ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے
بس اک نگاہ مرشد میخانہ چاہیے
آرزو یہ ہے تمہارا آنچل آنکھوں سے لگے
کچھ سمجھتے ہو کہ ہم روتے ہوئے آتے ہیں کیوں
آرزو حسرت تمنا مدعا کوئی نہیں
جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں
ہر آنکھ کو ہے تری تمنا
ہر دل میں تری ہی آرزو ہے
آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دم مرگ
شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل
یہ فریب تسکیں ہے ترک آرزو معلوم
ترک آرزو میکشؔ یہ بھی آرزو ہی ہے
کہیں رخ بدل نہ لے اب مری آرزو کا دھارا
وہ بدل رہے ہیں نظریں مری زندگی بدل کر
اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا
کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے
دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق انہیں گدگدائے تو وہ کیا کریں حسن مجھ کو بلائے تو میں کیا کروں
رہی یہ آرزو آخر کے دم تک
نہ پہنچا سر مرا تیرے قدم تک
محبت میں سراپا آرزو در آرزو میں ہوں
تمنا دل مرا ہے اور مرے دل کی تمنا تو
پہنچ جاتی ہے کسی کے گوش دل تک
ہماری آرزو اتنی کہاں ہے
وہ تجلی جس نے دشت آرزو چمکا دیا
کچھ تو میرے دل میں ہے اور کچھ کف موسیٰ میں ہے
سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں
رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں
حسرت و یاس و آرزو شوق کا اقتدا کریں
کشتۂ غم کی لاش پر دھوم سے ہو نماز عشق
مدتوں سے آرزو یہ دل میں ہے
ایک دن تو گھر ہمارے آئیے
اس وقت تک سلگتی رہی اس کی آرزو
جب تک دھوئیں سے سارا بدن بھر نہیں گیا
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو بر آئے گی دل کی
نہ ہوگا خود خیال ان کو نہ ہوگی التجا مجھ سے
تصور میں وہ آئیں گے تو پوری آرزو ہوگی
وہ میرے پاس ہوں گے اور ان سے گفتگو ہوگی
اب تو صادقؔ ہے یہ آرزو
عشق ہی میری منزل بنے
نہ نکلے جب کوئی ارماں نہ کوئی آرزو نکلی
تو اپنی حسرتوں کا خون ہونا اس کو کہتے ہیں
ہماری آرزو دل کی تمہاری جنبش لب پر
تمنا اب بر آتی ہے اگر کچھ لب کشا تم ہو
بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد
حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری
مجھے ہر قدم تیری جستجو مجھے ہر نفس تیری آرزو
مجھے اپنا غم ہے نہ غم جہاں تیری شان جل جلالہ
لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو
ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا
کچھ آرزو سے کام نہیں عشقؔ کو صبا
منظور اس کو ہے وہی جو ہو رضائے گل
مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا
کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے
یہ آرزو ہے کہ معراج زندگی ہو جائے
غلام کی در آقا پہ حاضری ہو جائے
آرزو کے دل پہ آئیں گی نہ کیا کیا آفتیں
در پیے انکار ہے ناآشنائی آپ کی
ساحل کی آرزو نہیں تعلیم مصطفیٰ
یہ ناؤ تو روزانہ ہی منجدھار سے ہوئی
کوثرؔ وصل شاہ حسیناں کی آرزو
مجھ کو نہیں جہاں میں ہوس مال و جاہ کی
وہ مل کے دست حنائی سے دل لہو کرتے
ہم آرزو کو حسیں خون آرزو کرتے
دیجئے ان کو کنار آرزو پر اختیار
جب وہ ہوں آغوش میں بے دست و پا ہو جائیے
مجھے عیش و غم میں غرض نہیں اگر آرزو ہے تو ہے یہی
کہ امنگ بن کے چھپا رہے کوئی دل کے پردۂ راز میں
آرزو لازم ہے وجہ آرزو ہو یا نہ ہو
التفات اس کافر خود بیں کی خو ہو یا نہ ہو
امیدیں تجھ سے تھیں وابستہ لاکھوں آرزو لیکن
بہت ہو کر تری درگاہ سے بے اعتبار آئی
بہار آنے کی آرزو کیا بہار خود ہے نظر کا دھوکا
ابھی چمن جنت نظر ہے ابھی چمن کا پتا نہیں ہے
تیرے غم کی حسرت و آرزو ہے زبان عشق میں زندگی
جنہیں مل گیا ہے یہ مدعا وہ مقام زیست بھی پا گئے
میرا دم بھی سماع میں نکلے
اب یہی ہے اک آرزو خواجہ
کلیم بات بڑھاتے نہ گفتگو کرتے
لب خاموش سے اظہار آرزو کرتے
پوچھتے ہیں وہ آرزو کوثرؔ
دل میں ارماں ایک ہو تو کہوں
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ