ہر صورت وچ آوے یار
کر کے ناز ادا لکھ وار
دعا لب پہ آتی ہے دل سے نکل کر
زمیں سے پہنچتی ہے بات آسماں تک
کرے چاروں طرف سے کیوں نہ اس کو آسماں سجدے
زمیں کو فخر حاصل ہے رسول اللہؐ کی مرقد کا
جب قدم رکھا زمیں پر آسماں پر جا پڑا
بارہا ہم نے کیا ہے امتحان کوئے دوست
اس سرور دیں پر جان فدا کی جس نے نماز عشق ادا
تلواروں کی جھنکاروں میں اور تیروں کی بوچھاروں میں
کہیں وہ در لباس معشوقاں
بر سر ناز اور ادا دیکھا
جو دل ہو جلوہ گاہ ناز اس میں غم نہیں ہوتا
جہاں سرکار ہوتے ہیں وہاں ماتم نہیں ہوتا
ہشت جنت شش جہت ہفت آسماں
سب ہوئے پیدا برائے مصطفیٰؐ
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے
زمیں ہے آسماں بھی اس کے آگے
عجب برتر مدینے کی زمیں ہے
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
وہ چمکا چاند چھٹکی چاندنی تارے نکل آئے
وہ کیا آئے زمیں پر آسماں نے پھول برسائے
مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا
مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں
شب غم دیکھتا ہوں اٹھ کے ہر بار
وہی ہے یا کوئی اور آسماں ہے
بس میں ترے زمیں ہے قبضے میں آسماں ہے
اے دو جہاں کے مالک میرا نشاں کہاں ہے
باغ عالم میں ہمیں پھولنے پھلنے نہ دیا
آسماں نے کوئی ارماں نکلنے نہ دیا
منم آں ماہ اوج حسن در برج زمیں تاباں
کہ ہر شب می شوند از آسماں انجم نثار من
وہ خدائی کے لٹائے جو خزانے کم ہے
میر عثمان علی خان کو خدا دیتا ہے
رائیگاں حسرتؔ نہ جائے گا مرا مشت غبار
کچھ زمیں لے جائے گی کچھ آسماں لے جائے گا
وہ کیوں بگڑے مرے شور فغاں سے
شکایت ان سے تھی یا آسماں سے
وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی
چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں
یا درز کھل گئی ہے کوئی آسمان کی
دنیا کو جھانکتی ہے تپش اس جہان کی
سرگرم قتل کب بت نا مہرباں نہیں
پیاسا مرے لہو کا فقط آسماں نہیں
دھدھّا دھیان دھرو گھٹ ماہں سرتی کو کاڑھی نکاری
الٹ چلو اسمان ہیے بچ ہوت اجاری
وہ کون نالۂ دل تھا قفس میں اے صیاد
کہ مثل تیر نظر آسماں شکار نہ تھا
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
آسماں پر دماغ رکھتے ہیں
نکل کر تیرے کوچے سے گزر میرا جہاں ہوگا
ہزاروں آسماں ہوں گے وہاں ایک آسماں ہوگا
درد منداں دیاں آہیں توں اسمانوں تارے جھڑدے ہو
درد منداں دیاں آہیں کولوں عاشق مول نہ ڈردے ہو
ریاضؔ موت ہے اس شرط سے ہمیں منظور
زمیں ستائے نہ مرنے پہ آسماں کی طرح
ہر حسن ادا ہے تیری ادا ہے تیری حقیقت کن سے جدا
عاشق ہے تری صورت پہ خدا اے نور محمد صلی اللہ
دیکھ کر آسماں کو ہم تو زمیں میں گڑ گئے
جب نہ کہیں جگہ ملی آپ کی بزم ناز میں
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
تری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے
نہ یہ آسمان ہے نہ یہ زمیں نہ یہ صبح ہے نہ یہ شام ہے
آرام ہو سکون ہو سارے جہان کو
جنبش نہ ہو زمیں کی طرح آسمان کو
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا
جب نظر اس کی پڑی ہم آسماں سے گر پڑے
اس کے پھرتے ہی جہاں یہ ہم سے سارا پھر گیا
ازل سے ہے آسماں خمیدہ نہ کر سکا پھر بھی ایک سجدہ
وہ ڈھونڈھتا ہے جس آستاں کو وہ آستانہ ملا نہیں ہے
کوئی جاگہہ نہیں پر اس سے خالی
زمین ہو عرش ہو یا آسماں ہو
ہوا یہ معلوم بعد مدت کسی کی نیرنگیٔ ستم سے
ستم باندازۂ ادا ہے ادا بقدر جفا نہیں ہے
یہ آہیں ہیں میری یہ نالے ہیں میرے
جنہیں آسماں آسماں دیکھتے ہیں
کوئے جاناں بھی نہ چھوڑا خانہ ویرانی کے بعد
دیکھنا ہے اب کہاں یہ آسماں لے جائے گا
اس تنگ نائے دھر سے باہر قدم کو رکھ
ہے آسماں زمیں سے پرے وسعت مزار
دل تو اور ہی مکاں میں پھرتا ہے
نہ زمیں ہے نہ آسماں ہے یاد
میرے آقا میرے مرشد بیدمؔ علی جناب
در حقیقت آسمان وارثی کے آفتاب
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere