Sufinama

آسمان پر اشعار

ہر صورت وچ آوے یار

کر کے ناز ادا لکھ وار

خواجہ غلام فرید

دعا لب پہ آتی ہے دل سے نکل کر

زمیں سے پہنچتی ہے بات آسماں تک

ذہین شاہ تاجی

کرے چاروں طرف سے کیوں نہ اس کو آسماں سجدے

زمیں کو فخر حاصل ہے رسول‌ اللہؐ کی مرقد کا

شاہ اکبر داناپوری

امید آس باشد نا امید ہے نراس

چرخ و فلک سپہر بود آسماں آکاس

امیر خسرو

جب قدم رکھا زمیں پر آسماں پر جا پڑا

بارہا ہم نے کیا ہے امتحان کوئے دوست

امیر مینائی

زمیں ہے آسماں بھی اس کے آگے

عجب برتر مدینے کی زمیں ہے

امیر مینائی

اس سرور دیں پر جان فدا کی جس نے نماز عشق ادا

تلواروں کی جھنکاروں میں اور تیروں کی بوچھاروں میں

عمرؔ وارثی

کہیں وہ در لباس معشوقاں

بر سر ناز اور ادا دیکھا

شاہ نیاز احمد بریلوی

زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے

خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

وہ چمکا چاند چھٹکی چاندنی تارے نکل آئے

وہ کیا آئے زمیں پر آسماں نے پھول برسائے

ذہین شاہ تاجی

جو دل ہو جلوہ گاہ ناز اس میں غم نہیں ہوتا

جہاں سرکار ہوتے ہیں وہاں ماتم نہیں ہوتا

کامل شطاری

ہشت جنت شش جہت ہفت آسماں

سب ہوئے پیدا برائے مصطفیٰؐ

امیر مینائی

مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا

مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں

مضطر خیرآبادی

اگر چاہوں نظام دہر کو زیر و زبر کر دوں

مرے جذبات کا طوفاں زمیں سے آسماں تک ہے

ولی وارثی

شب غم دیکھتا ہوں اٹھ کے ہر بار

وہی ہے یا کوئی اور آسماں ہے

بے نظیر شاہ وارثی

یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا

غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا

امیر مینائی

سیاہی تیرہ بختی کی ہماری

شب غم بن گئی ہے آسماں پر

عرش گیاوی

کوئے جاناں بھی نہ چھوڑا خانہ ویرانی کے بعد

دیکھنا ہے اب کہاں یہ آسماں لے جائے گا

اوگھٹ شاہ وارثی

اس تنگ نائے دھر سے باہر قدم کو رکھ

ہے آسماں زمیں سے پرے وسعت مزار

خواجہ رکن الدین عشقؔ

دل تو اور ہی مکاں میں پھرتا ہے

نہ زمیں ہے نہ آسماں ہے یاد

خواجہ رکن الدین عشقؔ

میرے آقا میرے مرشد بیدمؔ علی جناب

در حقیقت آسمان وارثی کے آفتاب

حیرت شاہ وارثی

بس میں ترے زمیں ہے قبضے میں آسماں ہے

اے دو جہاں کے مالک میرا نشاں کہاں ہے

حیرت شاہ وارثی

باغ عالم میں ہمیں پھولنے پھلنے نہ دیا

آسماں نے کوئی ارماں نکلنے نہ دیا

کوثر خیرآبادی

منم آں ماہ اوج حسن در برج زمیں تاباں

کہ ہر شب می شوند از آسماں انجم نثار من

ابراہیم عاجزؔ

وہ خدائی کے لٹائے جو خزانے کم ہے

میر عثمان علی خان کو خدا دیتا ہے

ریاض خیرآبادی

رائیگاں حسرتؔ نہ جائے گا مرا مشت غبار

کچھ زمیں لے جائے گی کچھ آسماں لے جائے گا

حسرت موہانی

وہ کیوں بگڑے مرے شور فغاں سے

شکایت ان سے تھی یا آسماں سے

حسرت موہانی

وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی

چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں

مظفر وارثی

یا درز کھل گئی ہے کوئی آسمان کی

دنیا کو جھانکتی ہے تپش اس جہان کی

میکش اکبرآبادی

سرگرم قتل کب بت نا مہرباں نہیں

پیاسا مرے لہو کا فقط آسماں نہیں

کوثر خیرآبادی

دھدھّا دھیان دھرو گھٹ ماہں سرتی کو کاڑھی نکاری

الٹ چلو اسمان ہیے بچ ہوت اجاری

تلسی صاحب ہاتھرس والے

وہ کون نالۂ دل تھا قفس میں اے صیاد

کہ مثل تیر نظر آسماں شکار نہ تھا

آسی غازیپوری

جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں

آسماں پر دماغ رکھتے ہیں

احسن اللہ خاں بیان

نکل کر تیرے کوچے سے گزر میرا جہاں ہوگا

ہزاروں آسماں ہوں گے وہاں ایک آسماں ہوگا

ریاض خیرآبادی

درد منداں دیاں آہیں توں اسمانوں تارے جھڑدے ہو

درد منداں دیاں آہیں کولوں عاشق مول نہ ڈردے ہو

سلطان باہو

ریاضؔ موت ہے اس شرط سے ہمیں منظور

زمیں ستائے نہ مرنے پہ آسماں کی طرح

ریاض خیرآبادی

جب نظر اس کی پڑی ہم آسماں سے گر پڑے

اس کے پھرتے ہی جہاں یہ ہم سے سارا پھر گیا

کشن سنگھ عارفؔ

ازل سے ہے آسماں خمیدہ نہ کر سکا پھر بھی ایک سجدہ

وہ ڈھونڈھتا ہے جس آستاں کو وہ آستانہ ملا نہیں ہے

افقر موہانی

کوئی جاگہہ نہیں پر اس سے خالی

زمین ہو عرش ہو یا آسماں ہو

شاہ تراب علی قلندر

ہوا یہ معلوم بعد مدت کسی کی نیرنگیٔ ستم سے

ستم باندازۂ ادا ہے ادا بقدر جفا نہیں ہے

افقر موہانی

یہ آہیں ہیں میری یہ نالے ہیں میرے

جنہیں آسماں آسماں دیکھتے ہیں

افقر موہانی

ہر حسن ادا ہے تیری ادا ہے تیری حقیقت کن سے جدا

عاشق ہے تری صورت پہ خدا اے نور محمد صلی اللہ

احسن اللہ خاں بیان

دیکھ کر آسماں کو ہم تو زمیں میں گڑ گئے

جب نہ کہیں جگہ ملی آپ کی بزم ناز میں

جگرؔ وارثی

بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا

ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا

بیدم شاہ وارثی

تری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے

نہ یہ آسمان ہے نہ یہ زمیں نہ یہ صبح ہے نہ یہ شام ہے

عرش گیاوی

آرام ہو سکون ہو سارے جہان کو

جنبش نہ ہو زمیں کی طرح آسمان کو

ریاض خیرآبادی

عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں

زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

جگر مرادآبادی

کسی بت کی ادا نے مار ڈالا

بہانے سے خدا نے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے