ادب سے سر جھکا کر قاصد اس کے روبرو جانا
نہایت شوق سے کہنا پیام آہستہ آہستہ
جھوٹ کیوں کہتا ہے اے قاصد کہ وہ آتے نہیں
وہ اگر آتے نہیں ہم آپ میں آتے ہیں کیوں
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے
کہیو اے قاصد پیام اس کو کہ تیرے ہجر سے
جاں بہ لب پہنچا نہیں آتا ہے تو یاں اب تلک
قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا
لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا
آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا
نہیں یہ کہتا میں تجھ سے قاصد کہ ان سے بے وقت حال کہہ دے
مگر جو پہلو نظر سے گزرے تو اس سے پہلو تہی نہ کرنا
اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے
پھینک دو خط لکھ کے قاصد سے جو تم بیزار ہو
اڑ کے آئے گا جو ہے میرے مقدر کا جواب
بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد
حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری
مصر سیں لے کر خبر یوسف کی جو قاصد گیا
دیدۂ یعقوب روشن بوئے پیراہن کیا
کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے
آج پھر قاصد روانا کیجیے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere