آہ پر اشعار
آہ فارسی زبان مں افسوس
کے موقع پر استعمال کیا جانے والا ایک کلمہ ہے۔ ہندی مں ہائے اور انگریزی مںی Oh مستعمل ہے۔ اردو مںں فارسی زبان سے لیا گیاہے ۔ یہ اردو میں بطور اسم اور بطور حرف دونوں طرح مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلا ت مںن اس کا استعمال ملتا ہے۔ذیل کے شعرمیں میرتقی میر نے اسی معنی میں اسے استعمال کیا ہے آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا اس باد نے ہمںو تو دیا سا بُجھا دیا تصوف میں یہ کمالِ عشق کی ایک علامت ہے جس کے بیان سے زبان وقلم دونوں قاصر ہیں۔
میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں
آہ خوش باشد کہ بینم بار دیگر روئے دوست
در سجود آیم بہ محراب خم ابروئے دوست
درد دل کتنا پسند آیا اسے
میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی
نالہ فریاد آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا
مرض عشق محالست کہ پنہاں ماند
آہ گر ضبط کنم اشک رواں را چہ علاج
وہ کہ اک مدت تلک جس کو بھلا کہتا رہا
آہ اب کس منہ سے ذکر اس کی برائی کا کروں
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
آہ اے یار کیا کروں تجھ بن
نالۂ زار کیا کروں تجھ بن
نہ پوچھو بے نیازی آہ طرز امتحاں دیکھو
ملائی خاک میں ہنس ہنس کے میری آبرو برسوں
جگا کر خواب آسائش سے بیدارؔ آہ ہستی میں
عدم آسود گاں کو لا کے ڈالا ہے تباہی میں
تنزیہہ سے میں عالم تشبیہ میں آہ
گویا ہوں زباں سے لا الہ الا اللہ
لایا تمہارے پاس ہوں یا پیر الغیاث
کر آہ کے قلم سے میں تحریر الغیاث
از آہ بیقرار دل آزردگاں بترس
تاثیر اضطراب دعا را نگاہ دار
ایک دن مدتوں میں آئے ہو
آہ تس پر بھی منہ چھپائے ہو
فلک خود پیر ہے گردش ستائے آپ ہی اس کو
اسی سے آہ کو شکوہ ہے اپنی نارسائی کا
ہر دم آتی ہے گرچہ آہ پر آہ
پر کوئی کارگر نہیں آتی
غم ترا دل سے کوئی نکلے ہے
آہ ہر چند میں نکال رہا
آپ کو ہم نے کھو دیا ہے بیاںؔ
آہ کس کا سراغ رکھتے ہیں
ہوس جو دل میں گزرے ہے کہوں کیا آہ میں تم کو
یہی آتا ہے جی میں بن کے بامہن آج تو یارو
کیا کروں آہ میں اثرؔ کا علاج
اس گھڑی اس کا جی ہی جاتا ہے
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
واہ کیا خوب آشنائی کی
آہ اس پردہ نشیں کی جستجو میں جو گئے
کچھ پتہ پایا نہ اس کا خود ہی جا کر کھو گئے
کیوں میں فراق یار میں آہ و فغاں کروں
کوثرؔ دل حزیں جرس کارواں نہیں
وہ بولے تری آہ سوزاں ریاضؔ
ہمیشہ ترا منہ جھلستی رہی
کاری لگی جگر پہ کٹاری نگاہ کی
بے خود ہوا زمیں پر گرا دل سے آہ کی
مسلماں دونوں پھر باہم نفاق آہ
کدھر ڈھونڈھیں تجھے اے اتفاق آہ
نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
آہ لے جائیے کہاں دل کو
سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ
میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا
کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے
ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے
کس طرح دکھاؤں آہ تجھ کو
میں اپنی یہ خراب حالی
کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے
ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے
ہوتے ہی صبح آہ گیا ماہ چار دہ
ثابت ہوا مجھے کہ نمک ہے عدوئے شیر
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere