خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے
اثرؔ تو کوئی دم کا مہمان ہے
اس نے میت پہ آ کر کہا
تم تو سچ مچ خفا ہو گئے
دیر سے آنے پہ میرے تیری دل کش برہمی
وہ خفا ہونا ترا وہ روٹھنا اچھا لگا
وہ میرے سر کو ٹھکراتے ہیں سجدوں سے خفا ہو کر
جبیں سے میری پیوستہ ہے ان کا آستاں پھر بھی
جان و دل سے بھی گزر جائیں
اگر ایسا ہی خفا کیجئے گا
عجب ہیں یہ راز و نیاز محبت
خفا کیوں ہوئے وہ ہیں اس پر خفا ہم
محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے
کہو تو ایسی کیا سرزد ہوئی آخر خطا مجھ سے
آج کیا ہے کہو کیوں ایسے خفا بیٹھے ہو
اپنی کہتے ہو نہ میری ہی میاں سنتے ہو
دیر سے آنے پہ میرے تیری دل کش برہمی
وہ خفا ہونا ترا وہ روٹھنا اچھا لگا
میں فدا ہوں آپ پر اور آپ ہو مجھ پر خفا
یہ میری تقصیر ہے یا کج ادائی آپ کی
جہاں ہو بجلیوں کا خوف پیہم
سکون آشیاں کچھ بھی نہیں ہے
اٹھ جاؤں گا ایک دن خفا ہو
یہاں تک نہ کرو اداس مجھ کو
غیروں میں نہ میں عرض تمنا سے رکوں گا
اغماض کرے وہ سر محفل کہ خفا ہو
یا وہ تھی خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
میں خفا ہو کے جب اٹھا تو وہ بولے کوثرؔ
فتنۂ حشر نے چومے دم رفتار قدم
گو زیست سے ہیں ہم آپ بیزار
اتنا پہ نہ جان سے خفا کر
اچھے سے خوش برے سے خفا ہے یہ نفس بد
دیکھے کوئی تو حال زار اس شریر کا
خفا صیاد ہے چیں بر جبیں گلچیں ہے کیا باعث
برا کس کا کیا تقصیر کی ہم نے بھلا کس کی
تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
اے بتو کیا کسی کے خدا ہو
خفا مت ہو بیدارؔ اندیشہ کیا ہے
ملا گر نہ وہ آج کل مل رہے گا
ہوتے آزردہ ہو آنے سے ہمارے جو تم
خوش رہو مت ہو خفا ہم چلے لو بسم اللہ
کیا کہا میں نے جو ناحق تم خفا ہونے لگے
کچھ سنا بھی یا کہ یوں ہی فیصلہ ہونے لگا
اگر ہم سے خفا ہونا ہے تو ہو جائیے حضرت
ہمارے بعد پھر انداز یزداں کون دیکھے گا