Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

قبر پر اشعار

دفن ہوں احساس کی صدیوں پرانی قبر میں

زندگی اک زخم ہے اور زخم بھی تازہ نہیں

مظفر وارثی

مل چکے اب ملنے والے خاک کے

قبر پر جا جا کے رویا کیجیے

آسی غازیپوری

بعد مرنے کے مئےعشق کی خوشبو مہکے

ڈال دو خاک مری قبر پے مے خانے کی

نازاں شولا پوری

یہ وہ بدلا ہے سنگ آستاں کی جبہ سائی کا

کہ آئے اور میری قبر پر اپنی جبیں رکھ دی

مضطر خیرآبادی

تم قبر پر آئے ہو مری پھول چڑھانے

مجھ پر ہے گراں سایۂ برگ گل تر بھی

عرش گیاوی

رو کے فرماتے ہیں وہ شب کو جو ہم یاد آئے

گوشۂ قبر میں سوتے ہیں جگانے والے

شیریں لکھنوی

رات گئے یوں دل کو جانے سرد ہوائیں آتی ہیں

اک درویش کی قبر پہ جیسے رقاصائیں آتی ہیں

مظفر وارثی

کیوں مشرقیؔ غم زدہ کا دل نہ ہو بے چین

اب قبر کی ہے جان جو جانانۂ دل تھا

مشرقی منیری

وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں

نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں

مضطر خیرآبادی

بخدا قبر کی ہو جائے گی مشکل آساں

ساتھ لاشہ کے چلیں گے جو وہ دو چار قدم

کوثرؔ وارثی

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

عرش گیاوی

قبر پر میری اگر فاتحہ پڑھنے کے لئے

وہ جو آ جائیں تو تھرا اٹھے تربت میری

مردان صفی

حسین بھی ہوں خوش آواز بھی فرشتۂ قبر

کٹی ہے عمر حسینوں سے گفتگو کرتے

ریاض خیرآبادی

وہ لوگ منزل پیری میں ہیں جو آئے ہوئے

خیال قبر میں بیٹھے ہیں سر جھکائے ہوئے

عرش گیاوی

قبر میں ہے آج او پردہ نشیں

لے ترے رسوا نے بھی پردا کیا

ریاض خیرآبادی

پس مردن تو مجھ کو قبر میں راحت سے رہنے دو

تمہاری ٹھوکروں سے اڑتا ہے خاکہ قیامت کا

اکبر وارثی میرٹھی

ناز گل کا شہید ہے جو فناؔ

قبر پر گل رخوں کا میلہ ہے

سلیمان شکوہ گارڈنر

رنگ لائے گا مرا سوز محبت قبر میں

استخواں ہو جائے گا شعلے کفن جل جائے گا

سنجر غازیپوری

فاتحہ پڑھتے رہے ہنستے رہے روتے رہے

قبر پر آ کر انہوں نے قول پورا کر دیا

جگرؔ وارثی

یہ کاہے کو آتی مری قبر میں

قیامت ہے ان کی ستائی ہوئی

ریاض خیرآبادی

بلا ہے قبر کی شب اس سے بڑھ کے حشر کے دن

نہ آؤں ہوش میں اتنی مجھے پلا دینا

ریاض خیرآبادی

ساقی نے پس مردن پیاسا نہ مجھے چھوڑا

اک ابر کے ٹکڑے سے مے قبر پہ برسا دی

مضطر خیرآبادی

پھر وہ آ جاتا کسی دن قبر پر

اک نشان بے نشانی اور ہے

عرش گیاوی

وحشت نہ قبر میں ہو تم سامنے ہی رہنا

دست جنوں نہ میرا باہر کفن سے نکلے

مردان صفی

قبر پر دامن کشاں ہی آؤ آؤ تو سہی

پھر جھٹک دینا ہماری خاک دامن گیر کو

بے نظیر شاہ وارثی

عمر بھر یاد در دنداں میں میں گریاں رہا

قبر پر جز دامن شبنم کوئی چادر نا ہو

رضا فرنگی محلی

یہ دل کی تڑپ کیا لحد کو ہلاتی

تمہیں قبر پر پاؤں دھرنا نہ آیا

ریاض خیرآبادی

نیک و بد دو ہی عمل جاتے ہیں دم کے ساتھ ساتھ

قبر میں شامل میرے یہ بن کے رہبر دو گئے

سنجر غازیپوری

جاتے جاتے عرصہ گاہ حشر تک جو حال ہو

اٹھتے اٹھتے قبر میں سو فتنۂ محشر اٹھے

ریاض خیرآبادی

چراغ خوب ہوا میرے قبر پر نا جلا

ادھر ادھر کے پتنگے غریب جل جاتے

اسیر لکھنوی

آتش فرقت سے صادقؔ آبلہ تن ہو گیا

قبر میں رکھنا پس مردن بہ آسانی مجھے

صادق لکھنوی

اندھیرا قبر کا دیکھا تو پھر یاد آ گئے گیسو

میں سمجھا تھا کہ اب میں تیرے کاکل سے نکل آیا

مضطر خیرآبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے