فصل بہار میں تو قید قفس میں گزری
چھوٹے جو اب قفس سے تو موسم خزاں ہے
وہ بہار عمر ہو یا خزاں نہیں کوئی قابل اعتنا
نہ یقیں تھا مجھ کو سرور پر نہ ہے اعتبار خمار پر
مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر
نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں
نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض
افسردگی بھی رخ پہ ہے ان کے نکھار بھی
ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی
وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں
نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر
نو اسیر فرقت ہوں وصل یار مجھ سے پوچھ
ہو گئی خزاں دم میں سب بہار مجھ سے پوچھ
جوش جنوں میں داغ جگر میرے بھرے
گلچیں ہمارے باغ کو خوف خزاں نہیں
خزاں کا خوف تھا جن کو چمن میں
انہیں پھولوں کے چہرے زرد نکل
لوٹے گا سب بہار تری شحنۂ خزاں
بلبل پر کر لے تو زر گل کو نثار شاخ
گریۂ فصل خزاں کا وقت آ پہنچا قریب
اے گلو دیکھو یہ بے موقع ہنسی اچھی نہیں
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
باغ سے دور خزاں سر جو ٹپکتا نکلا
قلب بلبل نے یہ جانا میرا کانٹا نک
میری زندگی پے نہ مسکرا،مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
اے اسیران قفس آنے کو ہے فصل خزاں
چار دن میں اور گلشن کی ہوا ہو جائے گی
میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی
چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere