Font by Mehr Nastaliq Web

قاتل پر اشعار

مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر

دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے

بیدم شاہ وارثی

عشق میں عاشق کی یہ معراج ہے

قتل ہو قاتل کا منہ دیکھا کرے

شاہ اکبر داناپوری

قاتل کو ہے زعم چارہ گری اب درد نہاں کی خیر نہیں

وہ مجھ پے کرم فرمانے لگے شاید مری جاں کی خیر نہیں

شکیل بدایونی

کہاں کا نالہ کہاں کا شیون سنائے قاتل ہے وقت مردن

قلم ہوئی ہے بدن سے گردن زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا

امیر مینائی

صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی

تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے

بیدم شاہ وارثی

قاتل رہبر قاتل رہزن

دل سا دوست نہ دل سا دشمن

جگر مرادآبادی

چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی

بڑا بے رحم ہے قاتل ہمارا

آسی غازیپوری

تری آمادگی قاتل تبسم ہے محبت کا

توجہ گر نہیں مضمر تو قصد امتحاں کیوں ہو

میکش اکبرآبادی

قاتل نے پائمال کیا جب سے خون عشقؔ

سب شغل چھوڑ کر وہ ہوا ہے حنا پرست

خواجہ رکن الدین عشقؔ

ہیں شوق ذبح میں عاشق تڑپتے مرغ بسمل سے

اجل تو ہے ذرا کہہ آنا یہ پیغام قاتل سے

شاہ اکبر داناپوری

ہے وہ قاتل قتل عاشق پر کھڑا

مار دے گا خوں بھری تلوار سے

کشن سنگھ عارفؔ

نکلتی ہے صدائیں مرحبا ہر زخم سے قاتل

ہمیں لذت ملی کیا جانے کیا شوق شہادت میں

کوثر خیرآبادی

ادا و ناز قاتل ہوں کبھی انداز بسمل ہوں

کہیں میں خندۂ گل ہوں کہیں سوز عنادل ہوں

کوثر خیرآبادی

کوچۂ قاتل میں مجھ کو گھیر کر لائی ہے یہ

جیتے جی جنت میں پہنچا دے قضا ایسی تو ہو

کیفی حیدرآبادی

نہ ہوتی دل میں الفت اپنی کیوں قاتل کے ابرو کی

کہ مجھ کو تو قتیل خنجر سفاک ہونا تھا

عرش گیاوی

قد خم ہے گریباں گیر کنٹھا بن کے قاتل کا

مگر بے تابیٔ ذوق شہادت ہو تو ایسی ہو

آسی غازیپوری

خون عشاق سے قاتل نے نہ کھیلی ہولی

صف مقتل میں کبھی رنگ اچھلنے نہ دیا

کوثر خیرآبادی

نہیں ہے یہ قاتل تغافل کا وقت

خبر لے کہ باقی ابھی جان ہے

خواجہ میر اثر

کوئی مر کر تو دیکھے امتحاں گاہ محبت میں

کہ زیر خنجر قاتل حیات‌‌ جاوداں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

جس طرف کوچۂ قاتل میں گزر ہوتا ہے

نظر آتے ہیں ادھر موت کے ساماں مجھ کو

جگرؔ وارثی

یہ بھی اک ڈر ہے کہیں رسوا نہ ہو قاتل مرا

حشر میں خون تمنا کا اگر دعویٰ کروں

رضا وارثی

نکالے حوصلہ مقتل میں اپنے بسمل کے

نثار تیغ کے قربان ایسے قاتل کے

بیدم شاہ وارثی

مرے قاتل کی جلدی نے مجھے ناکام ہی رکھا

تمنا دیکھنے کی بھی نہ نکلی تیز دستی میں

مضطر خیرآبادی

امتحاں گاہ وفا میں تو بھی چل میں بھی چلوں

آج اے شمشیر قاتل میں نہیں یا تو نہیں

مضطر خیرآبادی

نہ ترسا انہیں آب خنجر کو قاتل

دعائیں تجھے دیں گے بسمل ہزاروں

ریاض خیرآبادی

وہ ظالم ہے بے درد سفاک قاتل

اسے درد دل کا سنانے سے حاصل

مرزا فدا علی شاہ منن

کوچۂ قاتل میں جاکر ہاتھ سے رکھیں تجھے

او دل بیتاب ہم نے اس لئے پالا نہیں

مرزا فدا علی شاہ منن

پئے گی خوب اے قاتل غضب کا رنگ لائے گی

لگائی ہے جو مہندی پیس اس کو خون بسمل میں

امیر مینائی

میان تشنگی پیاسوں نے ایسی لذتیں لوٹیں

کہ آب تیغ قاتل بے مزا معلوم ہوتا ہے

مضطر خیرآبادی

تیغ ہی کیا ہاتھ میں قاتل کے تھی

اے حنا تو بھی تو سانی جائے گی

ریاض خیرآبادی

حشر میں قاتل نے دیکھی ہے لہو کی کوئی چھینٹ

سوئے دامن کیوں جھکی ہے آنکھ شرمائی ہوئی

ریاض خیرآبادی

واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف

گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں

جگر مرادآبادی

جلایا مار کر قاتل نے میں اس قتل کے قرباں

ہوا داخل وہ خود مجھ میں میں ایسے دخل کے قرباں

مردان صفی

میں کیا بے وفا ہوں کہ محشر میں قاتل خدا سے کروں شکوۂ قتل اپنا

زمانہ کہے خون ناحق بہایا اگر مجھ سے پوچھا تو پانی کہوں گا

مضطر خیرآبادی

ادھر ہر وار پر قاتل کو برسوں لطف آیا ہے

ادھر ہر زخم نے دی ہے صدائے آفریں برسوں

مضطر خیرآبادی

ستم کو چھوڑ بد اچھا برا بدنام دنیا میں

جفا کے ساتھ تیرا نام اے قاتل نکلتا ہے

اکبر وارثی میرٹھی

قاتل وہ شاخ ہے تری یہ تیغ آب دار

جس کو نہ گل کا غم ہے نہ حاجت ثمر کی ہے

عرش گیاوی

ہے مقتل میں قاتل کے اک وار کا

کلیجہ ہوا سر ہوا دل جدا

بانکے لال

کر کے دعویٰ خون ناحق کا بہت نادم ہوا

عرصۂ محشر میں قاتل کو پریشاں دیکھ کر

کوثر خیرآبادی

ہیں خجل قوس وہلال وخنجرو تیغ ستم

قاتل عالم ہے تیری ابرو پرخم نہیں

بہرام جی

حکومت کے مظالم جب سے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں

جگر ہم بمبئی کو کوچۂ قاتل سمجھتے ہیں

جگر مرادآبادی

اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا

پرنم الہ آبادی

مر ہی گئے جفاؤں سے قاتل تڑپ تڑپ

میں کیا کہ اور کتنے ہی بسمل تڑپ تڑپ

خواجہ رکن الدین عشقؔ

سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں

رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں

عزیز صفی پوری

چاٹتی ہے کیوں زبان تیغ قاتل بار بار

بے نمک چھڑکے یہ زخموں میں مزا کیونکر ہوا

امیر مینائی

سخت جاں سنجرؔ ہوا ہے عشق میں

تیغ اب قاتل کی خالی جائے گی

سنجر غازیپوری

سسکتے ہو نگے لاکھوں سینکڑوں بے دم پڑے ہو نگے

سن اے قاصد یہی اچھا نشان کو ئےقاتل ہے

شمس فرنگی محلی

پس مردن ارادہ دل میں تھا جو کوئے قاتل کا

لحد میں خوش ہوا میں نام سن کر پہلی منزل کا

غافل لکھنؤی

جو عزم قتل ہے آنکھوں پہ پٹی باندھ لی قاتل

مبادا تجھ کو رحم آ جائے میری ناتوانی پر

کوثر خیرآبادی

وہم ہے یا سہم ہے قاتل کو یا میرا خیال

ہاتھ کانپے جاتے ہیں خنجر رواں ہوتا نہیں

راقم دہلوی

متعلقہ موضوعات

بولیے