Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ایمان پر اشعار

ایک ایمان ہے بساط اپنی

نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے

خواجہ میر درد

یہی ایمان ہے اپنا یہی اپنا عمل کاوشؔ

صنم کے اک اشارے پر ہر اک شے کو لٹا دینا

عبدالہادی کاوش

کس طرح چھوڑ دوں اے یار میں چاہت تیری

میرے ایمان کا حاصل ہے محبت تیری

فنا بلند شہری

نکتۂ ایمان سے واقف ہو

چہرۂ یار جا بجا دیکھا

شاہ نیاز احمد بریلوی

کر اپنی نظر سے مرے ایمان کا سودا

اے دوست تجھے میری محبت کی قسم ہے

فنا بلند شہری

تو لاکھ کرے انکار مگر باتوں میں تری کون آتا ہے

ایمان مرا یہ میرا یقیں تو اور نہیں میں اور نہیں

عبدالہادی کاوش

محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے

مگر پھر دشمن ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے

مضطر خیرآبادی

آغاز تو ہے انجام تو ہے ایمان تو ہی اسلام تو ہے

ہے تجھ پہ عزیزؔ خستہ فدا اے نور محمد صلی اللہ

عزیز صفی پوری

ایمان دے کے مول لیا عشق فتنہ گر

بازی لگا کے جیت کا گھر دیکھتے رہے

صبر دہلوی

جس نے ایمان کر دیا کامل

وہ تمہارا ہی مصحف رو ہے

آسی غازیپوری

تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے

تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو

راقم دہلوی

باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیں

ہر وقت انہی کے جلووں سے ایمان کا سودا کرتے ہیں

فنا بلند شہری

کام کعبہ سے نہ ہے نے دیر سے

دین و ایمان یاں برادر اور ہے

مردان صفی

کافر کی چشم ناز پہ کیا دل جگر کا ذکر

ایمان تک نثار کیا ہائے کیا کیا

بہزاد لکھنوی

خدا سے ڈر ذرا کوثرؔ کہ تو تو کھوئے بیٹھا ہے

سراپا دین و ایمان اک بت کافر کی چاہت میں

کوثر خیرآبادی

کہوں کیا خدا جانتا ہے صنم

محبت تری اپنا ایمان ہے

خواجہ میر اثر

آپ کا یہ آرز مطلق نہیں قرآن ہے

بات یہ ایمان کی ہے یہ مرا ایمان ہے

بیاں دہلوی

حسن بتاں کا عشق میری جان ہو گیا

یہ کفر اب تو حاصل‌ ایمان ہو گیا

فنا بلند شہری

اس کا ایمان لوٹتے ہیں صنم

جس کو اپنا شکار کرتے ہیں

فنا بلند شہری

دین و ایمان پر گری بجلی

لگ گئی آگ پارسائی میں

فضیحت شاہ وارثی

جھوٹے وعدے تو روز کرتا ہے

تیرا ایمان ایک ہو تو کہوں

کوثرؔ وارثی

رہزن ایمان تو جلوہ دکھا جائے اگر

بت پجیں مندر میں مسجد میں خدا کی یاد ہو

اکبر وارثی میرٹھی

میں ہوں بیچتا دھرم و ایمان و دیں

اگر کوئی آ کر خریدار ہو

کشن سنگھ عارفؔ

الٰہی خیر زوروں پر بتان پر غرور آئے

کہیں ایسا نہ ہو ایمان عالم میں فتور آئے

مضطر خیرآبادی

علم اور فضل کے دین و ایمان کے عقل پر میری کاوشؔ تھے پردے پڑے

سارے پردے اٹھا کر کوئی اب مجھے اپنا جلوہ دکھائے تو میں کیا کروں

عبدالہادی کاوش

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے