ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
جسم کا ریشہ ریشہ مچلے درد محبت فاش کرے
عشق میں کاوشؔ خاموشی تو سخنوری سے مشکل ہے
طریق عشق میں رہبر ہے اپنی خاموشی
جرس کا کام نہیں میرے کارواں کے لئے
میں ساز حقیقت ہوں دم ساز حقیقت ہوں
خاموشی ہے گویائی گویائی ہے خاموشی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere