دفن ہوں احساس کی صدیوں پرانی قبر میں
زندگی اک زخم ہے اور زخم بھی تازہ نہیں
مل چکے اب ملنے والے خاک کے
قبر پر جا جا کے رویا کیجیے
بعد مرنے کے مئےعشق کی خوشبو مہکے
ڈال دو خاک مری قبر پے مے خانے کی
یہ وہ بدلا ہے سنگ آستاں کی جبہ سائی کا
کہ آئے اور میری قبر پر اپنی جبیں رکھ دی
رات گئے یوں دل کو جانے سرد ہوائیں آتی ہیں
اک درویش کی قبر پہ جیسے رقاصائیں آتی ہیں
کیوں مشرقیؔ غم زدہ کا دل نہ ہو بے چین
اب قبر کی ہے جان جو جانانۂ دل تھا
وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں
نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں
بخدا قبر کی ہو جائے گی مشکل آساں
ساتھ لاشہ کے چلیں گے جو وہ دو چار قدم
میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی
چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا
حسین بھی ہوں خوش آواز بھی فرشتۂ قبر
کٹی ہے عمر حسینوں سے گفتگو کرتے
قبر میں ہے آج او پردہ نشیں
لے ترے رسوا نے بھی پردا کیا
پس مردن تو مجھ کو قبر میں راحت سے رہنے دو
تمہاری ٹھوکروں سے اڑتا ہے خاکہ قیامت کا
ناز گل کا شہید ہے جو فناؔ
قبر پر گل رخوں کا میلہ ہے
رنگ لائے گا مرا سوز محبت قبر میں
استخواں ہو جائے گا شعلے کفن جل جائے گا
فاتحہ پڑھتے رہے ہنستے رہے روتے رہے
قبر پر آ کر انہوں نے قول پورا کر دیا
یہ کاہے کو آتی مری قبر میں
قیامت ہے ان کی ستائی ہوئی
بلا ہے قبر کی شب اس سے بڑھ کے حشر کے دن
نہ آؤں ہوش میں اتنی مجھے پلا دینا
ساقی نے پس مردن پیاسا نہ مجھے چھوڑا
اک ابر کے ٹکڑے سے مے قبر پہ برسا دی
قبر پر دامن کشاں ہی آؤ آؤ تو سہی
پھر جھٹک دینا ہماری خاک دامن گیر کو
عمر بھر یاد در دنداں میں میں گریاں رہا
قبر پر جز دامن شبنم کوئی چادر نا ہو
یہ دل کی تڑپ کیا لحد کو ہلاتی
تمہیں قبر پر پاؤں دھرنا نہ آیا
نیک و بد دو ہی عمل جاتے ہیں دم کے ساتھ ساتھ
قبر میں شامل میرے یہ بن کے رہبر دو گئے
جاتے جاتے عرصہ گاہ حشر تک جو حال ہو
اٹھتے اٹھتے قبر میں سو فتنۂ محشر اٹھے
اندھیرا قبر کا دیکھا تو پھر یاد آ گئے گیسو
میں سمجھا تھا کہ اب میں تیرے کاکل سے نکل آیا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere