اس سے ظاہر ہے کہ شیخ حسین کا حضرت خواجۂ ہند کے فرزندوں میں ہونا متحقق ہے اورخواجہ معین الدین والملۃ قدس اللہ سرہٗ سادات حسینی اوربلا شبہ آنحضرت کی اولاد امجاد سے ہیں اورآپ کو چشتی اسی سبب سے کہتے ہیں کہ چشت ولایت خراسان سے ایک قصبہ ہے ۔ حضرت خواجہ ابواسحاق چشتی ؒ اورحضرت خواجہ ابو احمد ابدال ؒ چشتی اورحضرت خواجہ محمد چشتی اورحضرت ناصر الدین یوسف چشتی اورحضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی ؒ اُس قصبہ میں قیام رکھتے تھے اِ س لحاظ سے اِ ن بزرگوں کو چشتی کہتے ہیں اور حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری روح اللہ روحہ اس سلسلہ میں مرید ہوئے ہیں، آپ کی نسبت حضرت رسول خدا تک پندرہ واسطے سے پہنچتی ہے اورحضرت خواجہ معین الدین کے مرید خاص اورخلیفہ بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین احمد بختیار اوشی ؒ اور اُن کے مرید اورخلیفہ شیخ فرید الدین ؒ مسعود اجودھنی ؒ اوراُن کے مرید اورخلیفہ خا ص حضرت نظام الدین بداؤنی ؒ اوراُن کے مرید خلیفہ شیخ نصیر الدین محمود اودھی ؒ ہیں، قدس اللہ اسرارہم، اورصاحب سیرالعارفین کا بیان ہے کہ حضرت نصیر الدین ؒ نے کسی کو خلافت نہیں دی ،اُن کی وصیت کے موافق دفن کے وقت خرقہ اورعصااور تسبیح اور کا سۂ چوبیں اورنعلین کو اُن کے مقابل قبر میں رکھ دیا۔ اب تھوڑا ساحال آپ کے خلفاء کبارکا جن کے نام اوپر لکھے گئے ہیں ،لکھا جاتاہے۔ وَاللہُ المُوَفِّقُ باالاِتمَام ۔حضرت قطب المشائخ قدوۂ اکابر تاج العارفین خواجہ قطب الدین اوشی کا کی قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ کا ذکر اُن کا نام مبارک بختیار ہے اورلقب قطب الدین، حضرت بزرگوار کے مرید اور خلیفہ ہیں ،اُن کا منکا اوش ہے جو ولایات ماوراء النہر سے ایک قصبہ ہے ،بہت بزرگ اورصاحب کرامت اوراہل درجات تھے۔ اُن کے پدربزرگوار کمال الدین احمد موسیٰ آپ کو عالم طفولیت میں چھوڑ کر عالم بقا کی طرف رحلت فرماہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے جو عفیفہ صالحہ عابدہ تھیں، پرورش کی ۔جب آپ پانچ برس کے ہوئے آپ کی والدہ نے ایک مرد نیک کے ساتھ آپ کو ایک معلم کے پاس بھیجا ۔راہ میں اُس نیک مرد سے حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کی ملاقات ہوئی اورفرمایا کہ اِس لڑکے کو میرے ہمراہ کرکہ ایک معلم صالح کے سپرد کردوں اورساتھ لے کر شیخ ابو حفص کے پاس گئے اورکہا کہ یہ لڑکا بزرگ خاندان سے ہے اوربزرگ ہوگا ،اِس کو اچھی طرح سے تعلیم کرنا ،شیخ ابوحفص نے خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ جو شخص تجھ کو یہاں لایا تھا وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔

    الغرض حضرت شیخ کی صحبت کی برکت سے اُن کو فتوحات غیبی حاصل ہوئیں اورعلم ظاہری اورباطنی حاصل ہوا اورریاضت ومجاہدہ کرکے مکمل ہوئے ،انہیں دنوں حضرت سلطان العارفین خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ وہاں پہنچے اورخواجہ قطب الدین علیہ الرحمۃ اُن کے مرید ہوئے اورخلافت پائی پھر اُوش سے بغداد کی طرف مراجعت فرمائی اورشیخ الشیوخ شہاب الدین سُہروردی اورشیخ اوحد الدین کرِمانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی، جب دیکھا کہ حضرت خواجہ بزرگوارہندوستان کی طرف متوجہ ہوئے، آپ شیخ جلال الدین تبریزی قدس اللہ سرہٗ کے ساتھ روانۂ ہندوستان ہوئے ،جب ملتان میں پہنچے زبدۃ الکاملین شیخ بہاؤ الدین زکریا علیہ الرحمۃ سے ملے اوراُن کی صحبت میں رہے، ان دنوں میں ایک غنیم نے ملتان کے قلعہ کا محاصرہ کیا، والیٔ قلعہ اور شہروالے بہت تنگ دل ہوئے ،حاکم شہر نے حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں التماس کیا، آپ نے ایک تیر پر ایک دعا پڑھ دی اورفرمایا کہ اس تیر کو شام کے وقت لشکر غنیم کی طرف پھینکیں، اُسی شب گروہِ اعداپر ایسی دہشت غالب ہوئی کہ خود بخود بھاگ گئے ،کہتے ہیں کہ حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر نے بھی ملتان میں آپ سے ارادت کی، پھر خواجہ قطب الدین ملتان سے دہلی تشریف لائے اورسلطان شمس الدین التمش بادشاہ دہلی آپ کے قدوم میمنت لزوم کو عطیۂ الٰہی جان کر استقبال کوآیا اوراعزاز واکرام کے ساتھ آپ کو شہر میں لایا اورحضرت نے موضع کیلوکھری میں قیام فرمایا، حضرت شیخ محمد عطا ؒ کہ حمیدالدین ناگوری کے نام سے مشہور ہیں اوردوسرے مشائخ خدمت میں حاضر ہوتے تھے اورسلطان شمس الدین ہفتہ میں دوبار شرف ملازمت حاصل کرتاتھا، ایک دن عجزتمام کے ساتھ عرض کیا کہ حضور کرم فرماکر شہر میں اقامت فرمائیں۔سلطان کا التماس قبول ہوا ،شہر کے نزدیک ملک معزالدین کی مسجد میں ٹھہرے اورحضرت قطب المشائخ نے خواجہ بزرگ کی خدمت میں اشتیاق تمام کے ساتھ عریضہ لکھ کر روانہ کیا کہ اگر ایما ہو سعادت ملازمت حاصل کروں ،حضرت خواجہ صاحب نے جواب میں لکھا کہ بُعد مکانی قرب جانی کا مانع نہیں ہے وہیں مشغول رہنا چاہئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم وہیں آئیں گے، من بعد حضرت خواجہ خواجگان اجمیر سے عازمِ دہلی ہوئے اورحضرت خواجہ قطب الاقطاب کے گھر قیام پذیر ہوئے، تمام شہر کے اکابر واہالی نے آکر سعادتِ ملازمت حاصل کی اورحضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر بھی اُن دنوں اپنے پیرو مرشد خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تھے اورحضرت خواجہ خواجگان کی قدمبوسی سے مشرف ہوئے اورخواجہ غریب نواز نے بارہا فرمایا کہ بابابختیار توایسے شاہباز کو دام میں لایا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کے سِوا آشیانہ نہ پکڑے گا ، چند روز بعد خواجہ صاحب پھر اجمیر کو تشریف لے گئے اور خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمراہ روانہ ہوئے ،اہل شہر جدائی اورحرمان کی تاب نہ لاکر بہت زاروگریاں تھے، سلطان شمس الدین التمش بھی مضطرب الحال خدمت میں حاضر ہوا اورحضرت خواجہ قطب الاقطاب کے دہلی میں رہنے کے واسطے حضرت خواجۂ ہند کی خدمت میں تضرع کی اورخواجۂ بزرگ نے مراجعت کی اجازت دی، خواجہ قطب الدین حسب الحکم پیرو مرشد دہلی میں رہ کر طالبوں کے ارشادہدایت میں مشغول ہوئے اورہر گز کسی سے فتوح قبول نہیں فرماتے تھے اوراکثر حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ صحبت رکھتے تھے اورآخر حال میں متاہل ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک سو دو فرزندتوامان عطافرمائے اور ایک رسالہ میں لکھا ہے کہ جب حضرت خواجہ قطب کاکی رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ صاحب قدس اللہ سرہٗ کی خدمت میں آئے حضرت خواجہ نے چالیس روز کے بعد اُن کو خرقۂ خلافت اورمصلّی اورعصا اورنعلین مرحمت کرکے دہلی کو مرخص فرمایا اورخواجہ قطب الدین نے دہلی میں آکر قیام کیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک آنے والا خبرلایا کہ آپ کے وہاں سے چلنے کے بیس روز بعد حضرت خواجہ بزرگ نے انتقال فرمایا اورقطب الملّت کو کاکی اِس سبب سے کہتے ہیں کہ اُن پر فقر غالب تھا، اُن کے اہل خانہ ایک یا دوفاقوں کے بعد بنیے کی عورت سے بقدر ضرورت قرض لیتے تھے ایک روز اُس نے کوئی سخت بات کہی، حضرت قطب صاحب نے یہ بات سُنی، بی بی سے کہا کہ اب آئندہ قرض نہ لینا، حجرے میں جو طاق ہے اس میں سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر روٹیاں نکال لیاکرو جب وہ طاق میں ہاتھ ڈالتی تھیں گرم روٹیاں نکل آتی تھیں اوراہل وعیال اورفقرا کا قوت انہیں سے ہوتاتھا ،اسی وجہ سے اب بھی روضۃ منّورہ کے مجاور کا ک پکاتے ہیں اوردرویشوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ نقل ہے کہ ایک روز قوّال یہ شعر پڑھتے تھے؎ کشتگانِ خنجرِتسلیم را *ہر زماں از غیب جان ِدیگراست* حضرت قطب الملّت کو وجد ہوا، تین روز تک قوّال بھی شعر کہتے رہے اورآپ بیخود تھے مگر نماز کے وقت ہوش میں آجاتے تھے اورقوّالوں سے اسی شعر کی درخواست فرماتے تھے ،چارروز تک یہی حال رہا ،چوتھی شب یہ کیفیت ہوئی کہ سرمبارک قاضی حمید الدین ناگوری کے بغل میں اورپاؤں بدرالدین غزنوی کی گود میں تھے، قاضی حمیدالدین نے جب یہ حال دیکھا آپ سے پوچھا کہ خلفائے سجادہ نشیں کون ہوگا اورفرمایا کہ خرقہ اور عصا اورمصلّی اور نعلین یہ سب چیزیں طائر روح مقدس نے ملاء اعلی کی طرف پرواز کیا، اس وقت شیخ فریدالدین قصبہ ہانسی میں تھے ،اس قصبہ کو واقعہ میں دیکھ کر آپ کی رحلت سے تیسرے روز دہلی میں تشریف لائے اورچہرۂ مبارک کو پیر برحق کے روضۂ مبارک پر رکھا اوراُسی روز وصیت کے موافق خرقہ ٔخلافت پہن کر اُس مصلّی پر نماز ادا کی اورمرشد کی جگہ بیٹھے۔ آپ کی وفات دوشنبہ کے دن ربیع الاوّل کی چودھویں تاریخ؁ ۶۰۴ چھ سو چار ہجری میں ہوئی، مزار مقدس پُرانی دہلی میں ہے ۔

    سالک مسالک ترک وتجرید ،عارف و معارف ،توکل و تر ید سلطان التارکین حضرت شیخ حمیدالدین صوفی ناگوری قدس اللہ تعالیٰ سرّہٗ کا لقب سلطان التارکین ہے، حضرت خواجہ صاحب کے خلفاء بزرگ سے ہیں، صاحب حالات اوراہل مقامات ہوئے ہیں، تفرید وتوکل اورریاضت ومجاہدہ میں قدم راسخ رکھتے تھے اورحضرت سعید بن زید کی اولاد میں سے جو عشرہ مبشرہ سے تھے، ہوئے ہیں ۔آپ نے عمر دراز پائی، حضرت سلطان الاولیا شیخ نظام الدین قدس اللہ سرّہ کے اوایل ایام میں زندہ تھے۔نقل ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کو وقت خوش تھا ،فرمایا کہ جو کوئی جو کچھ چاہتاہو طلب کرے کہ ابواب قبولیت مفتوح ہیں۔ ایک شخص نے دین کی آرزو کی ،دوسرے نے دنیا چاہی، شیخ حمیدالدین نے فرمایا کہ تو چاہتاہے کہ دنیا اوردین میں معزز ومکرم ہو،عرض کیا کہ بندہ کوئی درخواست نہیں کرتا جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہے و ہی درست ہے ،پھر حضرت قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی طرف متوجہ ہوکر یہی فرمایا ،انہوں نے بھی وہی جواب دیا پھر حضرت خواجہ بزرگؒ نے کہا اَلتّارِکُ الدُّنیَا والفاَرِغُ العُقبیٰ اُس روز سے شیخ حمید الدین لقب سلطان التارکین کے ساتھ ملقب ہوئے۔ کہتے ہیں کہ موضع سوالی میں جو مضافات ناگور سے ہے، ایک دوجریب زمین تھی، آپ خود کشتِ کاری کر کے اُس کے حاصل سے قوتِ عیال کرتے تھے، روایت ہے کہ حضرت خواجہ خواجگان فرماتے تھے کہ معین الدین اورحمیدالدین کی اولاد ایک ہے اورآخر ایساہی ہوا کہ آپ کی اولاد اورشیخ حمیدالدین کی اولاد میں نسبت اورخویشی واقع ہوئی ۔اورشیخ حمیدالدین علیہ الرحمۃ تصنیفات بہت رکھتے ہیں، اُن کا کلام بہت عالی ہے، منجملہ یہ ہے کہ فرمایاکہ اہل شبہ کے مانند حق تعالیٰ کا طالب نہ ہو اورمعطلوں کے مانند ترک طلب نہ کر یعنی ایک اورفرد کی طلب نہ چھوڑ ،خدائے تعالیٰ و تبارک کسی جہت میں نہیں ہے کہ تواُس طرف ڈھونڈھے اورکسی مکان میں نہیں کہ تو وہاں جستجو کرے، وہ آنے والا نہیں کہ کوئی اُس کو بُلائے ۔وہ دور نہیں کہ کوئی اُس سے نزدیک ہو، گم شدہ نہیں کہ کوئی اُس کو تلاش کرے ،وہ زمانی نہیں کہ کوئی زمانہ کا منتظر ہو، یہ سب طلب کی نفی ہے پس اثبات کیا ہوگا، چاہئے کہ اپنے اپنے اوصاف کی نفی کرے کہ بشریت سے گذرجائے اورہر چیز سے علیحدگی پائے،طلب یہ نہیں ہے کہ اُس کا اثبات کرے ،طلب یہ ہے کہ اپنی ہستی کو مٹا دے، طلب وہ نہیں کہ تواُس کی طرف دوڑے، طلب وہ ہے کہ آپ کو اُس میں فنا کرے ،طلب وہ نہیں کہ تواس کو ڈھونڈھے، طلب وہ ہے کہ خود گم ہوجائے ۔ آئینہ کو صاف کر جب صاف ہواضروری الوجود ہے اورفرمایا کہ سلوک کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ دو جہان سے فارغ ہواور مقصود یہ ہے خودنہ رہے، ایک راہ درپیش ہے تاریک اوردراز اورتجھ کو ایک عمردی ہے ،بے ثبات اورکوتاہ اس تاریکی میں تیرے واسطے مطلع عنایت سے ایک چاند طالع کیا ہے، اُٹھ اوردوڑ اوراس ماہ مریک کو غنیمت جان اوراِس عمر کو گزراہوا پہچان ،اوراپنے کو مردہ سمجھ اورجو ہوسکے آپ کو مرنے والا خیال کر۔

    شعر؂ جانیست ہر آئنہ نخواہد رفتن* اندرغمِ عشق توروداولیٰ تر* لیکن تو بسترِ راحت پر سویا ہوا ہے اورنہیں جانتاکہ محبت کا دعویٰ کرنا کس کا کام ہے اورجو محبت کا دعویٰ کرے اورجب رات ہو سورہے اُس کا نام جھوٹوں کے دفتر میں لکھیں گے ،اورآپ سے پوچھا کہ شریعت اورطریقت کو کس طرح ایک جانیں ،فرمایا کہ جس طرح تم اپنی جان وتن کو ایک جانتے ہو۔اورجانو کہ طریقت جانِ شریعت ہے۔ اوردریافت کیا کہ ارباب شریعت اوراصحابِ طریقت کی راہ کو نسی ہے ۔ ارشاد کیا کہ اہل شرع کی راہ نفس اورمال سے باہر آنا اورراہِ وحدت میں قدم رکھنا اورسوال کیا کہ مالک الملک کہاں ہے کہ ہم اُس کی طرف توجہ کریں۔ فرمایا کہ کون سی جگہ ہے کہ وہ جہاں نہیں ہے اَیْنَما تُوَلُّوْ فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۔ (جہاں تم ہوگے اللہ تعالیٰ وہاں موجود ہوگا)اور استفسار کیا کہ کسی نے اُس کو دیکھا ہے کہ دکھلادے ،کہاکہ اُس نے دیکھا ہے جس کی آنکھیں ہیں بلکہ اُس نے دیکھاہے کہ جس کی آنکھیں نہیں اورپوچھا کہ آتش دوزخ کادرویشوں سے کچھ تعلق ہے، فرمایا کہ نارِ دوزخ اہل فقر کے ساتھ کچھ آویزش اورآمیزش نہیں رکھتی۔ بہشت کو بھی آتش فقر کی تاب نہیں مگر فقیر کون اورفقرا کہاں اورفقر ایک سیاہی ہے کہ اَلْفَقْرُ سَوَادُ الْوَجْہ فِی الدَّارَیْنِ ۔ چہرہ کی سیاہی چاہئے کہ فقر کی روشنی سینہ میں چمکے اورارشاد کیا کہ فقر امرعدمی ہے اورعدم کے ساتھ فخر کرنا مذموم ہے اوراُس کے وجود کے ساتھ فخر کرنا محمود ہے، اسی سبب سے حضرت خواجہ عالم فخربنی آدم نے دنیا اورآخر ت پر فخر نہیں کیا جب فقر سے کام پڑا فرمایا کہ اَلْفَقْرُ الْفَخرِیْ یعنی فقر میرا فخر ہے۔حضرت سلطان التارکین کی وفات اُنتیسویں ربیع الآخر سنہ چھ سو تہتر ہجری میں واقع ہوئی ۔مرقد مقدّس ناگور میں ہے۔

    خلاصہ عارفانِ باکمال سرحلقۂ صوفیان صاحب حال زبدۃ المقربین شیخ فریدالدین مسعود اجودھنی شکر گنج ؒ کا ذکر

    یہ حضرت اولیاء کبار اورمشائخ نامدارسے ہیں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اورخلیفہ خاص ہیں، ان کے والد بزرگوار سلطان محمود غزنوی کے بھانجے اوراِن کی والدہ ماجدہ مولانا وجہہ الدین کی دختر تھیں، شیخ نظام الدین اولیا قدس اللہ سرہٗ سے مروی ہے کہ ایک رات ایک چورقوم کُفّار سے آپ کی والدہ کے گھر آیا اورنابینا ہوا،جانا کہ خانقاہ بزرگ ہے، اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ اگر میری آنکھیں روشن ہوجائیں کبھی دزدی نہ کروں اور اہل اسلام میں شامل ہوں، جب وہ عفیفہ صالحہ روشن ضمیر اُس کے ارادے پر مطلع ہوئیں، دعا کی ،اُس کی آنکھیں حالتِ اصلی پر آگئیں اوروہ چلاگیا دوسرے روز اپنی زن وفرزند کے ساتھ خدمت میں آکر مسلمان ہوا۔ آپ نے اُس کا نام عبداللہ رکھا اوروہ کاملین میں سے ہوا ۔ کہتے کہ شیخ فرید الملّۃ والدین ملتان میں مولانا منہاج الدین ترمذی کی مسجد میں اٹھارہ برس کے سِن میں تحصیل علوم دین کرتے تھے، انہیں ایّام میں خواجہ قطب الدین قدس اللہ واردِ ملتان ہوئے اوراُس مسجد میں تشریف لائے اورشیخ فرید الدین کہ صاحب صلاح وتقویٰ تھے، کمال اخلاص کے ساتھ حضرت خواجہ ممدوح کی خدمت سراپا برکت میں حاضر ہوئے، حضرت قطب الملّت والدین نے پوچھا کہ تمہارے ہاتھ میں کون سی کتاب ہے، کہا نافع ہے علم فقہ میں، فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ تم کو نافع ہوگی، عرض کیا کہ مجھ کو حضور کی خدمت نافع ہے اوراُسی مجلس میں مریدہوئے ،جب حضرت قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ ملتان سے عازمِ دہلی ہوئے شیخ فریدالدین تین منزل تک ہمراہ آئے ،آخر حسب ایمائے پیرو مرشد مراجعت کی اورتحصیل علومِ شرعی میں مشغول ہوئے اورشغل طریقت بھی رکھتے تھے۔ جب علوم ظاہر وباطن حاصل ہوئے دہلی کا قصد فرمایا اورپیر برحق کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت بختیار کاکی اِن کے آنے سے بہت خوش ہوئے ،دہلی میں آپ کا بہت شہرہ ہوا پھر حضرت مرشد سے مرخص ہوکر قصبہ ہانسی میں تشریف لے گئے اور حضرت خواجہ قطب الدین قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ کی رحلت کے بعد دہلی میں آکر خرقہ ٔخلافت پہنا، ایک ہفتہ وہاں رہ کر ہجوم خلائق کے سبب پھر ہانسی کا قصد فرمایا اورچند روز وہاں رہے اورکثرت اژدھام سے گھبراکر موضع اجودھن میں کہ دیپال پور کے نزدیک ہے آکر قیام پذیر ہوئے ،وہاں کے آدمی سست اعتقاد تھے، اِس باعث سے اوقات میں حرج واقع نہیں ہوتاتھا، خاطر جمع ہوکر مشغول ہوئے اوروہاں آپ کو تاہل واقع ہوا اور آپ کی ریاضت ومجاہدہ اورکرامت کی اطرافِ عالم میں شہرت ہوئی اورطالبان راہِ حق نے رو ئےارادت آستانۂ فیض نشان پر رکھا اورشرفِ بیعت سے مشرف ہوکر مراد کو پہنچے، آپ کے خوارق وکرامات حد سے زیادہ ہیں، اِس رسالہ میں گنجائش نہیں ۔اورحضرت کو گنج شکر اِس وجہ سے کہتے ہیں کہ ایک بار دہلی میں سات روز تک انہیں کچھ کھانے کو نہ ملا اورافطار نہ کیا اورحضرت شیخ اپنے پیر کی خدمت میں جاتے تھے۔ غایت ضعف سے پائے مبارک نے نعلین سے لغزش پائی اورگرپڑے اورتھوڑی سی مٹّی اُن کے منہ میں گئی وہ قدرتِ الٰہی سے دہن مبارک میں شکر ہوگئی ۔ شکرِ خدا ادا کیا جب پیرو مرشد کی خدمت میں پہنچے، انہوں نے فرمایا کہ فریدالدین مٹی تیرے منہ میں جاکر شکر ہوئی کچھ تعجب نہیں کہ حق تعالیٰ نے تیرے وجود کو گنج شکر بنایا ہے اورتوہمیشہ شیریں ہوگا۔ شیخ شکر گنج نے سرِ نیاز زمین پر رکھا، جب وہاں سے چلے جوکوئی راہ میں ملتا تھا کہتاتھا کہ گنج شکر آتاہے اِس کی وجہ تسمیہ کئی طرح سے لکھی ہے۔مگر صحیح یہی ہے اورآپ صائم الدہر اورقائم اللیل تھے، بیماری کی حالت میں بھی افطار نہیں کرتے تھے اوراُن کی خوراک اکثر جنگلی میوے اورکنار صحرائی ہوتی تھی اوراس سلسلہ کے اکثر بزرگ جنگلی گھانس اورمیوں سے افطار کرتے تھے۔حضرت سلطان المشائخ سے منقول ہے کہ فرماتے تھے کہ ایک روز حضرت گنج شکر نے اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا، اُسّ سے ایک بال جُدا ہوا ،میں نے التماس کرکے وہ موئے مبارک لے لیا اورتعویذ بناکر اپنے پاس رکھا، جب میں دہلی پہنچا وہاں جو کوئی بیمار ہوتاتھا، میں اس کو دھوکر پلادیتاتھا، شافیٔ مطلق شفادیتاتھا، الغرض دہلی میں اُس کا شہر ہ تھا اکثر اہل حاجب مجھ سے مانگ کر لے جاتے اورصحت پاتے اورپھر واپس دے جاتے تھے اس کو بحفاظت ِتمام طاق میں رکھ دیتاتھا۔ ایک روز ایک شخص میرے دوستوں سے میرے پاس آیا واراپنے لڑکے کی بیماری کے واسطے وہ موئے مقدس مانگا ،ہر چند میں نے اُس طاق میں اور دوسری جگہ تلاش کیا نہ ملا، وہ شخص نااُمید گیااور اُس لڑکے نے اُس مرض میں انتقال کیا۔پھر اس تعویذکو میں نے اُسی طاق میں پایا۔ اورآپ فرماتے تھے کہ جب میرے پیر کو بیماری لاحق ہوئی مجھ کو عین عنایت سے نواز کر دہلی کی طرف مرخص فرمایا اور اُن کی آنکھوں میں پانی بھرآیا اوریہ خاکسار بھی اس رخصت کے وقت ہر بار کی نسبت زیادہ اندوہگیں اورغم ناک ہوا اوراُسی حال پر ملا، میں دہلی پہنچا ،ناگاہ اُس حضرت کی رحلت کی خبر پہنچی کہ ایک رات کو نماز عشا کے بعد بے ہوش ہوئے، جب ہوش میں آئے مولانا بدالدین اسحاق سے استفسار کیا کہ میں نے عشا کی نماز پڑھی یا نہیں ،کہا ہاں آپ نے نماز پڑھ لی ہے ،مگر احتیاطاً نماز مکرّر ادا کی ،پھر غشی طاری ہوئی ،جب افاقہ ہوا پھر پوچھا کہ نماز عشا میں نے پڑھی ہے یا نہیں، کہا ہاں پڑھ لی ہے ،پھر تیسری بار نماز پڑھی ،پھر فرمایا کہ نظام الدین دہلی میں ہے، میں بھی اپنے پیر کے انتقال کے وقت ہانسی میں تھااورمولانا بدرالدین اسحاق سے آہستہ فرمایا کہ حضرت خواجہ قطب الدین کا خرقہ جو مجھ کو پہنچا ہے نظام الدین کو دینا اوروضوکرکے دوگانہ ادا کیا اورسجدہ میں جاکر واصل ہوئے ،آپ کی وفات ماہ محّرم کی پانچویں سنہ چھ سو چوسٹھ ہجری میں واقع ہوئی، مرقد شریف قصبہ پٹن میں جو لا ہورے سے نزدیک ہے، واقع ہے۔ مدّتِ عمرپچانوے برس ہے۔

    ذکر حضرت سلطان الاولیا ملک الاتقیا قدوۂ اولیاء کرام نقاوۂ مشائخ عظّام شیخ نظام الدین محمدمحبوب الٰہی بداؤنی الدّھلوی قدس اللہ العزیز سرہ

    اُن کے پدر بزرگوار شیخ احمد ابن دانیال غزنیں سے ہندوستان میں آئے تھے اورقصبہ بداؤں میں اقامت رکھتے تھے۔ انہوں نے حضرت نظام الدین کو پانچ سال کی عمر میں چھوڑ کر رحلت فرمائی۔ والدہ ماجدہ نے آپ کی پرورش کی ،جب بلوغ کو پہنچے کمال زہد و ورع کے ساتھ علوم ظاہر کے حاصل کرنے میں مشغول ہوئے اورپچیس برس کی عمر میں دہلی میں تشریف لائے اوراپنی والدہ کو ساتھ رکھتے تھے اوردہلی میں تحصیل علوم کیا ۔اور مولانا شمس الدین خوارزمی کے درس میں جو بڑے فاضل اورکامل تھے ،حاضر ہوئے تھے اگر چہ بادشاہ عصر کی مملکت کا مدار مولانا صاحب کے سپرد تھااورشمس الملک اُن کا خطاب تھا مگر آپ کی تعظیم اوراحترام اورعلماء فضلاء کی بہ نسبت زیادہ کرتاتھا، آپ متاہل نہیں ہوئے، حضرت گنج شکر کے بھائی حضرت نجیب الدین متوکل کے گھر کے نزدیک آپ کا حجرہ تھا اوراُن کے ساتھ جو قرب ظاہری و باطنی حاصل تھا اکثر ان کے ہم صحبت رہتےتھے اور اُن سے اخلاص تمام رکھتے تھے، آپ کی والدہ نے انہیں دنوں رحلت کی۔ ایک دن حضرت نظام الدین نے حضرت نجیب الدین سے التماس فاتحہ کیا کہ میں کسی جگہ کا قاضی ہو جاؤں کہ خلق اللہ کو عدل وانصاف سے دلشاد کروں ،حضرت شیخ نے کچھ جواب نہ دیا پھر مکرر عرض کیا، شیخ نے فرمایا کہ ہر گز قاضی نہ ہو اورچیز ہو جس کو میں جانتاہوں، اُن دنوں حضرت گنج شکر کے حالات اورمقامات کا آوازہ عالم کو گھیرے ہوئے تھا، چند روز کے بعد اجودھن کو تشریف لے گئے اورحضرت شیخ کی ملازمت حاصل کی ۔اورآپ فرماتے تھےکہ میں حضرت شیخ فرید الملّۃ کا مرید ہوا ۔اُن ایام میں اُن پر فقر اورعُسرت غالب تھی۔چنانچہ ہفتہ میں ایک دو روز فاقہ ہوتاتھا اورمرید صحرا کو جاتے تھے۔ ایک شخص کریلے لاتاتھا، ایک پانی اوریک لکڑیاں اورمیں اُن کو ہانڈی میں ابالتا تھا اورپیالی میں نکال کر حضرت کے سامنے حاضر کرتاتھا ۔اورآپ اُسی سے افطار فرماتے تھے اوردرویشوں کو قسمت کرتے تھے ۔اور مُیسّر نہ تھا کہ نمک اُن میں ڈالا جاوے ۔ایک دن میں نے تھوڑا سا نمک قرض لیا اوراُن میں ڈالا، جب تیار کرکے سامنے رکھا، آپ نے تناول فرمایا اورکہا کہ اس میں کچھ شبہ ہے، میں نے عرض کیا کہ مولانا بدرالدین اسحاق اورشیخ جمال ہانسوی اورمولانا حسام الدین ایک ایک چیز لاتے ہیں اورمیں بڑی احتیاط سےجوش کرتاہوں۔شبہ کی وجہ آپ پر ظاہر ہوگئی فرمایا کہ درویش فاقہ سے مرجائیں مگر لذّتِ نفس کے واسطے قرض نہ لیں، اس واسطے کہ قرض اورتوکل میں بعدالمشرقین ہے، پھر فرمایا کہ پیالہ اٹھاؤ اوریہ فرما ن مجھ کو تھا ۔اُ س وقت سے میں نے عہد کیاکہ ہر گز کسی ضرورت کے واسطے قرض نہ لوں گا پھر جس کمبل پر آپ بیٹھے تھے مجھ کو عنایت کیا اوردعا کی کہ تو ہرگز کسی کا محتاج نہ ہو۔ اورجب اس فقیر کو دہلی کی رخصت دی ،وصیت کی کہ دشمنوں کو خوش رکھنا اورجوکسی سے قرض لیا ہو اُس کو ضرور ادا کرنا، میں جب دہلی میں پہنچا حضرت نجیب الدین کی خدمت میں حاضر ہوا اوراپنی ارادت اورملازمت کا حال عرض کیا، بہت خوشی ہوئی اورسلطان الاولیا نے فرمایا کہ یہ عاصی جب دہلی میں وارد ہوا کوئی جگہ ایسی جہاں فراغت کے ساتھ مشغول ہوں نہ دیکھی، صحرا میں جاکر مشغول ہوتاتھا اورقرآن شریف حفظ کرتاتھا، ایک دن حوض تلقد کے کنارے گزرہوا ،ایک درویش دیکھا کہ صاحبِ حال تھا ،میں نے پوچھا کہ تم شہر میں رہتے ہو، کہا کہ شہر سکونت کی جگہ نہیں ہے اگر عبادت کی حلاوت چاہے تو شہر میں نہ رہ۔ پھر ایک باغ میں گیا اور تجدید وضو کرکے دوگانہ ادا کیا اورمناجات کی کہ الٰہی جہاں میرے حال کی بہتری ہو وہ جگہ ملہم ہو کہ وہاں قیام کروں ،غیب سے آواز سنی کہ تیرے رہنے کہ جگہ غیاث پور ہے، جب یہ اشارہ پایا میں غیاث پور میں جاکر مقیم ہوا۔ حضرت سلطان المشایخ کا روضہ مبارک وہیں ہے۔ الحاصل غیاث پور میں حجرہ بناکر خلقت کی ہدایت اورارشاد میں مشغول ہوئے ۔بہت آدمی آپ کے ساتھ عقیدت اورارادت لاکر معاصی اورمناہی سے تائب اورمرید ہوئے ۔اورامیر سیف الدین نے اپنے فرزندوں اعزالدین علی شاہ اورحسّام الدین احمد اورخواجہ ابو حسن خسرو کے ساتھ حضرت سلطان الاولیا سے بیعت کی۔ امیر سیف الدین ایک مرد صالح تھے اورخواجہ خسرو اُن کے فرزند کہ تعریف اورتوصیف سے مستغنیٰ ہیں۔ وہ بیس برس کی عمر میں حضرت شیخ نظام الدین کے مرید ہوئے۔ اُن کا اعتقاد اورصدق حضرت کی طرف بدرجہ کمال تھا اورآپ سلطان الشعراء اوربرہان الفضلاء طرز سخن نظم ونثر اورجمعی علوم میں یگانہ روز گار اورعلم ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔ ریاضت اورمجاہدہ کامل رکھتے تھے ۔کہتے ہیں کہ ہر رات کو سجدے میں سات پارہ قرآن مجید پڑھتے تھے اورمنقول ہے کہ جب وہ پیداہوئے اُن کے والداُن کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر ایک مجذوب کے پاس لے گئے، مجذوب نے کہا کہ تو اُس شخص کو لایا ہےکہ خاقانی سے دوقدم آگے نکل جائے گا اورحضرت امیر خسرو نے کمالات مذکورہ کے ساتھ علم موسیقی کو جمع کیا اوراِس فن میں یکتا تھے۔ قول اورترانہ کی روش جو اس وقت میں مشہور ہے اُنہوں نے وضع کی،اُن سے پہلے نہ تھے۔لکھا ہے کہ حضرت شیخ عنایت اُن کےبارے میں یہاں تک تھی کہ ایک بار فرمایا کہ میں سب سے ناخوش ہوجاتاہوں مگر تجھ سے نہیں ۔ روایت ہے کہ سلطان علاوالدین بادشاہ دہلی نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک سرحد کی تسخیر کے واسطے بھیجاتھا۔ اُس پر ایک مدّت گزری مگر کچھ خبر نہ آئی ۔حضرت سلطان المشایخ کی خدمت میں اپنا آدمی روانہ کیااورکہا بھیجا کہ میں یہی چاہتاہوں کہ اُدھر لشکر کشی کروں، آپ یہاں قدم رنجہ فرمائیں کہ حسب الارشاد عمل کیا جاوے اور چاہا کہ اس تقریب سے قدوم فیض لزوم کا شرف عظمیٰ پائے۔ یہ سن کر آپ نے مراقبہ کیا، تھوڑی دیر کے بعد سر اُٹھاکر فرمایا کہ جابادشاہ سے کہہ، کل اُس مملکت کے فتح کی خبر آئے گی اورتیرابھائی بھی غنائم کثیر کے ساتھ پہنچے گا۔ جب یہ بشارت بادشاہ کو پہنچی بہت خوش ہوا۔ دوسرے روز دو شتر سوارفتح کا مژدہ لائے ،بادشاہ نے پانچ سو دینار سرخ حضرت سلطان المشایخ کی خدمت میں پیشکش کی، وہاں ایک دریش حاضر تھا اسفندیار نام اُ س نے کہا کہ الھَدَایَا مُشْتَرِک یعنی ہدیہ بے شرکت نہ ہونا چاہئے، آپ نے فرمایا مگر اکیلے کو ہی ملنا بہتر ہے اوروہ پانچ سو دینار اُس کو عطا کئے۔ نقل ہے کہ وجد و ذوق آپ کا درجہ کمال پر تھا اورسماع بہت کرتے تھے اورخوارق عادت اورکرامت حدِبیان سے باہر ہیں۔ جب سنِ مبارک چورانویں سال کا ہوا مرض الموت میں آٹھ ماہ تک بول و براز بند رہا ،خادم سے فرمایا جو کچھ نقد اور جنس سے ہمارے ملک میں ہے حاضر کرکہ مستحقوں کو تقسیم کروں، خادم نے عرض کیا کہ جو کچھ فتوح میں پہنچتاہے دوسرے دن تک نہیں رہتا، مگر کئی ہزار من غلّہ موجود ہے کہ فقیروں کے واسطے لنگر پکایا جاتاہے ،فرمایا کہ جلد صرف کر ،پھر اپنے خاص کپڑے منگائے اورخلفاء کو تقسیم کئے اورہر ایک کو ایک ایک جگہ روانہ کیا، شیخ نصیر الدین حاضر تھے انہیں کچھ نہ دیا۔ چارشنبہ کے روز اُن کو طلب فرمایا اورخرقہ اورعصا اورتسبیح اورکاسۂ چوبیں جو کچھ اپنے پیر حضرت گنج شکر سے پایاتھا اُن کو سپرد کیا اوراپنا جانشین کرکے واصل رحمت ہوئے ۔آپ کی وفات چار شبنہ کے روز دسویں ربیع الآخر سنہ سات سو پچیس ہجری میں واقع ہوئی ۔مرقد منور غیاث پور میں ہے۔ انتقال کے وقت حضرت ملک الشعرا سلطان تغلق کے بنگالہ میں تھے جب یہ خبرسنی دہلی کا قصد کیا اورمزارپُرانور پر پہنچ کر قبر کے مقابل کھڑے ہوئےاور کہا کہ سبحان اللہ آفتاب زمین کے نیچے اورخسروزندہ ،اورروئے گرد آلودہ کو مرقد منّور پر گھِس کر بے ہوش ہوئے اورسیاہ کپڑے پہنے اورتین ماہ اورپندرہ روز کے بعد خود بھی رحلت فرمائی۔ اورپیر و مرشد کی پائینتی مدفون ہوئے۔ سنہ سات سو پچیس ہجری میں چارشنبہ کے روز انتقال فرمایا۔

    ذکر قدوۂ عارفان زبدۂ آسمان جہان ولایت قطب فلک کرامت حضرت شیخ نصیر الدین محمود اودھی قدس اللہ سّرہٗ

    صوفیان باتمکین اوربزرگان اہل یقین سے ہوئے ہیں۔ حالات علیہ اورمکاشفات جلیہ رکھتے تھے۔ اُن کا تولد ملک اودھ میں ہوا۔ والد بزرگوار ان کو نوبرس کی عمر میں چھوڑ کر عازم بہشت ہوئے۔ والدہ ماجدہ نے تعلیم علوم دین میں جہد کیا۔ پچیس برس اس میں صرف کئے ،پھر کسب کمالاتِ باطن کی طرف توجّہ کی۔ ریاضت اورمجاہدہ اعلیٰ درجہ میں تھا۔ سات برس تک ایک دو درویش کے ساتھ نماز جماعت کے خیال سے جنگل میں جاکر مشغول ہوتے تھے اوراکثر بزرگ سنبھالوسے افطار کرتے تھے۔ جب تینتالیس سال گزرے دہلی میں پہنچے اورحضرت سلطان الاولیا شیخ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ارادت کی اورپیر کی خدمت میں مشغول طلب رہتے تھے۔ اُن کی ایک ہمشیرہ تھی رابعہ وقت ،اُس کے نفقہ کی فکر میں پیر سے رخصت حاصل کرکے اودھ میں آتے جاتے تھے اوراکثر شیخ برہان الدین غریب کے گھر میں جو حضرت سلطان المشایخ کے خلیفوں سے ہے، قیام رکھتے تھے اورحضرت شیخ نظام الدین نے ایک کلاہ نمدی شیخ برہان الدین کو عنایت فرمائی تھی، وہ گم ہوگئی تھی اس سبب سے ملول رہتےتھے ۔ایک دن آپ مراقبہ میں تھے اورشیخ برہان الدین اندوہناک آکر اُن کے پاس بیٹھے، جب مراقبہ سے فارغ ہوئے شیخ موصوف کو بہت غمگین دیکھا۔ اُس کا باعث دریافت کیا، کہا کہ پیرومرشد کی کلاہ مبارک گم ہوگئی ہے ،پھر مراقبہ کرکے سر اٹھایا اورفرمایا کہ اندوہگیں نہ رہو کہ کلاہ مل جائے گی اوردوسرے روز جب شیخ برہان الدین حضرت سلطان الاولیا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے صفِ خاص کا مصلّی اُن کو مرحمت کیا ،شیخ موصوف خوش وخرّم گھر کو روانہ ہوئےاورمصلیّ رکھنے کے واسطے بُقچہ کھولا اورکلاہ کو اس میں پایا ،شکر حق میں سر کو جھکایا اورشیخ نصیرالدین رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد کیا کہ لباس درویشی کا حق یہ ہے کہ گندم نما اورجو فروش ہونا چاہئے۔ صوفی کو جفاکشی اوروفاداری لازم ہے ،اگر حضرت شیخ المشایخ نہ فرماتے کہ شہر میں رہ اورجفا کھینچ، ہر گز میری نیت آبادی میں رہنے کی نہ تھی، بیابان اورکوہستان میں مشغول رہتا ۔اورآپ طریق مرشد کے موافق متاہل نہیں ہوئے اورحضرت سلطان الاولیا کے خلفا ان کو اپنا فخر سمجھتےرہے ،تسلیم اوررضا اور استغراق حضرت کو بے حد تھا۔ نقل ہے کہ ایک دن آپ حجرے میں مشغول تھے، ناگاہ ایک قلند تراب نام، اُس کے سر پر خاک ،حجرے میں آیا اورچھُری سے گیارہ زخم جسم مبارک پر لگائے، خون حجرے سے رواں ہوا ،خدّام خبردار ہوکر دوڑے ،حضرت کو عبادت میں مشغول پایا اورمریدوں نے چاہا کہ اُس بدبخت کو ایذا پہنچائیں، آپ نے منع کیا اوربیس اشرفی قلندر کو انعام فرمائیں اورعذر کیا کہ تیرے ہاتھ کو چھُری مارنے کے وقت آزار پہنچاہوگا۔ اِس قضیہ کے بعد آپ تین سال تک زندہ رہے ،اٹھارہویں رمضان المبارک شب جمعہ کو رحلت کی۔ انتقال کے وقت مولانا زین الدین علی نے جواُن کے مرید اورخادم تھے عرض کیا کہ خلفا اورمرید بہت ہیں، ایک کو خرقہ اورجانشینی عنایت ہو، فرمایا کہ سب کے نام لکھ کر لاؤ، جب سب کے نام پڑھ کر سنائے فرمایا اُن سے کہو کہ اپنے ایمان کا غم کھائیں، اس کے کیا جگہ ہے کہ سب کا بوجھ اٹھائیں اوروصیت کی کہ دفن کے وقت حضرت پیر کا خرقہ میرے سینہ پر اورعصا کو میرے برابر ،نعلین کو بغل میں اورکاسۂ چوبیں میرے سر کے نیچے خشت کی جگہ رکھ دیں اورتسبیح کو میری انگلیوں میں لپیٹ دیں، مریدوں اورخادموں نے وصیت کے موافق عمل کیا اوراٹھارہویں ماہِ رمضان کو چاشت کے وقت سنہ سات سو ستّانوے ہجری میں وفات پائے ۔مزارمبارک دہلی سے باہر ہے۔

    خاتمہ

    جان کہ یہ ضعیفہ ادائے فرائض اورواجبات اورتلاوت قرآن مجید کے بعد اولیا ئےکرام قدس اللہ اسرارہم کے حالات اورمقامات کے ذکر سے کسی عبادت کو بہترنہیں جانتی، اس واسطے اپنے خلاصہ اوقات کو اُن کتابوں کے مطالعہ میں جو احوال بزرگان دین پر مشتمل ہیں، گزارتی ہے اورکمال اخلاص اورعقیدتمندی نے اِس حقیرہ کو آمادہ کیا کہ ایک مختصررسالہ اُس سلطان عالی جاہ اوراُس کے خلفاء حق آگاہ روح اللہ ارواحہم کے حالات میں تحریر کرے۔ الحمد لللہ والمنۃ کے خدائے علیم وقدیر کی توفیق سے یہ رسالہ ستائیسویں ماہ مباک رمضان سنہ ایک ہزار چورانوے ہجری میں اختتام کو پہنچا۔اس نسخہ کو معتبرکتابوں سے جمع کیا ہے، لطف الٰہی سے امید ہے کہ ناظرین کو بہرۂ تمام حاصل ہوگا ۔اب یہ ضعیفہ روضۂ متبرکہ پر حاضر ہوئی اورزیارت کرنے کا حال یہاں لکھنا مناسب سمجھتی ہے۔ حمد حضرتِ کبریا اورنعت جناب مصفیٰ کے بعد کہتی ہے کہ فقیرہ حقیرہ جہان آرا کہ یاوری بخت اورفیروزی طالع سے میں دارالخلافہ اکبر آباد سے اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ خطۂ پاک اجمیر کی طرف روانہ ہوئی، اٹھارہویں تایخ ماہ شعبان سنہ ایک ہزار تریپن میں ساتویں تاریخ ماہ رمضان المبارک کو جمعہ کے روز اجمیر کی اس عمارت میں جوتال اَناساگر کے کنارے پر ہے،قیام کیا۔ راہ میں توفیق الٰہی سے ہر روز ہر منزل پر دو رکعت نماز نفل ادا کرتی تھی اوریک بار سورہ یٰسین اورسورۂ فاتحہ اخلاص تمام کے ساتھ پڑکر اِس کا ثواب حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کی روح پر فتوح کو نذر کرتی تھی۔ عمارت مذکورہ میں چند روز توقف ہوا، کمال ادب سے میں رات کو پلنگ پر نہ سوئی اورروضۂ مقدس کی طرف پاؤں نہ پھیلائی اور اکثر اُس طرف پشت نہ کی اوردنوں کو درختوں کے نیچے گزارتی، اُس شاہ دیں پناہ کی برکت اورسرزمین جنت آئین کے فیض سے عجیب شوق وذوق حاصل ہوتاتھا، ایک رات میلاد شریف اورچراغان خوشی کا اہتمام کیاگیا ،جہاں تک روضۂ عالیہ کی خدمت ہوسکی اُس میں تقصیر نہ کی، صد ہزاراں ہزار شکر کہ چودہویں رمضان المبارک کو مرقد مقدس کی زیارت حاصل کی، ایک پہر دن باقی رہاتھا کہ روضۂ منورہ کے اندر گئی اوراپنے رخِ زرد کو اُس آستانہ کی خاک پر ملا اور دروازہ سے گنبد مبارک تک زمین بوس پابرہنہ گئی اورروضۂ جنت نشان میں داخل ہوئی، سات بار قبرِ اطہر کے گِرد پھری اوروہاں کی خاک پاک کو آنکھوں کا سُرمہ بنایا۔ اُس وقت عجیب ذوق اورکیفیت حاصل ہوئی کہ لکھنے میں نہیں آتی۔ نہایت شوق سے سراسیمہ ہوگئی تھی اورنہیں جانتی تھی کہ کیا کہوں اورکیا کروں ،پھر میں نے اپنے ہاتھ سے تربت معطر و معنبر پر عطر ملا اورپھولوں کی چادر اپنے سر پر رکھ کر لائی اورقبر مبارک پر ڈالی اورسنگ مرمر کی مسجد میں کہ میرے پدربزرگوار کی بنوائی ہوئی ہے، دوگانۂ شکر ادا کیا ۔ پھر گنبدمبارک میں بیٹھ کر سورۂ یسین اورفاتحہ روح مبارک حضور کے واسطے پڑھی۔ نماز مغرب کے وقت تک میں وہاں رہی اورمرقد منور پر شمع روشن کرکے روزہ پانی سے افطارہ کیا، عجب شام دیکھی کہ صبح سے بہتر تھی اگرچہ اخلاص اورمحبت اورہمت اِس کی متقاضی نہ تھی کہ ایسی جائے متبرکہ پر جاکر پھر گھر کو آئے لیکن کیاچارہ

    رشتۂ درگرد نم افگندہ دوست

    مے برد ہر جاکہ خاطر خواہِ اوست

    ناچار چشم گریاں اور سینہ بریاں سو ہزار افسوس کے ساتھ اس بارگاہ سے مرخص ہوکر قیام گاہ میں پہنچی، تمام رات بیقراری رہی، صبح کو جمعہ کے دن والد بزرگوار نے اکبرآباد کی طرف قصد فرمایا، اب حضرت غریب نواز قدس اللہ سرہ العزیز کے لطف عمیم سے امید ہے کہ یہ مجموعہ درجہ قبولیت کو پہنچے اور اس مریدہ متعقدہ پر توجہ فرماتے رہیں۔ وصلی اللہ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔

    غزل در منقبت حضرت خواجہ غریب نواز مصنفہ حضرت کلیم صاحب مترجم کتاب

    خواجہ شاہ بندہ پرورلے خبر

    اے حبیب رب اکبرلے خبر

    ہجر میں ہوں مثل قمری نعرہ زن

    سروگلزارِ پیمبرلے خبر

    ہوگیا ہے غم سے خوں میرا جگر

    اے جگر پیوند حیدر لے خبر

    قرۃ العین حسن جان حسین

    حضرت زہرا کے دلبرلے خبر

    میں ہوں اور غم کی اندھیری رات

    اے میرے ماہ منور لے خبر

    گلشن دل ہے میرا وقف خزاں

    باغ عرفاں کے گل ترلے خبر

    ہوں اسیر آفت رنج وبلا

    رحم کر مجھ پر کرم کرلےخبر

    معرفت کی راہ پیچا پیچ ہے

    میرے مرشد میرے رہبرلے خبر

    حال بدتر ہے کلیمؔ زار کا

    جان آپہنچی ہے لب پر لے خبر

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے