Sufinama

حقیقت_انسانی

انسان عالم کا خلاصہ ہے۔ بلحاظ ارتباط معنوی موجودات کو انسان سے وہ نسبت ہے جو جسم کو روح سے ہے۔

اپنے آپ کو کسی آئینہ میں دیکھنا اس سے مختلف ہے کہ اپنے پر براہِ راست نظر ڈالی جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے اسماء حسنیٰ کے اعتبار سے اپنا معائنہ ایک ایسے آئینے میں کرے جوجملہ شیون الٰہی کے پرتو کو قبول کرنے کی صلاحت رکھتاہو تو اس نے عالم ایجاد کیا اور اس عالم میں اپنا خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا۔ سنّت الٰہی اسی طورپر جاری ہے کہ پہلے جسم کو درست اور آراستہ کیا جاتاہے۔ جب جسم میں روح کے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔

فَاِذَا سَوَّیتُہ وَنَفَختُ فِیہ مِن رُوحِی۔(الحجر۔ ع ۳ وص۔ ع ۵)

پس جب تسویہ کرلوں میں اس کا (یعنی جسم آدمؑ کا)اور پھونک دوں بیچ اس کے اپنی روح۔

پہلے تسویۂ بدن ہوتاہے پھر نفخِ روح اور تسویہ سے مراد ہے روح کے قبول کرنے کی صلاحیت کاپیدا ہونا۔ چنانچہ جب عالم میں جو بمنزلہ بدن کے ہے روح قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو آدم ؑکو پیدا کیاگیا جو روحِ عالم ہیں اور جب آدمؑ میں روح قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تو ان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی۔ روح پھونکنے سے مراد یہ ہے کہ اپنی ذات اور صفات کا پر تو آدم پر ڈالا۔ چونکہ آدم کا تسویہ پورا ہوچکا تھا انہوں نے اس پر تو کو قبول کرلیا اور امانتِ الٰہی کے متحمل ہوگئے۔ کائنات کی کسی اور چیز میں یہ استعداد نہ پائی گئی کہ اس جامعیت کی متحمّل ہوسکے چنانچہ جملہ اسماء وصفات الٰہی خلقتِ انسانی میں ظاہر ہوئےاور وجود انسانی نے جمیع مراتبِ علوی وسفلی کو گھیر لیا

ماجامِ جہاں نمائے ذاتیم

مامظہرِ جملۂ صفاتیم

مانسخۂ نامۂ الٰہیم

ماگنجِ طلسمِ کائناتیم

ہم صورتِ واجب الوجودیم

ہم مغیٔ جانِ ممکناتیم

برتر زمکان ودر مکانیم

بیروں زجِہات و درجہاتیم

ہر چند کہ مجملِ دو کو نیم

تفصیل جمیع مجملاتیم

(مغربی)

جس قدر صفات اللہ تعالیٰ میں ہیں اسی قدر صفات انسان میں ہیں بہ استثنائے وجوب ذاتی۔ اللہ تعالیٰ حیّ اور سمیع وبصیر ہے۔ انسان حیّی اور سمیع وبصیر ہے۔ فرق یہ ہے کہ انسان اپنی حیات اور اپنے سمع وبصر میں اللہ کا محتاج ہےاور اللہ کسی بات میں کسی کا محتاج نہیں۔ اخبارِ الٰہی ترجمانِ حق کی زبانوں پر ان ہی صفات کے پیرایہ میں ظاہر ہوتے ہیں جو انسان اپنے نفس میں پاتاہے لیکن در اصل اس کی حیات ہماری حیات سے مختلف اور اس کا سمع و بصر ہمارے سمع وبصر سے مختلف ہے۔ اس اختلاف کا باعث اس کا وجود اور ہمارا حدوث ہے۔ اس نے اپنے نفس کو ظاہر و باطن کی صفات سے موصوف فرمایا ہے ۔ عالم کو بھی خوف و رجاء کے درمیان رکھا اپنے کو جمال و جلال سے موصوف فرمایا۔ انسان کو بھی ہیبت انس پر وضع کیا۔ یہی حال جملہ صفات کا ہے۔ ان ہی صفات متقابلہ کو دوہاتھوں سے تعبیر کیاگیا۔

مَامَنَعَکَ اَن تَسجُدَ لِمَا خَلَقتُ بِیَدَیَّ۔(صٓ۔ ع ۵)

کس چیز نے منع کیا تجھ کو اس سے کہ سجدہ کرے تو اس کو جس کو کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔

علاوہ اس کے کہ اسمائے متقابلہ آدمؑ میں مجتمع ہوئے۔دوہاتھوں سے اشارہ اس جامعیت کی جانب بھی ہے جو ان میں صورتِ حق اورصورت خلق کے جمع ہونے سے پیدا ہوئی۔ آدم علیہ السلام باعتبار اپنے ظاہر کے خلق کی صورت اور باعتبار اپنے باطن کے حق کی صورت ہیں۔ اسی جامعیت نے انہیں مستحق خلافت بنایا۔ موجوداتِ عالم کے ذرّہ ذرّہ میں حق تعالیٰ کا ظہور ہے۔ اگر یہ ظہور نہ ہوتاتو موجوداتِ صوری کا وجود ہی نہ ہوتا لیکن حق تعالیٰ کا ان ذرّوں میں ظہور ہر ذرّہ کی استعداد کے مطابق ہے۔ ظہور اتم سوائے انسان کے کسی اور چیز میں نہیں۔ جملہ صفاتِ الٰہیہ کے ساتھ مجموعی طورپر سوائے انسان کے اور کوئی فائز نہیں۔

وَعَلَّم آدَمَ الاَسمٓاءَ کُلَّھَا (البقر۔ع۔۴)

اور تعلیم کئے آدم کو اسماء سب کے سب۔

سے اسی جانب اشارہ ہے کہ جملہ اسماء وصفات کا آدمؑ پر پر تو ڈالا اور انہوں نے اس پر تو کو قبول کرلیا۔ اسی صلاحیت کی بدولت انہیں فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی اور وہ مسجودِ ملائک بنے۔ جس طرح اسمِ اللہ جملہ اسماء الٰہی کا جامع ہے، اسی طرح انسان جملہ صفاتِ الٰہی کا جامع ہے۔ پس حقیقت انسانی مظہر ہےاسم اللہ کی۔ جب کائنات میں ان اسماء کا ظہور ہے جن کا جامع اسم اللہ ہے تو حقائق ِعالم علمی اور عینی اعتبارات سے حقیقتِ انسانی ہی کے مظاہر ہیں، گویا عالم انسان ہی کی حقیقت ظاہر ہے۔

بادہ از مامست شد نے ما ازو

قالب از ماہست شد نے ما ازو

اسی بنا پر عالم کو انسانِ کبیر اور انسان کو عالمِ صغیر کہتے ہیں۔ حقیقتِ انسانی کا تفصیلی ظہور عالم میں ہے اورعالم کا اجمالی ظہور انسان میں ہے۔ یا انسان کی تفصیلی صورت عالم ہے اور عالم کی اجمالی صورت انسان ہے۔ جو کچھ عالم میں ہے سب اجمالی طورپر انسان میں ہے اور جو کچھ انسان میں ہے سب تفصیلی طور پر عالم میں ہے۔

مرا بہ ہیچ کتابے مکن حوالہ دگر

کہ من حقیقتِ خودرا کتاب می بینم

(مغربی)

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے