خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا
غضب جھونکے چلے باد سحر کے
کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاضؔ آ ہے ہیں
دہن ہے چھوٹا کمر ہے پتلی سڈول بازو جمال اچھا
طبیعت اپنی بھی ہے مزے کی پسند اچھی خیال اچھا
ہے باریک تار نظر سے زیادہ
دکھائی نہ دے گی کمر دیکھ لینا
عدم کی حقیقت کھلےگی تمام
تری زلف جب تا کمر جائےگی
وہم ہے شک ہے گماں ہے بال سے باریک ہے
اس سے بہتر اور مضمون کمر ملتا نہیں
نہ کمر اس کی نظر آئے ثابت ہو دہن
گفتگو اس میں عبث اس میں ہے تکرار عبث
نہ تھا شباب کمر میں ریاضؔ زر ہوتا
تو دن بڑھاپے کے بھی نذر لکھنؤ کرتے
مرے قتل کو آئے اس سادگی سے
چھری ہاتھ میں ہے نہ خنجر کمر میں
کیا لگایا یار نے سینے میں ہی تیر نگاہ
قوس کی مانند میرا کج کمر ہونے لگا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere