غیر پر اشعار
غیر غیرکا معنی اجنبی،
دشمن اور رقیب ہوتاہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ کے آس پاس"سب رس" میں اس کا استعمال ملتا ہے۔صوفی اصطلاح میں خدا کے علاوہ دیگرتمام اشیا کوغیرکہتے ہیں۔
کیسے کہہ دوں کہ غیر سے ملیے
ان کہی تو کہی نہیں جاتی
میں فداۓ مرشد پاک ہوں، دربارگاہ کی خاک ہوں
وہ سما کے مجھ میں یہ کہتے ہیں کہ عزیزؔ غیر محال ہے
وہ رہے آنکھوں میں میری میں نہ دیکھوں غیر کو
یہ ہمارے اور ان کے عہد و پیماں ہو گیا
میں نے پوچھا غیر کے گھر آپ کیا کرتے رہے
ہنس کے فرمایا تمہارا راستا دیکھا کئے
غیر جب تک نہ نکل جائے گا محفل سے تری
ہم نہ رکھیں گے تری بزم میں زنہار قدم
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یوں ہی سہی
نا خوش ہی ہو کے غیر مرا کیا بنائیں گے
بہت ہی خیر گزری ہوتے ہوتے رہ گئی اس سے
جسے میں غیر سمجھا ہوں وہ ان کا پاسباں ہوگا
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
وجود غیر ہو کیسے گوارا
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں
وہ کچھ غیر سے وعدہ فرما رہے ہیں
مرے سر کی جھوٹی قسم کھا رہے ہیں
غیر سے مل کر انہیں ناحق ہوا میرا خیال
مجھ سے کیا مطلب بھلا میں کیوں خفا ہونے لگا
یہ فیصلہ تو بہت غیر منصفانہ لگا
ہمارا سچ بھی عدالت کو باغیانہ لگا
جگ میں سمجھ کہ غیر خدا اور کچھ نہیں
ووہی دکان دار خریدار اور ووہی متاع
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
بد گمانی ہے مری وہ غیر پر ہے مہرباں
ایسا کافر دل کسی پر مہرباں ہوتا نہیں
تو چاہے نہ کر دل سے الفت تو چاہے نہ رکھ مجھ سے نسبت
میں تیری نظر میں غیر مگر تو اور نہیں میں اور نہیں
یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو
پر غیر کو تو نہ پیار کیجو
کل غیر کے دھوکے میں وہ عید ملے ہم سے
کھولی بھی تو دشمن نے تقدیر ہم آغوشی
گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے
وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو
مجھ سے اوول نہ تھا کچھ دہر میں جز ذات خدا
غیر حق دیکھا تو پھر کچھ نہ رہا میرے بعد
ہو رہا ہے غیر مجھ سے بد گماں
ہنس رہی ہے پاک دامانی مری
گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
اس کو کہہ دیکھیے کچھ یا مجھے اٹھوا دیجے
غیر کے سو ناز تم پر اور مجھ پر آپ کے
آپ دبتے جائیے مجھ کو دباتے جائیے
نہیں اس میں تو غیر از جور لیکن
مجھے کیا جانے کیا آئی ادا خوش
ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں
مگر غیر کا نقش پا چاہتا ہوں
غیر ظاہر نہ مظاہر کی حقیقت سمجھوں
اتنی تمییز میان حق و باطل دینا
سامنے میرے ہی وہ جاتے ہیں بزم غیر میں
المدد اے ضبط مجھ کو کب تک اس کا غم رہے
جسے تم غیر سمجھے ہو اسے ہم یار کہتے ہیں
جہاں کو ہم سراسر جلوۂ دیدار کہتے ہیں
تو حقیقت کل ہے وہم غیر باطل ہے
بلکہ وہم باطل بھی حق تو یہ ہے تو ہی ہے
غیر ہی کیا بے رخی سے آپ کی
آج بیدمؔ بھی بہت بے دل گیا
یہاں اغماض تم کر لو وہاں دیکھیں گے محشر میں
چھڑانا غیر سے دامن کو اور مجھ سے گریباں کو
ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر
غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب
غیر حرف نیاز سو بھی کبھو
کہہ سکوں ہوں مجال ہے کچھ اور
جز تیرے نہیں غیر کو رہ دل کے نگر میں
جب سے کہ ترے عشق کا یاں نظم و نسق ہے
مجھ کو تم کو غیر نے رسوا کیا
کہہ بھی دو اچھا کیا اچھا کیا
گوارا کس کو ہو ساقی یہ بوئے غیر صہبا کے
کسی نے پی ہے ساغر میں جو بو ہے غیر ساغر میں
آج پھر بیدمؔ کی حالت غیر ہے
مے کشو لینا ذرا دیکھو گیا
انہیں کی چھیڑ تھی اس رنگ میں بھی
خیال غیر تھا باطل ہمارا
غیر جوہر نہیں اعراض سے ان کو کچھ کام
رنگ وبو پر نہیں صاحب نظراں جاتے ہیں
غیر منہ تکتا رہا میں عرض مطلب کر چکا
مجھ سے ان سے آنکھوں آنکھوں میں اشارہ ہو گیا
اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
سچ ہے کہ وقت جاتا رہا بات رہ گئی
وہ سر اور غیر کے در پر جھکے توبا معاذ اللہ
کہ جس سر کی رسائی تیرے سنگ آستاں تک ہے
نہیں پڑتے ہیں زمیں پر جو ترے نقش قدم
کیوں اڑے رنگ حنا غیر کے گھر جانے میں
غیر کے آگے دل کی بات بیاںؔ
آہ میری زبان پر آئی
دل مٹا جاتا ہے آج ان کا یہ عالم دیکھ کر
شرمگیں ہیں غیر سے سرگوشیاں ہونے کے بعد
تکیے میں کیا رکھا ہے خط غیر کی طرح
دیکھوں تو میں نوشتۂ قسمت مرا نہ ہو
کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو
غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere