اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی
وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے
دیکھا جو اس صنم کو تو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورت انسان ہو گیا
میری سندرتا کے گہنے چھین کے وہ کہتا ہے مجھ سے
وہ انسان بہت اچھا ہے جو ہر حال میں خوش رہتا ہے
وہی انسان ہے احساںؔ کہ جسے علم ہے کچھ
حق یہ ہے باپ سے افزوں رہے استاد کا حق
عزم و استقلال ہے شرط مقدم عشق میں
کوئی جادہ کیوں نہ ہو انسان اس پر جم رہے
یہ راز کی باتیں ہیں اس کو سمجھے تو کوئی کیوں کر سمجھے
انسان ہے پتلا حیرت کا مجبور بھی ہے مختار بھی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
قابو میں دل ناکام رہے راضی بہ رضا انسان رہے
ہنگام مصیبت گھبرانا اک طرح کی یہ نادانی ہے
الٰہی بھید تیرے اس نے ظاہر کر دیئے سب پر
کہا تھا کس نے تو سیمابؔ کو انسان پیدا کر
دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں
انسان کے دل میں گھٹ گھٹ کر جو روح کو کھائے جاتا ہے
ہمت تھی اگر تو دنیا نے اس راز کو افشا کر نہ دیا
یہ انسان بن جائیں کچھ ساتھ رہ کر
فرشتوں کو ہم راہ پر لا رہے ہیں
سینے میں بن کے حسرت اک تیر بے کماں ہے
جب تک رہے یہ دل میں انسان نیم جاں ہے
جن سے کہ ہو مربوط وہی تم کو ہے میمون
انسان کی صحبت تمہیں درکار کہاں ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere