خط پر اشعار
لڑکوں کے رُخسار اور
لبُوں پر آغازِ جوانی مںق پہلی بار جو بال نمودار ہوتے ہںٰ اسے خط کہا جاتا ہے۔تصوف میں خط سے اشارہ عالم ارواح کی طرف ہوتا ہے۔بعض کے نزدیک خط سے مراد حققتی محمدی اور برزخ کبریٰ ہے۔
اس نے خط بھیجا جو مجھ کو ڈاک پر ڈاکہ پڑا
یار کیا کرتا نہ تھا میرے مقدر کا جواب
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے
دعا کہہ کر چلا بندہ سلام آ کر کرے گا پھر
خط آوے جب تلک تو بندگی سے خوب جاتا ہے
الٰہی آسیؔ بیتاب کس سے چھوٹا ہے
کہ خط میں روز قیامت لکھا ہے نام کے بعد
خودداری و محرومی محرومی و خودداری
اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے
خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا
یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے
وہ کون دن ہے کہ غیروں کو خط نہیں لکھتا
قلم کے بن کو لگے آگ اور جلے کاغذ
میرے سینہ پر تم بیٹھو گلا تلوار سے کاٹو
خط تقدیر میں سمجھوں خط شمشیر براں کو
اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
تکیے میں کیا رکھا ہے خط غیر کی طرح
دیکھوں تو میں نوشتۂ قسمت مرا نہ ہو
نو خط تو ہزاروں ہیں گلستان جہاں میں
ہے صاف تو یوں تجھ سا نمودار کہاں ہے
نامہ بر خط دے کے اس کو لفظ کچھ مت بولیو
دم بخود رہیو تیری تقریر کی حاجت نہیں
کہتا ہوں یہ ان کے تصور سے اے دشمن ہستی وہمی
جب ٹھہرا میں اک موج رواں خط موج کی طرح مٹا دے مجھے
جب بھی خط لکھنے بیٹھے انہیں
صرف لے کر قلم رہ گئے
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطراب شوق نے اک حشر برپا کر دیا
اس نے لکھا خط میں یہ شکوہ نہ کرنا جور کا
ہم نے لکھ بھیجا ہے اتنا اپنی یہ عادت نہیں
قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا
لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا
ان کا خط آنے سے تسکین ہوئی تھی دل کو
جب یہ دیکھا کہ لکھا کیا تو لکھا کچھ بھی نہیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere