Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

عاشق پر اشعار

ہر کہ عاشق دیدیش معشوق داں

کو بہ نسبت ہست ہم این و ہماں

رومی

عاشق ہزاروں صورت پروانہ گر پڑے

الٹی نقاب رخ سے جو محفل میں یار نے

اوگھٹ شاہ وارثی

الروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جاں بھی پیارے جلا جانا

احمد رضا خاں

عاشقوں کو پھر قضا آئی قیامت ہو گئی

پھر سمند ناز کو اس ترک نے جولاں کیا

اوگھٹ شاہ وارثی

من اگر بے سر و ساماں شدہ ام عیب مکن

عاشق از روز ازل بے سر و ساماں افتاد

جامی

قتل کچھ عاشق ہوئے مقتل میں اس کے ہاتھ سے

کچھ پھرے مایوس اور شوق شہادت لے چلے

اوگھٹ شاہ وارثی

دل کا عالم عاشقی میں کیا کہوں کیا ہو گیا

رنج سہتے سہتے پتھر کا کلیجہ ہو گیا

اوگھٹ شاہ وارثی

اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا

اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا

آسی غازیپوری

منہ پھیرے ہوئے تو مجھ سے جاتا ہے کہاں

مر جائے گا عاشق ترا آرے آرے

شاہ اکبر داناپوری

محبت جب ہوئی غالب نہیں چھپتی چھپانے سے

فغان و آہ و نالہ ہے ترے عاشق کا نقارا

شاہ تراب علی قلندر

نہ تم نے قدر کچھ عاشق کی جانی

بہت روؤ گے اب تم یاد کر کے

آسی غازیپوری

اوگھٹؔ جہاں میں اب دل و دیں پوچھتا ہے کون

عاشق کا ان بتوں میں کوئی قدر داں نہیں

اوگھٹ شاہ وارثی

درد دل اول تو وہ عاشق کا سنتے ہی نہیں

اور جو سنتے ہیں تو سنتے ہیں فسانے کی طرح

امیر مینائی

گر پڑے غش کھا کے عاشق اور مردے جی اٹھے

دو قدم جب وہ چلے یہ حشر برپا ہو گیا

اوگھٹ شاہ وارثی

ہم تو عاشق ہیں تیرے سورج پہ جوں سورج مکھی

ہو جدھر تو بس ادھر ہی منہ ہمارا پھر گیا

کشن سنگھ عارفؔ

تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو

یہ تو کہنے ہی کی باتیں ہیں کہاں سنتے ہو

میر محمد بیدار

اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے

وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے

افقر موہانی

شاید اس آئینہ رو کے ہے بھرا دل میں غبار

خاک عاشق پر جو وہ دامن جھٹک کر رہ گیا

شاہ نصیر

پیری نے بھرا ہے پھر جوانی کا روپ

عاشق ہوئے ہم ایک بت کم سن کے

شاہ اکبر داناپوری

دین و مذہب سے ترے عاشق کو اب کیا کام ہے

وہ سمجھتا ہی نہیں کیا کفر کیا اسلام ہے

عرفان اسلام پوری

لفظ الفت کی مکمل شرح اک تیرا وجود

عاشقی میں توڑ ڈالیں ظاہری ساری قیود

عزیز وارثی دہلوی

عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے

لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے

بیدم شاہ وارثی

اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ہو

لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاڑھے ہو

سلطان باہو

کہا اس نے کہ اکبرؔ کس کے عاشق ہو کہا میں نے

تمہاری پیاری عادت کا تمہاری بھولی صورت کا

اکبر وارثی میرٹھی

عاشق راز ماہی دے کولوں ہون کدیں نہ وندے ہو

نیند حرام تنہاں تے جہڑے ذاتی اسم کماندے ہو

سلطان باہو

خبر اپنی نہیں رکھتے خبر غیروں کی کیا رکھیں

کہ عاشق ما سوائے یار سے بیزار بیٹھے ہیں

نورؔ بہاری

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ

تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

حسرت موہانی

مجھ کو مل جائے تو تدبیر تسلی پوچھوں

تو نے جس آنکھ سے عاشق کا تڑپنا دیکھا

مضطر خیرآبادی

تیرے عاشق تیرے شیدا کا یہ حال

ہائے کیسے تجھ سے دیکھا جائے ہے

تپاں پھلواروی

عاشق ہے گلعذار کس کا

دل اس کا ہے داغ دار کس کا

عرفان اسلام پوری

عاشقوں کے ہوں گے راہ یار میں کیا کیا ہجوم

شوق جن کو کارواں در کارواں لے جائے گا

حسرت موہانی

دم بدم یوں جو بد گمانی ہے

کچھ تو عاشق کی تجھ کو چاہ پڑی

خواجہ میر اثر

اے ستم گر بے وفا یہ بے وفائی کب تلک

عاشقوں کی تیرے کوچے میں دہائی کب تلک

کشن سنگھ عارفؔ

معشوق پابوس میں عاشق نے بچھائی آنکھیں

فرش گل پر کبھی اس شوخ کو چلنے نہ دیا

کوثر خیرآبادی

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے

جگر مرادآبادی

دل کے ہر گوشے میں تو ہو عاشقی ایسی تو ہو

میں تیرا ہو کر رہوں اب زندگی ایسی تو ہو

صادق دہلوی

ہیں شوق ذبح میں عاشق تڑپتے مرغ بسمل سے

اجل تو ہے ذرا کہہ آنا یہ پیغام قاتل سے

شاہ اکبر داناپوری

اگر وہ پلاوے شراب وصال

تو کیا اس کا عاشق نہ مے خوار ہو

کشن سنگھ عارفؔ

دم توڑ رہا ہے دیکھ ذرا عاشق ہے ترا کشتہ ہے ترا

اے موہنی صورت والے حسیں محبوب کو یوں برباد نہ کر

محبوبؔ وارثی گیاوی

جو عاشق ہیں تیرے تڑپتے نہیں ہیں

کبھی آہ و نالے وہ کرتے نہیں ہیں

سنجر غازیپوری

عاشق عشق ماہی دے کولوں پھرن ہمیشہ کھیوے ہو

جندے جان ماہی نوں ڈتی دوہیں جہانیں جیوے ہو

سلطان باہو

ہر ناز ترا یہ کہتا ہے ہر ایک ادا سے ظاہر ہے

کہنے کو ترا عاشق ہوں مگر تو اور نہیں میں اور نہیں

عاشقوں کے ہوں گے راہ یار میں کیا کیا ہجوم

شوق جن کو کارواں در کارواں لے جائے گا

حسرت موہانی

کہاں دامن حسن عاشق سے اٹکا

گل داغ الفت میں کانٹا نہیں ہے

آسی غازیپوری

ہے عاشق کو اپنے صنم کی قسم

مجھے تیرے خاک قدم کی قسم

کشن سنگھ عارفؔ

اسیر گیسوئے پرخم بنائے پہلے عاشق کو

نکالے پھر وہ پیچ و خم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

با ہمہ خوبروئیم عاشق روئے کیستم

رستہ ز دام جسم و جاں بستۂ موئے کیستم

شاہ نیاز احمد بریلوی

گر عاشق صادق ہے اس کا مت الفت تو غیر سے جوڑ

ظلم کرے یا ستم کرے تو عشق سے اس کے منہ مت موڑ

کوی دلدار

عشق میں عاشق کی یہ معراج ہے

قتل ہو قاتل کا منہ دیکھا کرے

شاہ اکبر داناپوری

ان کی حسرت کے سوا ہے کون اس میں دوسرا

دل کی خلوت میں بھی وہ عاشق سے شرماتے ہیں کیوں

آسی غازیپوری

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے