Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خط پر اشعار

لڑکوں کے رُخسار اور

لبُوں پر آغازِ جوانی مںق پہلی بار جو بال نمودار ہوتے ہںٰ اسے خط کہا جاتا ہے۔تصوف میں خط سے اشارہ عالم ارواح کی طرف ہوتا ہے۔بعض کے نزدیک خط سے مراد حققتی محمدی اور برزخ کبریٰ ہے۔

اس نے خط بھیجا جو مجھ کو ڈاک پر ڈاکہ پڑا

یار کیا کرتا نہ تھا میرے مقدر کا جواب

امیر مینائی

ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر

یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے

بیدم شاہ وارثی

دعا کہہ کر چلا بندہ سلام آ کر کرے گا پھر

خط آوے جب تلک تو بندگی سے خوب جاتا ہے

احسن اللہ خاں بیان

رخ پہ ہر صورت سے رکھنا گل رخاں خط کا ہے کفر

دیکھو قرآں پر نہ رکھیو بوستاں بہر خدا

شاہ نصیر

خط کے لے جانے کو وہاں کوئی میسر نہ ہوا

در ہوا اشک صد افسوس کبوتر نہ ہوا

شاہ نصیر

الٰہی آسیؔ بیتاب کس سے چھوٹا ہے

کہ خط میں روز قیامت لکھا ہے نام کے بعد

آسی غازیپوری

خودداری و محرومی محرومی و خودداری

اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے

جگر مرادآبادی

خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا

یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے

مضطر خیرآبادی

وہ کون دن ہے کہ غیروں کو خط نہیں لکھتا

قلم کے بن کو لگے آگ اور جلے کاغذ

احسن اللہ خاں بیان

آتشیں رخ پر ترے دیکھے عرق آلود خط

جس نے گر سبزہ کبھو دیکھا نہ ہو تر آگ میں

شاہ نصیر

خط کے آنے سے پڑا ہے شور ملک حسن میں

دان کر سورج گہن کہتے ہیں اے دلبر لگا

شاہ نصیر

میرے سینہ پر تم بیٹھو گلا تلوار سے کاٹو

خط تقدیر میں سمجھوں خط شمشیر براں کو

راقم دہلوی

اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا

تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

شاہ نصیر

تکیے میں کیا رکھا ہے خط غیر کی طرح

دیکھوں تو میں نوشتۂ قسمت مرا نہ ہو

بیدم شاہ وارثی

نو خط تو ہزاروں ہیں گلستان جہاں میں

ہے صاف تو یوں تجھ سا نمودار کہاں ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

یہ بھی قسمت کا لکھا اپنی کہ اس نے یارو

لے کے خط ہاتھ سے قاصد کی نہ میرا کھولا

شاہ نصیر

نامہ بر خط دے کے اس کو لفظ کچھ مت بولیو

دم بخود رہیو تیری تقریر کی حاجت نہیں

کشن سنگھ عارفؔ

کہتا ہوں یہ ان کے تصور سے اے دشمن ہستی‌ وہمی

جب ٹھہرا میں اک موج رواں خط موج کی طرح مٹا دے مجھے

ابراہیم عاجزؔ

جب بھی خط لکھنے بیٹھے انہیں

صرف لے کر قلم رہ گئے

فنا نظامی کانپوری

پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی

اضطراب شوق نے اک حشر برپا کر دیا

حسرت موہانی

اس نے لکھا خط میں یہ شکوہ نہ کرنا جور کا

ہم نے لکھ بھیجا ہے اتنا اپنی یہ عادت نہیں

عرش گیاوی

پھر نہ آیا پھر کے گر وہ نامہ بر اچھا ہوا

خط کتابت اٹھ گئی اے سیم بر اچھا ہوا

مردان صفی

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

پرنم الہ آبادی

ان کا خط آنے سے تسکین ہوئی تھی دل کو

جب یہ دیکھا کہ لکھا کیا تو لکھا کچھ بھی نہیں

رشید وارثی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے