مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
عشق میں عاشق کی یہ معراج ہے
قتل ہو قاتل کا منہ دیکھا کرے
قاتل کو ہے زعم چارہ گری اب درد نہاں کی خیر نہیں
وہ مجھ پے کرم فرمانے لگے شاید مری جاں کی خیر نہیں
کہاں کا نالہ کہاں کا شیون سنائے قاتل ہے وقت مردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا
صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے
قاتل رہبر قاتل رہزن
دل سا دوست نہ دل سا دشمن
تری آمادگی قاتل تبسم ہے محبت کا
توجہ گر نہیں مضمر تو قصد امتحاں کیوں ہو
قاتل نے پائمال کیا جب سے خون عشقؔ
سب شغل چھوڑ کر وہ ہوا ہے حنا پرست
ہیں شوق ذبح میں عاشق تڑپتے مرغ بسمل سے
اجل تو ہے ذرا کہہ آنا یہ پیغام قاتل سے
ہے وہ قاتل قتل عاشق پر کھڑا
مار دے گا خوں بھری تلوار سے
نکلتی ہے صدائیں مرحبا ہر زخم سے قاتل
ہمیں لذت ملی کیا جانے کیا شوق شہادت میں
چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی
بڑا بے رحم ہے قاتل ہمارا
جس طرف کوچۂ قاتل میں گزر ہوتا ہے
نظر آتے ہیں ادھر موت کے ساماں مجھ کو
نکالے حوصلہ مقتل میں اپنے بسمل کے
نثار تیغ کے قربان ایسے قاتل کے
کوچۂ قاتل میں مجھ کو گھیر کر لائی ہے یہ
جیتے جی جنت میں پہنچا دے قضا ایسی تو ہو
نہ ہوتی دل میں الفت اپنی کیوں قاتل کے ابرو کی
کہ مجھ کو تو قتیل خنجر سفاک ہونا تھا
قد خم ہے گریباں گیر کنٹھا بن کے قاتل کا
مگر بے تابیٔ ذوق شہادت ہو تو ایسی ہو
ادا و ناز قاتل ہوں کبھی انداز بسمل ہوں
کہیں میں خندۂ گل ہوں کہیں سوز عنادل ہوں
خون عشاق سے قاتل نے نہ کھیلی ہولی
صف مقتل میں کبھی رنگ اچھلنے نہ دیا
نہیں ہے یہ قاتل تغافل کا وقت
خبر لے کہ باقی ابھی جان ہے
کوئی مر کر تو دیکھے امتحاں گاہ محبت میں
کہ زیر خنجر قاتل حیات جاوداں تک ہے
اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے
محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا
مر ہی گئے جفاؤں سے قاتل تڑپ تڑپ
میں کیا کہ اور کتنے ہی بسمل تڑپ تڑپ
سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں
رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں
چاٹتی ہے کیوں زبان تیغ قاتل بار بار
بے نمک چھڑکے یہ زخموں میں مزا کیونکر ہوا
سخت جاں سنجرؔ ہوا ہے عشق میں
تیغ اب قاتل کی خالی جائے گی
جو عزم قتل ہے آنکھوں پہ پٹی باندھ لی قاتل
مبادا تجھ کو رحم آ جائے میری ناتوانی پر
وہم ہے یا سہم ہے قاتل کو یا میرا خیال
ہاتھ کانپے جاتے ہیں خنجر رواں ہوتا نہیں
تشنہ لب چھوڑا مجھے قاتل نے وقت امتحاں
روح میری آب خنجر کو ترستی رہ گئی
سخت جانی سے گلا کٹتا نہیں
اعتبار خنجر قاتل گیا
یہ ہیں خون بسمل کی دھاریں اے قاتل
تری آنکھوں میں سرخ ڈورے نہیں ہیں
خون ناحق کی شہادت کے لیے کافی ہے یہ
دامن قاتل پے جو دھبے لہو کے جم رہے
عارفاؔ قاتل جب آیا تیغ وحدت ہاتھ لے
قتل کو گردن جھکا میں پیشتر ہونے لگا
آستیں رنگ بدلے آئی لہو دے نکلی
نہ چھپا لاکھ چھپا حشر میں قاتل میرا
ادا غمزے کرشمے عشوے ہیں بکھرے ہوئے ہر سو
صف مقتل میں یا قاتل ہے یا انداز قاتل ہے
نہیں موقوف دنیا ہی میں چرچا خون ناحق کا
سر محشر بھی قاتل کو پشیماں کر کے چھوڑوں گا
مرے قاتل کی جلدی نے مجھے ناکام ہی رکھا
تمنا دیکھنے کی بھی نہ نکلی تیز دستی میں
امتحاں گاہ وفا میں تو بھی چل میں بھی چلوں
آج اے شمشیر قاتل میں نہیں یا تو نہیں
نہ ترسا انہیں آب خنجر کو قاتل
دعائیں تجھے دیں گے بسمل ہزاروں
وہ ظالم ہے بے درد سفاک قاتل
اسے درد دل کا سنانے سے حاصل
کوچۂ قاتل میں جاکر ہاتھ سے رکھیں تجھے
او دل بیتاب ہم نے اس لئے پالا نہیں
پئے گی خوب اے قاتل غضب کا رنگ لائے گی
لگائی ہے جو مہندی پیس اس کو خون بسمل میں
میان تشنگی پیاسوں نے ایسی لذتیں لوٹیں
کہ آب تیغ قاتل بے مزا معلوم ہوتا ہے
تیغ ہی کیا ہاتھ میں قاتل کے تھی
اے حنا تو بھی تو سانی جائے گی
حشر میں قاتل نے دیکھی ہے لہو کی کوئی چھینٹ
سوئے دامن کیوں جھکی ہے آنکھ شرمائی ہوئی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere