Font by Mehr Nastaliq Web

قاصد پر اشعار

ادب سے سر جھکا کر قاصد اس کے روبرو جانا

نہایت شوق سے کہنا پیام آہستہ آہستہ

عزیز صفی پوری

جھوٹ کیوں کہتا ہے اے قاصد کہ وہ آتے نہیں

وہ اگر آتے نہیں ہم آپ میں آتے ہیں کیوں

آسی غازیپوری

نہیں یہ کہتا میں تجھ سے قاصد کہ ان سے بے وقت حال کہہ دے

مگر جو پہلو نظر سے گزرے تو اس سے پہلو تہی نہ کرنا

مضطر خیرآبادی

کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے

آج پھر قاصد روانا کیجیے

آسی غازیپوری

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

پرنم الہ آبادی

پھینک دو خط لکھ کے قاصد سے جو تم بیزار ہو

اڑ کے آئے گا جو ہے میرے مقدر کا جواب

امیر مینائی

بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد

حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری

راقم دہلوی

مصر سیں لے کر خبر یوسف کی جو قاصد گیا

دیدۂ یعقوب روشن بوئے پیراہن کیا

تراب علی دکنی

اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا

تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

شاہ نصیر

آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا

دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

میر محمد بیدار

ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر

یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے

بیدم شاہ وارثی

انتظار قاصد گم گشتہ نے مارا نصیرؔ

کس طرح اڑ جائیے کوچے میں اس کے پر لگا

شاہ نصیر

کہیو اے قاصد پیام اس کو کہ تیرے ہجر سے

جاں بہ لب پہنچا نہیں آتا ہے تو یاں اب تلک

خواجہ رکن الدین عشقؔ

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے

کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے

میر محمد بیدار

یہ بھی قسمت کا لکھا اپنی کہ اس نے یارو

لے کے خط ہاتھ سے قاصد کی نہ میرا کھولا

شاہ نصیر

نامۂ لخت دل اس بے دید تک پہنچا مرا

آج پھر اے قاصد اشک رواں بحر خدا

شاہ نصیر

متعلقہ موضوعات

بولیے