Sufinama

آرزو پر اشعار

آرزو دارم کہ مہمانت کنم

جان و دل اے دوست قربانت کنم

رومی

ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے

بس اک نگاہ مرشد مے خانہ چاہیے

بیدم شاہ وارثی

آرزو یہ ہے تمہارا آنچل آنکھوں سے لگے

کچھ سمجھتے ہو کہ ہم روتے ہوئے آتے ہیں کیوں

آسی غازیپوری

رفت یار و آرزوئے او ز جان من نرفت

نقش او از پیش چشم خوں فشان من نرفت

امیر خسرو

دارم ہمہ جا با ہمہ کس در ہمہ حال

در دل ز تو آرزو و در دیدہ خیال

جامی

آرزو حسرت تمنا مدعا کوئی نہیں

جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں

پرنم الہ آبادی

ہر آنکھ کو ہے تری تمنا

ہر دل میں تری ہی آرزو ہے

عارف اسلام پوری

آرزو ہے وفاؔ یہی اپنی

ان کے قدموں میں دم نکل جائے

وفا وارثی

آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دم مرگ

شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل

محسن کاکوروی

تیری الفت شعبدہ پرواز ہے

آرزو گر ہے تمنا ساز ہے

بیدم شاہ وارثی

کہیں رخ بدل نہ لے اب مری آرزو کا دھارا

وہ بدل رہے ہیں نظریں مری زندگی بدل کر

عزیز وارثی دہلوی

اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا

کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے

بیدم شاہ وارثی

آرزو تھی کربلا میں دفن ہوتے عرشؔ ہم

دیکھتے مر کر بھی روضہ حضرت شبیر کا

عرش گیاوی

پہنچ جاتی ہے کسی کے گوش دل تک

ہماری آرزو اتنی کہاں ہے

بے نظیر شاہ وارثی

یہ فریب تسکیں ہے ترک آرزو معلوم

ترک آرزو میکشؔ یہ بھی آرزو ہی ہے

میکش اکبرآبادی

حسرت و یاس و آرزو شوق کا اقتدا کریں

کشتۂ غم کی لاش پر دھوم سے ہو نماز عشق

بیدم شاہ وارثی

مدتوں سے آرزو یہ دل میں ہے

ایک دن تو گھر ہمارے آئیے

میر محمد بیدار

اس وقت تک سلگتی رہی اس کی آرزو

جب تک دھوئیں سے سارا بدن بھر نہیں گیا

مظفر وارثی

باد رحمت مدینہ سے چلتی رہے

غنچۂ آرزو مسکراتا رہے

حامدؔ وارثی گجراتی

اس آرزو سے حذر خوئے زندگی سے حذر

جو تاب و طاقت اظہار لب کشائی نہ دے

اختر وارثی

دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں

عشق انہیں گدگدائے تو وہ کیا کریں حسن مجھ کو بلائے تو میں کیا کروں

آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں

اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے

مردان صفی

رہی یہ آرزو آخر کے دم تک

نہ پہنچا سر مرا تیرے قدم تک

خواجہ رکن الدین عشقؔ

گنہ کچھ ہور بھی کرنا تو کر لے آرزو مت رکھ

نہیں تیرے گناہاں کوں تو کچا حد و شمار آخر

تراب علی دکنی

پوچھتے ہیں وہ آرزو کوثرؔ

دل میں ارماں ایک ہو تو کہوں

کوثرؔ وارثی

یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ

بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ

احسن اللہ خاں بیان

عربی نہیں عجمی سہی مگر آرزو ہے کہ وارثیؔ

کبھی اپنا نغمۂ مشرقی میں سنوں نوائے حجاز میں

سیماب اکبرآبادی

انجمن ساز عیش تو ہے یہاں

اور پھر کس کی آرزو ہے یہاں

میر محمد بیدار

محبت میں سراپا آرزو در آرزو میں ہوں

تمنا دل مرا ہے اور مرے دل کی تمنا تو

مضطر خیرآبادی

میرا دم بھی سماع میں نکلے

اب یہی ہے اک آرزو خواجہ

معین نظامی

کلیم بات بڑھاتے نہ گفتگو کرتے

لب خاموش سے اظہار آرزو کرتے

ریاض خیرآبادی

ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو بر آئے گی دل کی

نہ ہوگا خود خیال ان کو نہ ہوگی التجا مجھ سے

حسرت موہانی

تصور میں وہ آئیں گے تو پوری آرزو ہوگی

وہ میرے پاس ہوں گے اور ان سے گفتگو ہوگی

صادق دہلوی

نہ نکلے جب کوئی ارماں نہ کوئی آرزو نکلی

تو اپنی حسرتوں کا خون ہونا اس کو کہتے ہیں

راقم دہلوی

ہماری آرزو دل کی تمہاری جنبش لب پر

تمنا اب بر آتی ہے اگر کچھ لب کشا تم ہو

راقم دہلوی

بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد

حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری

راقم دہلوی

چشم حق بیں ہو چکی ہے شاد کام آرزو

توڑتا ہے اب طلسم جلوۂ باطل مجھے

پنڈت شائق وارثی

مجھے ہر قدم تیری جستجو مجھے ہر نفس تیری آرزو

مجھے اپنا غم ہے نہ غم جہاں تیری شان جل جلالہ

مائلؔ وارثی

سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں

رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں

عزیز صفی پوری

یہی آرزو دل میں دھرتا اچھے

خدا سوں مناجات کرتا اچھے

فیض

لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو

ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا

جگر مرادآبادی

کچھ آرزو سے کام نہیں عشقؔ کو صبا

منظور اس کو ہے وہی جو ہو رضائے گل

خواجہ رکن الدین عشقؔ

مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا

کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے

عزیز وارثی دہلوی

یہ آرزو ہے کہ معراج زندگی ہو جائے

غلام کی در آقا پہ حاضری ہو جائے

اعجاز وارثی

تمہارے تلووں کے آرزو میں پسی ہوئی ہے گھلی ہوئی ہے

حنا کی سرسبز پتیوں میں جو لال رنگت چھپی ہوئی ہے

مضطر خیرآبادی

دی صدا یہ ہاتف غیبی نے ہنگام دعا

آرزو پوری عزیز وارثیؔ ہو جائے گی

عزیز وارثی دہلوی

ساحل کی آرزو نہیں تعلیم مصطفیٰؐ

یہ ناؤ تو روزانہ ہی منجدھار سے ہوئی

مظفر وارثی

نہ کھلتی کلی گو مری آرزو کی

گرہ ان کے بند قبا کی تو ہوتی

بے نظیر شاہ وارثی

مجھے عیش و غم میں غرض نہیں اگر آرزو ہے تو ہے یہی

کہ امنگ بن کے چھپا رہے کوئی دل کے پردۂ راز میں

ولی وارثی

آرزو لازم ہے وجہ آرزو ہو یا نہ ہو

التفات اس کافر خود بیں کی خو ہو یا نہ ہو

حسرت موہانی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے