Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

غیر پر اشعار

غیر غیرکا معنی اجنبی،

دشمن اور رقیب ہوتاہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ کے آس پاس"سب رس" میں اس کا استعمال ملتا ہے۔صوفی اصطلاح میں خدا کے علاوہ دیگرتمام اشیا کوغیرکہتے ہیں۔

کیسے کہہ دوں کہ غیر سے ملیے

ان کہی تو کہی نہیں جاتی

بیدم شاہ وارثی

میں فداۓ مرشد پاک ہوں، دربارگاہ کی خاک ہوں

وہ سما کے مجھ میں یہ کہتے ہیں کہ عزیزؔ غیر محال ہے

عزیز صفی پوری

وہ رہے آنکھوں میں میری میں نہ دیکھوں غیر کو

یہ ہمارے اور ان کے عہد و پیماں ہو گیا

اوگھٹ شاہ وارثی

میں نے پوچھا غیر کے گھر آپ کیا کرتے رہے

ہنس کے فرمایا تمہارا راستا دیکھا کئے

میکش اکبرآبادی

غیر جب تک نہ نکل جائے گا محفل سے تری

ہم نہ رکھیں گے تری بزم میں زنہار قدم

کوثرؔ وارثی

غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں

اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا

بیدم شاہ وارثی

بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یوں ہی سہی

نا خوش ہی ہو کے غیر مرا کیا بنائیں گے

بیدم شاہ وارثی

بہت ہی خیر گزری ہوتے ہوتے رہ گئی اس سے

جسے میں غیر سمجھا ہوں وہ ان کا پاسباں ہوگا

ریاض خیرآبادی

تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال

دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

حسرت موہانی

وجود غیر ہو کیسے گوارا

تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں

واصف علی واصف

وہ کچھ غیر سے وعدہ فرما رہے ہیں

مرے سر کی جھوٹی قسم کھا رہے ہیں

ریاض خیرآبادی

غیر سے مل کر انہیں ناحق ہوا میرا خیال

مجھ سے کیا مطلب بھلا میں کیوں خفا ہونے لگا

حسرت موہانی

یہ فیصلہ تو بہت غیر منصفانہ لگا

ہمارا سچ بھی عدالت کو باغیانہ لگا

مظفر وارثی

جگ میں سمجھ کہ غیر خدا اور کچھ نہیں

ووہی دکان دار خریدار اور ووہی متاع

قادر بخش بیدلؔ

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

حسرت موہانی

میرے ہوتے غیر کی جانب ترے ابرو ہلیں

دوستی بالائے طاق اپنی رکھ اے دلبر اٹھا

شاہ نصیر

بد گمانی ہے مری وہ غیر پر ہے مہرباں

ایسا کافر دل کسی پر مہرباں ہوتا نہیں

راقم دہلوی

تو چاہے نہ کر دل سے الفت تو چاہے نہ رکھ مجھ سے نسبت

میں تیری نظر میں غیر مگر تو اور نہیں میں اور نہیں

پرنم الہ آبادی

یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو

پر غیر کو تو نہ پیار کیجو

میر محمد بیدار

کل غیر کے دھوکے میں وہ عید ملے ہم سے

کھولی بھی تو دشمن نے تقدیر ہم آغوشی

بیدم شاہ وارثی

گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے

وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو

میر محمد بیدار

مجھ سے اوول نہ تھا کچھ دہر میں جز ذات خدا

غیر حق دیکھا تو پھر کچھ نہ رہا میرے بعد

امداد علی علوی

ہو رہا ہے غیر مجھ سے بد گماں

ہنس رہی ہے پاک دامانی مری

حسرت موہانی

گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے

اس کو کہہ دیکھیے کچھ یا مجھے اٹھوا دیجے

میر محمد بیدار

غیر کے سو ناز تم پر اور مجھ پر آپ کے

آپ دبتے جائیے مجھ کو دباتے جائیے

راقم دہلوی

نہیں اس میں تو غیر از جور لیکن

مجھے کیا جانے کیا آئی ادا خوش

میر محمد بیدار

ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں

مگر غیر کا نقش پا چاہتا ہوں

آسی غازیپوری

غیر ظاہر نہ مظاہر کی حقیقت سمجھوں

اتنی تمییز میان حق و باطل دینا

آسی غازیپوری

سامنے میرے ہی وہ جاتے ہیں بزم غیر میں

المدد اے ضبط مجھ کو کب تک اس کا غم رہے

مرزا فدا علی شاہ منن

جسے تم غیر سمجھے ہو اسے ہم یار کہتے ہیں

جہاں کو ہم سراسر جلوۂ دیدار کہتے ہیں

فرد پھلواروی

تو حقیقت کل ہے وہم غیر باطل ہے

بلکہ وہم باطل بھی حق تو یہ ہے تو ہی ہے

میکش اکبرآبادی

ہر جگہ جب تمہیں ہو غیر نہیں

دونوں عالم میں برملا ہو تم

مردان صفی

غیر ہی کیا بے رخی سے آپ کی

آج بیدمؔ بھی بہت بے دل گیا

بیدم شاہ وارثی

یہاں اغماض تم کر لو وہاں دیکھیں گے محشر میں

چھڑانا غیر سے دامن کو اور مجھ سے گریباں کو

راقم دہلوی

ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر

غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب

امیر مینائی

غیر حرف نیاز سو بھی کبھو

کہہ سکوں ہوں مجال ہے کچھ اور

میر محمد بیدار

جز تیرے نہیں غیر کو رہ دل کے نگر میں

جب سے کہ ترے عشق کا یاں نظم و نسق ہے

میر محمد بیدار

مجھ کو تم کو غیر نے رسوا کیا

کہہ بھی دو اچھا کیا اچھا کیا

ریاض خیرآبادی

گوارا کس کو ہو ساقی یہ بوئے غیر صہبا کے

کسی نے پی ہے ساغر میں جو بو ہے غیر ساغر میں

راقم دہلوی

آج پھر بیدمؔ کی حالت غیر ہے

مے کشو لینا ذرا دیکھو گیا

بیدم شاہ وارثی

انہیں کی چھیڑ تھی اس رنگ میں بھی

خیال غیر تھا باطل ہمارا

آسی غازیپوری

غیر جوہر نہیں اعراض سے ان کو کچھ کام

رنگ وبو پر نہیں صاحب نظراں جاتے ہیں

میر محمد بیدار

غیر منہ تکتا رہا میں عرض مطلب کر چکا

مجھ سے ان سے آنکھوں آنکھوں میں اشارہ ہو گیا

سنجر غازیپوری

اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی

سچ ہے کہ وقت جاتا رہا بات رہ گئی

خواجہ میر اثر

وہ سر اور غیر کے در پر جھکے توبا معاذ اللہ

کہ جس سر کی رسائی تیرے سنگ آستاں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

نہیں پڑتے ہیں زمیں پر جو ترے نقش قدم

کیوں اڑے رنگ حنا غیر کے گھر جانے میں

ریاض خیرآبادی

غیر کے آگے دل کی بات بیاںؔ

آہ میری زبان پر آئی

احسن اللہ خاں بیان

دل مٹا جاتا ہے آج ان کا یہ عالم دیکھ کر

شرمگیں ہیں غیر سے سرگوشیاں ہونے کے بعد

میکش اکبرآبادی

تکیے میں کیا رکھا ہے خط غیر کی طرح

دیکھوں تو میں نوشتۂ قسمت مرا نہ ہو

بیدم شاہ وارثی

کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو

غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے