Sufinama

امر_و_خلق

وہ عالم جو کہ موجد کے امر سے دفعتاً بے مادّہ و مدّت کے موجود ہوگیا عالمِ امر ہے۔ برعکس عالم خلق کے جو مادّہ اور مدّت کے ساتھ مقیّد ہے۔

بسیط چیز کا عدم سے وجود میں لانا امر ہے۔ اور مرکب چیز کا پیدا کرنا کسی چیز سے ساتھ تبدیل صورت کے خلق ہے۔

اَلَا لَہ الخَلقُ وَالاَ مرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ العَالمِینَ* (اعراف۔ ع ۷)

خبردار ہوجاؤ کہ واسطے اسی کے ہے خلق اور امربہت برکت والاہے اللہ پروردگار عالموں کا۔

اِنَّمَا اَمرُہ اِذَآ اَرَادَ شَیأ اَن یَّقُولَ لَہ کُن فَیَکُونُ* یٰسین۔ ع ۵)

بے شک حکم اس کا جب ارادہ کرے کسی چیز کا یہ ہے کہ فرماتاہے واسطے اس کے کہ ہو جا پس وہ ہوجاتاہے۔

اللہ تعالیٰ کا امر ہی موجودات کی علّت ہے جو چیز نہ تھی پھر ہوگئی۔ وہ امرِ الٰہی سے ہوئی۔ اس نے معدوم کو عدم سے وجود میں آنے کا حکم دیا اور وہ آگیا۔ اس کا امر حقیقی ہے۔ مجاز سے آلودہ نہیں۔ اس کا امر مخلوق کے امر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مخلوق یعنی محدثات جب کسی چیز کا امر کرتے ہیں تو امر کرنے سے قبل بہت سی چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ پھر اس میں ان کی خواہشات اور اغراض بھی شامل ہوتی ہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے امر کی تعمیل ہو یانہ ہوبخلاف امرِ باری تعالیٰ کے کہ وہ غرض اور مدّت اور فتور اور قصور اور طمع اور خوف سب سے پاک ہے۔ جب وہ کسی چیز کی اختراع اور ایجاد کا ارادہ فرماتاہے تو حکم دیتاہے کہ ہو جا اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ اس چیز کا یہ موجود ہونا حکم کے ساتھ بلا تقّدم و تاخّر وقوع میں آتاہے۔ اور یہ بات کیس اور کے لئے ممکن نہیں ۔ گویا یوں سمجھنا چاہئے کہ اس کا ارادہ ہی اس کا امر ہے اور اس کا امر ہی ’’کن‘‘ کا کہناہے۔ اور اس کے کن کا کہنا چیز کا ہوجانا ہے۔ یہ فرقِ لفظی صرف تفہیم کے لئے ہے۔ ورنہ علمِ توحید میں ان سب کے ایک ہی معنیٰ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کا لفظِ کن حروف اور صورت کا مجموعہ نہیں۔ نہ کاف ونون کی صورتِ ترکیبی کو اس میں دخل ہے بلکہ اس کاکن در اصل عقل کا فیضان ہے، اور کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ کیونکہ قدرت کبھی منقطع نہیں ہوتی بلکہ قدرت کی شعاعیں کبھی حسِ میں ظاہر ہوتی ہیں کبھی عقل میں مخفی۔

امرِ الٰہی کے تین مراتب ہیں۔ (۱) حقیقت الامر (۲) اثرالامر (۳)صورت الامر۔

(۱) حقیقت الامر علمِ ذاتی ہے جو شامل ہےکل چیزوں پر۔یعنی ان پر بھی جو ہوچکی ہیں، اور ان پر بھی جو ہونے والی ہیں اور ان پر بھی جو ہونے والی نہیں ہیں۔ اس کا امر اس کے علم و صفات کے لوازمات سے ہے۔ اور اس کی صفات اس کی ذات کے لوازمات میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا امر، فعل و انفعال نہیں ۔ نہ اس میں انقطاع و اتّصال ہے بلکہ اس کا امر اس کی مراد ہے اور اس کی مراد اس کے علم کا ایک بھید ہے چنانچہ حقیقت الامر کو علمِ الٰہی بھی کہاجاسکتاہے۔

(۲)اثر الامر جبرئیلؑ ہیں۔ امرِ الٰہی کا اثر یہ ہے کہ اجسام کو حرکت ہو اور روح کی پیدائش ظہور میں آئے۔ امر کی حقیقت الٰہیت سے ہے۔ اور امر کا اثر ربوبیت سے متعلق ہے۔ قُل الرُّوحُ مِن اَمرِ رَبِّی۔ سے ارواح کا جو امر سے مستفاد ہونا پایا جاتاہے اس سے مراد امرِ ذاتی نہیں بلکہ امر کے آثار ہیں۔امر کے آثار یہ ہیں کہ احکامِ الٰہی کی تبلیغ ہو اور اشیاء میں ان کے مراتب کے لحاظ سے ترتیب قائم رہے اور یہ خدمت جبرئیلؑ کے سپرد ہے۔

(۳)صورت الامر محمدرسول اللہ ؐ ہیں ۔ علمِ الٰہی اور مشیئت الٰہی اور ارادۂ الٰہی اور احکامِ الٰہی کی آپ صورت ہیں۔ آپ ہی اصل ہیں جملہ انبیاء کی ۔ آپ ہی اوّلِ خلق ہیں۔ آپ ہی خاتم الرسل ہیں ۔آپ ہی افضل البشر ہیں۔ آپ ہی سرورِ کائنات ہیں۔ آپ ہی خلاصۃ الموجودات ہیں۔ آپ بندگانِ خدا کے مصلح، ان کے رہبر و رہنما، ان کو اللہ کی جانب ،اللہ کے حکم سے مدعو فرمانے والے، اللہ کی جناب میں ان کی شفاعت فرمانے والے، ان کے اور اللہ کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں۔ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَآلہ وَصَحبِہ وَجَمَیعِ اَولَیَاءِاللہِ فِی اّمَّتِہ اَجمَعِینَ وَ بارَکَ وَسَلّمَ ۔

اوست ایجادِ جہاں را واسطہ

درمیان خلق و خالق رابطہ

شاہبازِ لامکانی جانِ او

رحمۃ للعالیمن درشانِ او

عارفِ اطوارِ سرِّ جزو کل

خلقِ اوّل روحِ اعظم عقلِ کل

علتِ غائی ز امرِ کن فکاں

نیست غیر از ذاتِ آں صاحبقراں

رہنمائے خلق وہادیٔ سبل

مقتدائے انبیاء ختم رسل

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے