Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

گھر پر اشعار

مورے پیا گھر آئے

اے ری سکھی مورے پیا گھر آئے

امیر خسرو

نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے

تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے

بیدم شاہ وارثی

ہم کو یاں در در پھرایا یار نے

لا مکاں میں گھر بنایا یار نے

شاہ نیاز احمد بریلوی

کس گھر میں کس حجاب میں اے جاں نہاں ہو تم

ہم راہ دیکھتے ہیں تمہاری کہاں ہو تم

شاہ اکبر داناپوری

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے

شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے

خواجہ میر درد

سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں

تنہائی بتا کیسے تجھے گھر سے نکالوں

مظفر وارثی

کل آتے آتے مرے گھر گئے رقیب کے پاس

حضور آپ ہی کہہ دیں یہ چال ہے کہ نہیں

جوش ملیح آبادی

عجب اعجاز ہے تیری نظر کا

کہ ہم بھولے ہیں رستہ اپنے گھر کا

واصف علی واصف

جغرافیے نے کاٹ دیے راستے مرے

تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا

مظفر وارثی

تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے

تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو

راقم دہلوی

کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کاشانہ ترا اور جلوہ خانہ ترا

مے کدہ تیرا ہے کعبہ ترا بت خانہ ترا سب ہے جانانہ ترا

بیدم شاہ وارثی

ہمیں ہے گھر سے تعلق اب اس قدر باقی

کبھی جو آئے تو دو دن کو مہماں کی طرح

ریاض خیرآبادی

ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا

بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا

مضطر خیرآبادی

عشق بت کعبۂ دل میں ہے خدایا جب سے

تیرا گھر بھی مجھے بت خانہ نظر آتا ہے

پرنم الہ آبادی

دل ہمارا کہ گھر یہ تیرا تھا

کیوں شکست اس مکان پر آئی

احسن اللہ خاں بیان

پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے

اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں

خواجہ میر درد

مجھی سے پوچھتے ہو میں ہی بتلا دوں کہ تم کیا ہو

تجلی طور سینا کی میرے گھر کا اجالا ہو

بیدم شاہ وارثی

میں نے پوچھا غیر کے گھر آپ کیا کرتے رہے

ہنس کے فرمایا تمہارا راستا دیکھا کئے

میکش اکبرآبادی

من پایا ہے اس نے دل میرا کعبہ ہے گھر اللہ کا ہے

اب کھود کے اس کو پھکوا دے وہ بت نہ کہیں بنیاد ستی

غلام نقشبند سجادؔ

جان کھو بیٹھے گا اپنی یہ نصیرؔ خستہ دل

اس کے پہلو سے اب اٹھ کر گھر کو کیا جاتے ہو تم

شاہ نصیر

اپنے ہاتھوں مہندی لگائی مانگ بھی میں نے دیکھو سجائی

آئے پیا گھر رم جھم برسے جاؤ بتا دو ساون کو

عبدالہادی کاوش

نہ تم آئے نہ اپنی یاد کو بھیجا مرے دل میں

یہ وہ گھر ہے کہ جس کو تم نے رکھا بے مکیں برسوں

مضطر خیرآبادی

خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے

ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی

جگر مرادآبادی

چڑہ چناں تے کر رشنائی کالی رات ہجر دی

شمہا جمال کمال سجن دی آ گھر بال اس اڈے

میاں محمد بخش

نہیں دین ودنیا کا ہوش اب ہوں، ہجر میں تیری جاں بلب

مجھے کاٹے کھاتا ہے اپنا گھر نا ادھر کا رہا نا ادھر کا رہا

شمس صابری

کعبہ ہو بت کدہ ہو کہ وہ کوئے دوست ہو

دل تیرا چاہے جس میں اسی گھر میں جا کے پی

قیصرؔ وارثی

پاتے نہیں آپ کو کہیں یاں

حیران ہیں کس کے گھر گئے ہم

میر محمد بیدار

عشق کی دولت دل مضطر کا ہے گھر آگ میں

کیوں نہ ہو اکسیر پارہ کشتہ ہو گر آگ میں

شاہ نصیر

دیکھ کر کعبے کو خالی میں یہ کہہ کر آ گیا

ایسے گھر کو کیا کروں گا جس کے اندر تو نہیں

مضطر خیرآبادی

ترے گھر میں اس درجہ چھپ چھپ کے روئے

کہ شاہد ہے ایک ایک کو رونا ہمارا

بے نظیر شاہ وارثی

بن جائے گا اللہ کا گھر خود ہی کسی دن

فی الحال فناؔ کو صنم خانہ کہیں گے

فنا نظامی کانپوری

اثرؔ ان سلوکوں پہ کیا لطف ہے

پھر اس بے مروت کے گھر جائیے

خواجہ میر اثر

ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر

غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب

امیر مینائی

ایمان دے کے مول لیا عشق فتنہ گر

بازی لگا کے جیت کا گھر دیکھتے رہے

صبر دہلوی

میں نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیا اور خود اک تجلی کا محتاج ہوں،

روشنی دینے والی کو بھی کم سے کم اک دیا چاہیئے اپنے گھر کے لیے

شکیل بدایونی

ہمیں دیر و کعبہ خدا و صنم

ہمیں صاحب خانہ گھر بھی ہمیں

بے نظیر شاہ وارثی

جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا

تاریک کر گیا گھر حسرت کشیدگاں کا

میر محمد بیدار

ہم ایسے ہوئے دیکھ کر محو حیرت

خبر ہی نہیں کون آیا ہے گھر میں

راقم دہلوی

اگر ایک پل ہو جدائی تیری

تو صحرا مجھے سارا گھر بار ہو

کشن سنگھ عارفؔ

کر کے دل کو شکار آنکھوں میں

گھر کرے ہے تو یار آنکھوں میں

خواجہ میر اثر

یہاں سے بیدارؔ گیا وہ مہ تاباں شاید

نظر آتا ہے یہ گھر آج تو بے نور ہمیں

میر محمد بیدار

تو دھری جائے گی اس گھر سے جو نکلی کوئی بات

نگۂ شوق یہ دیوار میں روزن کیسا

ریاض خیرآبادی

نادرؔ فراق یار میں مجنوں تو بن گیا

خانہ بہ دوش بیٹھ کہیں تیرا گھر بھی ہے

نادر دہلوی

لگتا ہے نہ گھر میں دل نہ باہر

کس نے یہ کیا اداس مجھ کو

میر محمد بیدار

کیا برباد ارمانوں نے دل کو

مرے دشمن تو گھر کے فرد نکلے

پرنم الہ آبادی

ہے منور رخ پر نور سے سب گھر‌ باہر

ایک سا جلوہ خورشید ہے اندر باہر

کوثر خیرآبادی

گر دل میں چشم بینا ہو بت خانہ ہو یا کعبہ ہو

گھر گھر میں ہیں اس کے درشن سبحان اللہ سبحان اللہ

اکبر وارثی میرٹھی

تم تو آتے ہی قیامت کرتے ہو صاحب بپا

دل میں آتے ہو تو آؤ گھر میں آنے کی طرح

امیر مینائی

لگائی آگ بھی اس اہتمام سے اس نے

ہمارا جلتا ہوا گھر نگار خانہ لگا

مظفر وارثی

آ کے میرے گھر سے جب وہ محفل آرا پھر گیا

اس کے پھرنے سے میرے سینے پہ آرا پھر گیا

کشن سنگھ عارفؔ

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے