جلوہ جو ترے رخ کا احساس میں ڈھل جائے
اس عالم ہستی کا عالم ہی بدل جائے
اپنے رستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں
راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے
احساس کے میخانے میں کہاں اب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شدت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اک بعد خیالی سے ہٹ کر غم فرقت کیا
مفلوج نہ ہونے دو احساس معیت کو
جب چاہنے والے ختم ہوئے اس وقت انہیں احساس ہوا
اب یاد میں ان کی روتے ہیں ہنس ہنس کے رلانا بھول گئے
محسوس یہ ہوا مجھے احساس غم کے ساتھ
میں اس کے دم کے ساتھ ہوں، وہ میرے دم کے ساتھ
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
دفن ہوں احساس کی صدیوں پرانی قبر میں
زندگی اک زخم ہے اور زخم بھی تازہ نہیں
اب اس منزل پہ پہنچا ہے کسی کا بے خود الفت
جہاں پر زندگی و موت کا احساس یکساں ہے
تری طلب تیری آرزو میں نہیں مجھے ہوش زندگی کا
جھکا ہوں یوں تیرے آستاں پر کہ مجھ کو احساس سر نہیں ہے
اشکوں سے کہیں مٹتا ہے احساس تلون
پانی میں جو گھل جائے وہ پارا نہیں ہوتا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere