ہر قدم کشمکش ہر نفس الجھنیں زندگی وقف ہے درد سر کے لیے
پہلے اپنے ہی درماں کا غم تھا ہمیں، اب دوا چاہیئے چاراگر کے لیے
اے چاراگر خوش فہم ذرا کچھ عقل کی لے کچھ ہوش کی لے
بیمار محبت بھی تجھ سے نادان کہیں اچھا ہوگا
غم جاناں غم ایام کے سانچے میں ڈھلتا ہے
کہ اک غم دوسرے کا چارہ گر ہے ہم نہ کہتے تھے
رہ جائے چند روز جو بیمار غم کے پاس
خود اپنا دل دبائے ہوئے چارہ گر پھرے
زخم خنداں شکر میں مصروف ہے اے چارہ گر
جب سے پھاہا تو نے رکھا سینہ کے ناسور پر
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere