کہاں ممکن ہے کس سے انتظار یار ہو مجھ سا
رہے گی پھر بھی یوں ہی مثل نرگس آنکھ وا کس کی
جب وہ آتے نہیں شب وعدہ
موت کا انتظار ہوتا ہے
اکثر پلٹ گئی ہے شب انتطار موت
مرنے نہ درد دل نے دیا تا سحر مجھے
ایک دن ایسا بھی ہوگا انتظار یار میں
نیند آ جائے گی دروازہ کھلا رہ جائے گا
جل ہی گیا فراق تو آتش سے ہجر کی
آنکھوں میں مری رہ نہ سکا یارو انتظار
جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا
الٰہی رنگ یہ کب تک رہے گا ہجر جاناں میں
کہ روز بے دلی گزرا تو شام انتظار آئی
جا کہے کوئے یار میں کوئی
مر گیا انتظار میں کوئی
حاضر ہے بزم یار میں سامان عیش سب
اب کس کا انتظار ہے اکبرؔ کہاں ہو تم
کثرت امید بھی عیش آفریں ہونے لگی
انتظار یار بھی راحت فزا ہونے لگا
آ کر وہ میری لاش پہ یہ کہہ کے رو دیے
تم سے ہوا نہ آج مرا انتظار بھی
نہ آئیں گے وہ حسرتؔ انتظار شوق میں یو نہیں
گزر جائیں گے ایام بہار آہستہ آہستہ
دکھائیے آج روئے زیبا اٹھائیے درمیاں سے پردہ
کہاں سے اب انتظار فردا یہی تو سنتے ہیں عمر بھر سے
وصل کا انتظار ہی اچھا
یہ تو مضطرؔ خدا کرے کہ نہ ہو
جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا
آ جائیو یار گھر سے جلدی
مت کشتۂ انتظار کیجو
نہ آیا کیا سبب اب الگ رہا دل انتظار آخر
جہاں ہووے وہاں جا کر مجھنے ہونا نثار آخر
اجالا ہو تو ڈھونڈوں دل بھی پروانوں کی لاشوں میں
مری بربادیوں کو انتظار صبح محفل ہے
خلوت انتظار میں اس کی
در و دیوار کا تماشا ہے
دن انتظار کا تو کٹا جس طرح کٹا
لیکن کسو طرح نہ کٹی رات رہ گئی
اے قیامت آ بھی تیرا ہو رہا ہے انتظار
ان کے در پر لاش اک رکھی ہے کفنائی ہوئی
تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
گو کہ ہو تاب انتظار کسے
یہ حال کھلا نہ کچھ بھی عرفاںؔ
ہے تجھ کو یہ انتظار کس کا
کر قتل شوق سے میں تصدق ہوا ہوا
سرکار نہیں ہے فکر جو ہوا انتظار خاص
قیامت آ چکی دیدار حق ہوا سب کو
ہم اب تلک بھی ترا انتظار رکھتے ہیں
نہ رہا انتظار بھی اے یاس
ہم امید وصال رکھتے تھے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere