ایک ایمان ہے بساط اپنی
نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے
یہی ایمان ہے اپنا یہی اپنا عمل کاوشؔ
صنم کے اک اشارے پر ہر اک شے کو لٹا دینا
کس طرح چھوڑ دوں اے یار میں چاہت تیری
میرے ایمان کا حاصل ہے محبت تیری
نکتۂ ایمان سے واقف ہو
چہرۂ یار جا بجا دیکھا
کر اپنی نظر سے مرے ایمان کا سودا
اے دوست تجھے میری محبت کی قسم ہے
تو لاکھ کرے انکار مگر باتوں میں تری کون آتا ہے
ایمان مرا یہ میرا یقیں تو اور نہیں میں اور نہیں
محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
مگر پھر دشمن ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے
آغاز تو ہے انجام تو ہے ایمان تو ہی اسلام تو ہے
ہے تجھ پہ عزیزؔ خستہ فدا اے نور محمد صلی اللہ
جس نے ایمان کر دیا کامل
وہ تمہارا ہی مصحف رو ہے
تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے
تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو
باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیں
ہر وقت انہی کے جلووں سے ایمان کا سودا کرتے ہیں
خدا سے ڈر ذرا کوثرؔ کہ تو تو کھوئے بیٹھا ہے
سراپا دین و ایمان اک بت کافر کی چاہت میں
کہوں کیا خدا جانتا ہے صنم
محبت تری اپنا ایمان ہے
آپ کا یہ آرز مطلق نہیں قرآن ہے
بات یہ ایمان کی ہے یہ مرا ایمان ہے
حسن بتاں کا عشق میری جان ہو گیا
یہ کفر اب تو حاصل ایمان ہو گیا
اس کا ایمان لوٹتے ہیں صنم
جس کو اپنا شکار کرتے ہیں
دین و ایمان پر گری بجلی
لگ گئی آگ پارسائی میں
جھوٹے وعدے تو روز کرتا ہے
تیرا ایمان ایک ہو تو کہوں
رہزن ایمان تو جلوہ دکھا جائے اگر
بت پجیں مندر میں مسجد میں خدا کی یاد ہو
میں ہوں بیچتا دھرم و ایمان و دیں
اگر کوئی آ کر خریدار ہو
الٰہی خیر زوروں پر بتان پر غرور آئے
کہیں ایسا نہ ہو ایمان عالم میں فتور آئے
علم اور فضل کے دین و ایمان کے عقل پر میری کاوشؔ تھے پردے پڑے
سارے پردے اٹھا کر کوئی اب مجھے اپنا جلوہ دکھائے تو میں کیا کروں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere