ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے
بس اک نگاہ مرشد مے خانہ چاہیے
آرزو یہ ہے تمہارا آنچل آنکھوں سے لگے
کچھ سمجھتے ہو کہ ہم روتے ہوئے آتے ہیں کیوں
آرزو حسرت تمنا مدعا کوئی نہیں
جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں
ہر آنکھ کو ہے تری تمنا
ہر دل میں تری ہی آرزو ہے
آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دم مرگ
شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل
تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
آرزو گر ہے تمنا ساز ہے
کہیں رخ بدل نہ لے اب مری آرزو کا دھارا
وہ بدل رہے ہیں نظریں مری زندگی بدل کر
اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا
کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے
پہنچ جاتی ہے کسی کے گوش دل تک
ہماری آرزو اتنی کہاں ہے
یہ فریب تسکیں ہے ترک آرزو معلوم
ترک آرزو میکشؔ یہ بھی آرزو ہی ہے
حسرت و یاس و آرزو شوق کا اقتدا کریں
کشتۂ غم کی لاش پر دھوم سے ہو نماز عشق
مدتوں سے آرزو یہ دل میں ہے
ایک دن تو گھر ہمارے آئیے
اس وقت تک سلگتی رہی اس کی آرزو
جب تک دھوئیں سے سارا بدن بھر نہیں گیا
باد رحمت مدینہ سے چلتی رہے
غنچۂ آرزو مسکراتا رہے
اس آرزو سے حذر خوئے زندگی سے حذر
جو تاب و طاقت اظہار لب کشائی نہ دے
دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق انہیں گدگدائے تو وہ کیا کریں حسن مجھ کو بلائے تو میں کیا کروں
رہی یہ آرزو آخر کے دم تک
نہ پہنچا سر مرا تیرے قدم تک
گنہ کچھ ہور بھی کرنا تو کر لے آرزو مت رکھ
نہیں تیرے گناہاں کوں تو کچا حد و شمار آخر
پوچھتے ہیں وہ آرزو کوثرؔ
دل میں ارماں ایک ہو تو کہوں
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ
عربی نہیں عجمی سہی مگر آرزو ہے کہ وارثیؔ
کبھی اپنا نغمۂ مشرقی میں سنوں نوائے حجاز میں
انجمن ساز عیش تو ہے یہاں
اور پھر کس کی آرزو ہے یہاں
محبت میں سراپا آرزو در آرزو میں ہوں
تمنا دل مرا ہے اور مرے دل کی تمنا تو
میرا دم بھی سماع میں نکلے
اب یہی ہے اک آرزو خواجہ
کلیم بات بڑھاتے نہ گفتگو کرتے
لب خاموش سے اظہار آرزو کرتے
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو بر آئے گی دل کی
نہ ہوگا خود خیال ان کو نہ ہوگی التجا مجھ سے
تصور میں وہ آئیں گے تو پوری آرزو ہوگی
وہ میرے پاس ہوں گے اور ان سے گفتگو ہوگی
اب تو صادقؔ ہے یہ آرزو
عشق ہی میری منزل بنے
نہ نکلے جب کوئی ارماں نہ کوئی آرزو نکلی
تو اپنی حسرتوں کا خون ہونا اس کو کہتے ہیں
ہماری آرزو دل کی تمہاری جنبش لب پر
تمنا اب بر آتی ہے اگر کچھ لب کشا تم ہو
بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد
حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری
چشم حق بیں ہو چکی ہے شاد کام آرزو
توڑتا ہے اب طلسم جلوۂ باطل مجھے
مجھے ہر قدم تیری جستجو مجھے ہر نفس تیری آرزو
مجھے اپنا غم ہے نہ غم جہاں تیری شان جل جلالہ
سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں
رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں
لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو
ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا
کچھ آرزو سے کام نہیں عشقؔ کو صبا
منظور اس کو ہے وہی جو ہو رضائے گل
مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا
کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے
یہ آرزو ہے کہ معراج زندگی ہو جائے
غلام کی در آقا پہ حاضری ہو جائے
تمہارے تلووں کے آرزو میں پسی ہوئی ہے گھلی ہوئی ہے
حنا کی سرسبز پتیوں میں جو لال رنگت چھپی ہوئی ہے
دی صدا یہ ہاتف غیبی نے ہنگام دعا
آرزو پوری عزیز وارثیؔ ہو جائے گی
ساحل کی آرزو نہیں تعلیم مصطفیٰؐ
یہ ناؤ تو روزانہ ہی منجدھار سے ہوئی
نہ کھلتی کلی گو مری آرزو کی
گرہ ان کے بند قبا کی تو ہوتی
مجھے عیش و غم میں غرض نہیں اگر آرزو ہے تو ہے یہی
کہ امنگ بن کے چھپا رہے کوئی دل کے پردۂ راز میں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere