Font by Mehr Nastaliq Web

بہار کے قوال اور قوالی کا پسِ منظر

ریان ابوالعلائی

بہار کے قوال اور قوالی کا پسِ منظر

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    قوالی قول سے ماخوذ ہے، اس کے گانے والے کو قوال کہتے ہیں، قول سے مراد قولِ رسولِ اکرم ہے جو کہ آپ نے حضرت علی مرتضیٰ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولی ہے حضرت امیر خسرو نے قوالی جیسی پاکیزہ صنف کا آغاز کیا، تبھی سے قوالی کی روایت چلی آتی ہے جو کہ اب تک قائم ہے، خواجہ معین الدین چشتی اور پھر خواجہ نظام الدین اؤلیا وغیرہ سے اس کو بڑی شہرت ملی اور اس کی طرح طرح کی صنفوں کا آغاز ہوا، لوگ سماع کی تاریخ و روایت اور اس کے حلال و حرام ہونے کی بحث میں اس قدر الجھے کہ اس کے مخصوص اندازِ موسیقی اور گائیکی پہ کھل کر کلام ہی نہیں ہو سکا، ہمارے بزرگوں نے قوالی پر سیکڑوں صفحات خرچ کردئیے ہیں، اب میں اس پر کیا لکھوں، یہ میرا موضوع بھی نہیں ہے، یہاں صرف اس کا تذکرہ مقصود ہے، پوری محفلِ سماع اپنے جملہ لوازمات سمیت ایک طرف اور قوالوں کا صرف ساز چھیڑنا اور سُر و تال ملانا ایک طرف، اس وقت کیا کیفیت ہوتی ہے اسے صرف اہلِ دل ہی سمجھ سکتے ہیں، یہی حال بہار کے بعض قوالوں کی مجلس کا ہوتا تھا، اب نہ وہ لوگ رہے اور نہ وہ رنگ رہا، نہ وہ کیفیت رہی اور نہ وہ سلیقہ، نہ وہ ناز و انداز رہا اور نہ وہ طور و طریقہ کہ مجلس کیف و سر پیدا کرسکے، حضرت شاہ اکبر داناپوری فرماتے ہیں کہ

    یہ وہی دل ہے کہ معشوقوں کا تھا مد نظر، تھا ہجوم آٹھ پہر

    اب وہی دل ہے کہ کوئی بھی خریدار نہیں، ایسا بازار گرا

    صوفیائے کرام کے کسی بھی سلسلے نے سماع کو حرام قرار نہیں دیا، حضرت امیر حسن سجزی نے ایک بار حضرت نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں عرض کیا کہ مشائخ کا ایک گروہ سماع کا منکر ہے اور وہ اسے حرام قرار دیتا ہے تو حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ

    ان میں ذوق ہی نہیں اس لیے وہ سماع سنتے نہیں

    سماع کیا ہے؟دل میں گداز پیدا کرنے کی تحریک اور جس عظیم الشان ہستی یعنی حضرت رحمت اللعالمین کی حلقہ بگوشی پر ہمیں فخر و ناز ہے، اس کے عشق سے دلوں کو منور کرنے کی لو۔۔۔ آخر وہ کیا چیز ہے جو دماغوں کو جلا بخشتی، دلوں کو موم کی طرح پگھلاتی، طبیعت کو وجد میں لاتی اور خون کی گردش کو تیز کرتی ہے، وہ عشقِ رسالت ہے، حضرت رسالتِ کل کی غلامی ہے اور اس ذاتِ اقدس کا فیضان ہے کہ انسان سماع کے لمحوں میں انہی کا ہو جاتا ہے، ایسی درجنوں مثالیں بہار میں موجود ہیں جن کی کیفیت مجلسِ سماع سے عروج پر آگئی، کتنوں کو دیدار و وصال نصیب ہوا ہے، بعض صوفیائے کرام تو مجلس کا اہتمام ایک مخصوص حجرے میں کرتے جہاں ان کے چند مخصوص مرید و مسترشد ہوتے۔ (دل ملفوظاتِ حضرت شاہ اکبر داناپوری)

    یہ ایک ایسی حالت ہے جس کا اظہار زبان سے نہیں کیا جاسکتا، جس نے مزہ چکھا ہی نہیں ہے وہ لذتِ آشنا کیسے ہوسکتا ہے، صوفیہ سے جو ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں وہ ان کی حالت کا اضطراب ہے رقص نہیں، اگر کسی کو شک و شبہ یا اعتراض ہوسکتا ہے تو رقص میں ہوسکتا ہے اضطراب میں نہیں، چنانچہ اشعار کا سننا اور حالت کا طاری ہونا احادیث سے ثابت ہے، ان میں سے ایک صحیح حدیث حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری نے ’’مکتوباتِ صدی‘‘ میں حضرت انس سے نقل کی ہے کہ

    ہم حضرت رسالتِ مآب کے پاس تھے، حضرت جبرئیل آئے اور کہا کہ یارسول اللہ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر امیروں کے اعتبار سے پانچ سو سال پیشتر بہشت میں داخل ہوں گے، یہ خوش خبری سن کر حضور خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہاں کوئی ہے کہ شعر سنائے؟ ایک بدوی نے کہا کہ ہاں! یارسول اللہ آپ نے فرمایا کہ ھاتَ ھات (آؤ آؤ) اس نے یہ شعر پڑھے۔

    لقد لسعت حیّۃ الھویٰ کبدی

    فلا طبیب لھا ولا راقی

    الا الحبیب الذی شفقت بہ

    فعندہ رقیبتی و تریاقی

    یہ سن کر حضور نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں تھے سب وجد کرنے لگے، یہاں تک کہ حضور کی ردائے مبارک دوشِ مبارک سے گر پڑی، جب اس حال سے فارغ ہوئے تو معاویہ بن سفیان نے کہا کہ کتنی اچھی ہے، آپ کی یہ بازی یارسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ ’’دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے پھر حضور کی ردائے مبارک کے چار سو ٹکڑے کرکے حاضرین میں تقسیم کر دئیے گئے۔

    اسی طرح تواجد میں تالیاں بجانے کے متعلق حضرت عتبۃ الغلام کی ایک روایت ہے کہ آپ نے کسی سے کوئی شعر سنا اور ہاتھ پر ہاتھ اتنا مارا کہ انگلیوں سے خون کے قطرے ٹپکنے لگے۔خواجہ ابو سعید ابوالخیر سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب فقیر سماع میں ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے خارج ہو جاتی ہے اور جب زمین پر پاؤں مارتا ہے تو پاؤں کی شہوت نکل جاتی ہے اور جب نعرہ مارتا ہے تو باطن کی شہوتیں باہر نکل جاتی ہیں۔(مکتوباتِ صدی، در بیانِ سماع)

    خیر ! تاہم وقت گزرنے کے ساتھ قوالی کے قواعد و ضوابط وہ پہلے والے نہ رہے، اس کی وجوہات مختلف ہیں، ٹیکنالوجی کا عروج، قوالی کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور خانقاہی نظام کا زوال، قوالی میں طرح طرح کے سازوں کی شمولیت، شریعت کی پابندیوں کا خیال کم ہوتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عام لوگوں کی چیز ہو گئی، فلمیں بننے لگیں تو بہت سے تجربات ہوئے، خیال آیا کہ قوالی کو بھی فلم کا حصہ بنا کے دیکھنا چاہیے پھر ایک اور نیا سلسلہ شروع ہوگیا، اصل مقصد تو کہیں کھو گیا لیکن اس کی عمومی مقبولیت بڑھتی ہی چلی گئی، اب وہ شکل تو باقی ہی نہیں جو خانقاہوں میں پڑھی جاتی ہے، مختلف قسم کی ویڈیوز اور رکاڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بناوٹی اور مصنوعی طریقۂ کار سے اس کی اصل حالت ختم ہوگئی۔

    بہار کے قوال کی ڈائری اگر دیکھیے تو ان میں عربی و فارسی اشعار پر مشتمل عمدہ انتخاب ملے گا یعنی حضرت عمر اور حضرت علی سے لے کر مشہور و معروف شعرا کی تخلیقات شامل کی گئ ہیں، اس میں عربی کی اہم نعتیں بھی شامل ہیں، فارسی شعرا میں احمدؔ جام، حافظؔ شیرازی، نظامیؔ گنجوی، مولانا جلال الدین رومیؔ، مرزا عبدالقادر بیدلؔ، شیخ سعدیؔ، خواجہ ابوسعید ابوالخیر، فخرالدینؔ عراقی، خواجہ عطارؔ، امیر خسروؔ، جان محمد قدسیؔ، شمسؔ مغربی، عثمانؔ مروندی، امیر حسنؔ سجزی، احمدؔ بلخی لنگر دریا، شاہ نیازؔ احمد بریلوی، شاہ ابوالحسن فردؔ پھلواروی، مرزا غالبؔ، جگرؔ مرادآبادی اور علامہ اقبالؔ وغیرہ نے بھی اہم عرفانی تخلیقات پیش کی ہیں۔

    اسی طرح اگر بہار کے اردو شعرا پر توجہ دیجیے تو ان میں سب سے نمایاں نام حضرت شاہ اکبرؔ داناپوری کا ملے گا جن کے درجنوں کلام مقبول خاص و عام ہیں، بہار کا شاید ہی کوئی قوال یا موسقی کار ہوگا جس نے آپ کے کلام پر مشق نہ کی ہو، اردو کے بہاری شعرا جن کے کلام قوال پڑھتے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔

    حضرت شرف الدین احمد یحییٰ منیری، خواجہ رکن الدین عشقؔ، مرزا محمد علی فدویؔ، شاہ نورالحق تپاںؔ پھلواروی، قاضی محمد رافقؔ، مخدوم سجاد پاک ساجدؔ، شاہ علی حبیب نصرؔ پھلواروی، خواجہ قیام الدین اصدق، شاہ مبتلا حسین کیفیؔ عظیم آبادی، شاہ اکبرؔ داناپوری، شاہ امین احمد فردوسی، صوفیؔ منیری، امداد امام اثرؔ، شاہ چاندؔ اشرفی، حسنؔ جان شہسرامی، تصدق علی اسدؔ، کششؔ پھلواروی، قاضی مظاہرؔ امام، خواجہ حمیدؔالدین نقشبندی، شاہ حیاتؔ احمد فردوسی، شیخ ادریس سیرداؔ عظیم آبادی، شاہ محمودؔالحسن شہسرامی، شاہ سلطانؔ احمد چشتی، شاہ ظفرؔ سجاد داناپوری، شاہ ایوب ابدالی نیرؔ اسلام پوری، افضلؔ حسین اصدقی، شاہ مسعودؔالحسن شہسرامی، صفیؔ العالم شہبازی، شاہ مراداللہ اثرؔ منیری، فائقؔ شہبازی، شاہ فداؔ حسین فیاضی، معیزؔ بلخی، شاہ قسیمؔ الدین احمد شرفی، اشتیاق عالم ضیاؔ شہبازی، فریدؔ عمادی، شاہ برہانؔ الدین احمد منیری، ان کے کلام کے علاوہ کچھ نامعلوم کلام بھی ہیں۔

    قوالی، فن موسیقی کی ایک ایسی صنف ہے جس میں ساز و آہنگ کے ساتھ خالقِ حقیقی کی حمد و ثنا بیان کی جاتی ہے، ان دنوں ایک مرتبہ پھر قوالی اپنے عروج پر ہے کیوں کہ اسے نیا انداز دیا گیا ہے جو نئی نسل کو بھا رہا ہے، اب تو شادی بیاہ کے موقعوں پر اور یونیورسٹیز کی تقاریب میں بھی ’’شامِ قوالی‘‘ اور ’’محفلِ قوالی‘‘ کا اہتمام ہونے لگا ہے، اس فن کو پھر سے زندہ کرنے میں سابقہ قوالوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، بہار نے متعدد ایسے قوال پیدا کیے جنہوں نے اچھی شہرت پائی بالخصوص خانقاہی قوال جن کا شمار صفِ اول میں ہوتا ہے۔

    لیاقت حسین قوال بہار شریف کے رہنے والے تھے، وہ گاتے بجاتے تھے، آواز میں تو کوئی خاص بات نہ تھی لیکن ہارمونیم اچھا بجاتے تھے، بہار شریف کے خانقاہ محلہ سے متصل نشیمن کے قریب ان کا خاندان ایک عرصہ سے مقیم ہے، بدرالحسن عمادی ان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

    ’’یہ کھانا تو مولوی یوسف حسین اونریری مجسٹریٹ کے یہاں کھاتے تھے اور بڑے ہی وضع دار آدمی تھے، دبلے پتلے آدمی مگر لباس نہایت نفیس، پور پور انگوٹھیاں جواہرات کی رکھتے تھے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۷۱۰)

    در اصل لیاقت حسین کی یہ ہستی نہ تھی مگر طوائفوں کے یہاں ان کو روز گھومنا ان لوگوں کے لیے انگوٹھی لانا، نوجوان رئیس زادوں کے ہاتھ فروخت کرنا، گھنگرو والے بان، خضاب لگانا اور پان لگانا ان کا روزگار تھا، ایک ایک ڈبّا پان ان کا رئیسوں کے یہاں مقرر تھا اور دس روپیہ ماہوار پان کی قیمت ان کو رئیسوں کے یہاں سے ملتی تھی، اس وقت کے لوگ کس طرح لوگوں کی پرورش کرتے تھے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے، بدرالحسن عمادی اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ

    ’’سیکڑوں آدمی ایسے دیکھے جو ٹھاٹھ میں رئیسوں کا مقابلہ کرتے تھے، ہستی کچھ نہیں دوسروں کے سر کھانا مگر اندازِ رہائش ایسا کہ اب کہ رئیس زادوں کو نصیب نہیں ہے، باہر نکلے تو وہ ٹھاٹھ کے اعجب آدمی ایسوں کو نواب زادہ جانتے تھے، ایسے لوگ لمبی لفافہ والے اب بھی بہت ہیں جو فقط لمبی لفافہ دار ہیں اور ہستی کچھ نہیں ہے، کمانے والوں سے زیادہ عافیت کی زندگی نکموں اور بے فکروں کے اس وقت بھی گذرتی تھی اور آج بھی گذرتی ہے، دراصل الجھن کی چیز بی بی بچہ ہے، اس وقت بھی آج بھی اہل و عیال والے پریشان زندگی گذارتے ہیں، لنڈورے اکیلے ذات تو بڑی آرام سے گذار لیتے ہیں، ان کا آخری حصہ عمر بہت برا گذرتا ہے، لنڈورے جب مرض الموت یا بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، اس وقت بجز خدا کے ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہتا اور سخت مصیبت میں پڑتے ہیں‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۷۱۰)

    یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ قوال کی جب تک آواز سلامت ہے اس کی آؤ بھگت خوب ہوتی ہے، آواز کے ڈھلنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی شخصیت بھی مرتی جاتی ہے، ایسا ہی کچھ لیاقت حسین کے ساتھ بھی ہوا جب مرے تو کوئی پرسانِ حال نہ تھا، مولوی محمد حسین اور مولوی یوسف حسین کے مصاحب نے جو گورکھ پور یا اعظم گڑھ کے رہنے والے خدا پرست آدمی تھے، انہوں نے تجہیز و تکفین میں پوری مدد کی اوریہ زیرِ زمین ہوئے۔

    چند روزہ ہر کجا خواہی برو

    بازگشتہ آخری کا رت منم

    لیاقت حسین نےاپنے خاندان کے دوسرے افراد کو بھی اس فن سے باندھے رکھا، ہر چند وہ اپنا نام اس فن میں پیدا نہ کر سکے مگر اپنے عزیزوں کو پٹنہ لاکر گنپت راؤ کی صحبت میں ڈال دیا، گنپت راؤ ایک مشہور عورت کے شاگرد تھے اور ہارمونیم میں استاد کہے جاتے تھے، ان میں آپ کے بھانجے غفور جان بن علی جان قوال اچھا بجاتے تھے اور راجہ رجواڑو میں کماتے تھے، علی جان کو بیعت خانقاہ عمادیہ، منگل تالاب کے سجادہ نشیں حضرت شاہ امیرالحق عمادی سے تھا، ان کو دو لڑکے تھے غفور جان اور نظیر جان، نظیر بھی گا لیتے تھے، ان کے متعلق بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ

    ’’غفور اور نذیر دونوں لڑکے مدتوں مولوی یوسف حسین آنریری مجسٹریٹ کے یہاں رہتے تھے، یہ لوگ گنپت راؤ کے پاس گئے اور گانا بجانا سیکھے۔۔۔علم و دانست سے زیادہ ان کے ٹھاٹھ میں مزہ آتا ہے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۷۱۰۔۸۶۶)

    طبلہ کا ہنر ایک زمانے میں عظیم آباد میں خوب رہا، باضابطہ اس کی مشق کرائی جاتی تھی اور اس کو سننے والے بھی خاصی تعداد میں تھے، چند مشہور اور باثر افراد جنہوں نے بہار میں اس فن میں اپنی پہچان بنائی ان میں علی قدر، میاں ننھے، میاں چھوٹو وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    علی قدر پٹنہ کے شاہ کی املی میں رہتے تھے، یہ بہترین استاد طبلے کے تھے، دور دور کے لوگ ان کو استاد مانتے تھے، اسی گھر میں ایک لڑکا بہترین شاعر گذرا ہے، یہ خداداد بات ہے، دوسرا لڑکا بہترین خوش آواز ہے جو گاتے ہیں ان کی یادگار ہنوز موجود ہے، علی قدر کا دونوں ہاتھ کلائی کے پاس سے لوہے کا معلوم ہوتا تھا، بجاتے وقت ان کے جسم کو لغزش نہ ہوتی تھی جیسا کہ طبلہ بجاتے وقت لرزہ نما کیفیت دکھاتے ہیں، ان کے بعد حفیظ بھی طبلہ اچھا بجاتے تھے۔

    یوں تو پٹنہ میں درجنوں طبلہ باز ہوئے مگر ان میں یہ دونوں ہمیشہ قابل الذکر رہے، یہ دونوں مزاجاً اچھے تھے اور لوگوں کی طرح مغرور نہیں تھے، بدرالحسن اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    ’’موسیقی جاننے والے یا وہ گویّا اور نازے انداز کرنے والے ضرور ہوا کرتے ہیں، یہ لوگ تو ناز سکھانے والے استاد ہوا کرتے ہیں، ناز و نخرے بھاؤ عورتوں کو یہی لوگ سکھاتے ہیں، تالوں کو یہی بتاتے ہیں، چتوں میں لچک تو یہی پیدا کراتے ہیں، ان لوگوں کا مزاج تو یقینی انچا رہنا لازمی ہے مگر ان دونوں میں مغروریت کا مادہ پایا نہ گیا، جب آدمی کامل فن رہتا ہے تو دھیمے مزاج کا ہو جاتا ہے اور بے نیاز رہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میرا کمال ہی خودداری کے لیے کافی ہے جو جتنا ناقص الکمال رہتا ہے، اتنا ہی بنتا ہے اور اپنے کو انچا دکھانا چاہتا ہے جو باتیں حقیقتاً اس میں نہیں ہیں، اس کا جھوٹا تیور دکھانے کے غرض سے نمائشی باتوں کو عمل میں لاتا ہے، شریفوں میں منشی الفت رائے سے بہتر طبلہ کوئی نہیں بجاتا، ان کے بہترے شریف شاگرد بھی ہیں، مڑہاری اور گویّے کا یہ دستور ہے کہ وہ شریفوں کو شاگرد نہیں کرتے، اگر کرتے بھی ہیں تو رموز فن چھپا رکھتے ہیں، یہ جب بتائیں گے تو چھوٹی قوموں کو بتائیں گے شرفا سے چوری رکھیں گے، ہزاروں روپیہ دیجیے مگر فن حاصل نہیں ہوگا، اسی سے موسیقی اچھے لوگوں میں کمیاب ہے اس کے اندر راز ہے، شرفا ماہرین موسیقی نہ رہیں گے تو جاہلانہ تعریف کریں گے، پیسہ حاصل ہوں گے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۵۹)

    میاں ننھے ان کا رنگ کالا، کم قد کے آدمی تھے مگر بڑے وضع دار اور خوش لباس تھے، یہ بی چھوٹن اور بڑی طوائفوں کے ساتھ بجاتے تھے، ملک ظہور (سناواں) کے مکان میں پٹنہ سیٹی کے صدر گلی میں رہتے تھے بعد میں یہ مکان خان بہادر مولانا ضمیرالدین احمد کی اولاد کے قبضہ میں آ گیا، ننھے کا لباس فاخرانہ تھا، وہ باہر نکلتے تھے تو رئیس معلوم ہوتے تھے، مخملی شال پہنا کرتے تھے، بدرالحسن عمادی اپنا آنکھوں دیکھا حال لکھتے ہیں کہ

    ’’ان کی وضع بالکل لکھنؤ والی رئیسوں کی سی تھی اور بہت ہی خوش گپ تھے، انہوں نے اپنی زندگی ظاہری تو بہت عیش نما دکھایا کھانا یہ بی چھوٹن کے یہاں کھاتے تھے اور روز مرہ کا خرچ ملک ظہور کا ذمہ تھا، یہ پلٹو میاں کے ساتھ رہتے تھے، ملک ظہور ملک فضل حسین کے لڑکے تھے، ان لوگوں کی حیثیت بہت اچھی تھی ان لوگوں کو خود موسیقی کا شوق تھا، ملک ظہور ستار بہت عمدہ بجاتے تھے جہاں رئیسوں کو موسیقی کا شوق ہوا کرتا ہے، اس قسم کے لوگوں کا گذر ہو جاتا ہے، ان لوگوں کو معذوری بھی رہتی ہے، اچھے لوگ تو اس فن کے ماہر نایاب ہوتے ہیں پھر موسیقی تو اکیلے کی چیز نہیں ہے، طبلیہ جوڑیا تو لازمی ہے ورنہ سما نہیں گھٹتا اور موسیقی کا مزہ نہیں آتا‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۵۹)

    الغرض میاں ننھے کی ٹھاٹھ دار زندگی خوب گذری، اس طرح کا کوئی دوسرا آدمی پٹنہ میں پیدا نہیں ہوا، ضعیفی میں انتقال ہوا۔

    میاں چھوٹو یہ شگھروا میں بی چھٹن کے یہاں رہتے تھے، وضع شریفانہ تھی، اپنی زندگی اس وقت کے رئیسوں کی بدولت ٹھاٹھ سے گزاری اور سفید پوشی سے نباہ گئی رئیسوں میں بیٹھتے، گفتگو کے وقت بہت واقفیت کے آدمی معلوم ہوتے تھے، انہوں نے شگھروا کی سکونت کی وجہ کر بہت ہی آرام کی زندگی گذارا، ادھیڑ ہو کر مر گئے۔

    عنایت خاں یہ بنگال کے ایک ستاریہ تھے جو پٹنہ میں مدتوں رہے، ان سے بہتر ستار بجانے والا نہیں سنا گیا، یہیں کی سکونت اختیار کی، یہیں شہرت بھی پائی اور یہیں خاک میں ملے، صاحبِ یادگارِ روزگار لکھتے ہیں کہ

    ’’ان کے خاندان کا ایک لڑکا بھی مدت کے بعد تیار ہو کر آیا تھا، قریب قریب ویسا ہی تیار ہو رہا تھا، شگھروا میں بڑا جلسہ ہوا تھا پھر اس کا پتہ نہ چلا کیا ہو‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۶۱۹)

    تاج خاں یہ آپ اپنے فن میں بہترین گویّے تھے، دھرپت اور سوپن والی شہزادی کے استاد تھے، انہیں کی بہو امراؤ جان تھیں، تاج خاں نیپال میں ملازم تھے وہیں انتقال ہوا۔

    سارنگی بجانے والوں کی بھی ایک فہرست رہی تاہم مختصر لفظوں میں چند کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

    بہادر خاں سارنگی کے استاد تھے، گورہٹہ میں مکان تھا، صاحبِ یادگارِ روزگار لکھتے ہیں کہ

    ’’بہترین سارنگی بجانے والے ہزاروں آدمی کو سنا مگر جو رس ان کے ہاتھ میں خداداد ہے، وہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے، اس شہر کے استاد مانے جاتے ہیں، ان کے دل میں خود مزہ ہے جو رل سے او منگتا ہے وہ ہاتھ سے نکلتا ہے، یہ بدر بار ٹکاری راج میں ملازم ہوگئے ہیں اور اب رنڈیوں کے ساتھ بجانا چھوڑ دیا ہے جس جس رنڈی کو انہوں نے گوایا وہ پھولنے پھلنے لگی، اب تک جوان ہیں مگر دمّہ کی بیماری ہے، کمزور ہوگئے ہیں، مشاقی بھی کم ہوئی جاتی ہے، موسیقی اور حساب اور خوشنویشی تو مشاقی کی چیز ہے، چھوڑا اور وہ بات جاتی رہی، ابھی تک ان کے ہاتھ میں رس موجود ہے، اسی خاندان میں ان کے قرابت دار حیدر حسین اور ہدایت حسین ہیں، ان لوگوں کے ہاتھ میں وہ باتیں پیدا نہ ہوئیں‘‘(ص؍ ۸۶۳)

    امداد خاں بھی اسی خاندان کے آدمی تھے، انہوں نے کلکتہ میں بڑا نام پیدا کیا، یہ کلکتہ والی گوہر جان کے یہاں رہتے تھے، ان کے ساتھ بجاتے تھے، اونچی طوائف کی سنگت میں رہے، خوب کمایا خوب کھایا، خوب سیر کی خوب بانٹے، مزید رقمطراز ہیں کہ

    ’’انہوں نے مرچا مرچی کے قریب فتح پور بیریا کے آس پاس کچھ حصہ کچھ کاشت خریدا ہے، اپنی حیثیت اچھی بنا لی ہے، ان کے بھائی مرتضیٰ خاں ہیں، ان کی تقدیر پردیسی نہیں ہے، نہ وہ علم پا سکے نہ وہ نام پیدا ہوا، تقدیری بات ہے، ایک ہی ماں کی دو اولاد ہیں اور نصیب جدا جدا ہے، ان لوگوں کی کچھ پنشن لکھنؤ سے جو راقم کے ذریعہ سے کبھی کبھی وصول کرائی گئی ہے، یہ کلانوت ہیں، حیدر حسین اور ہدایت حسین وغیرہ سب اسی خاندان کے ہیں، بہادر خاں کے بھائی ہیں ان لوگوں میں قرابت داریاں ہیں‘‘(ص؍۸۶۴)

    اسی طرح سبھو گرو ایک ہندو استاد شہر میں معروف گذرے مگر ان لوگوں کے ایسے استاد نہ تھے ۔علم جانتے تھے یہ۔ رس ہاتھ میں نہ تھا، ان کے ہاتھ میں خدا نے کیا قدرت دی اور بجانے میں ایک خاص تاثیر تھی، ہروت گرو بھی پرانے استاد مشہور تھے وہ بھی تعلیم کے لائق تھے، عورتوں کو گوایا کرتے تھے، ابتدائی تعلیم کا اچھا سلیقہ ان کو تھا، تلی گرو بھی اس شہر میں مشہور سارنگی نواز گزرے ہیں، بھورے خاں استاد بھی اچھی دانست رکھتے تھے، تعلیم دیا کرتے تھے اور بعض بعض بھولے مانسوں کو بھی نیم تر شاگرد بنا رکھا تھا، ہردیو پنڈت خواجہ پورہ کے قریب جانی پور کے پاس کے رہنے والے اسرار میں استاد تھے، وہ چند بھائی تھے مگر ایک جگہ قرار نہیں تھا، گھومتے کماتے کھاتے اور مہاجنی کرتے تھے، بینی پانڈے دریاپور کے رہنے والے کا ہاتھ طبلے میں باوجود پنڈت ہونے کے بہت مشق تھا، وہ صاحبِ جائداد اور مندروں کے پوجاری تھے مگر کبھی اس فن کو کبھی پیشہ نہیں بنایا، مہراج گنج مندر میں ایک پنڈت پوجیر سی تھے، بہت ہی اچھا اسرار بجاتے اور خوب گاتے تھے، صاحبِ یادگارِ روزگار کہتے ہیں کہ ’’علم و دانست سے زیادہ ان کی ٹھاٹھ میں مزہ آتا تھا‘‘(ص؍۸۶۵) گورارہ محلہ میں ایک پنڈت جی تھے جو سوچی کے بغل میں رہتے تھے، ستار خوب بجاتے تھے اور بھجن کرتے تھے مگر اسے پیشہ نہیں بنایا، وزیر جان پانی پت کی رہنے والی بڑی گویا عورت تھیں، جب پٹنہ کے افراد کا جی بھر گیا تو مایوس ہوکر بنارس چلی گئیں، تقریباً 1900 کے آس پاس پٹنہ میں بنارس کا ایک اندھا خالی گھڑے پر طبلہ لا جواب بجاتا تھا، شہر کے افراد نے زیادہ توجہ نہ دی اور یہ بھی مایوس اپنے وطن کو گیا، اسی طرح 1890 کے قریب ایک بنگالی نوجوان آیا تھا جو منہ سے طبلہ بجاتا تھا، یہ بھی مایوس لوٹا، ان لوگوں کے فن کو کچھ دنوں تک شہرت ملی ۔اب کوئی جانتا بھی نہیں۔

    پٹنہ میں بعض ایسے فن بھی دیکھنے اور سننے میں آئے ہیں جو پہلے کبھی نہیں سنے گئے جیسے 1880 کے قریب چکارا بجانے والے تین فقیرائے تھے، اس باجہ سے شہر کے لوگ واقف بھی نہیں تھے تو بجانا تو دور کی بات ہے، یہ سارنگی کی قسم کے تین تار اور پانچ طربوں کا ساز جس میں نیچے کی طرف چمڑے سے منڈھا ایک کٹورا ہوتا ہے، چمڑے کے اوپر سے گئے ہوئے تاروں کی کمانی یا گز سے رگڑنے پر ساز سے آواز نکلتی ہے، یہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں تو بجائے جاتے ہیں پر میرا خیال ہے کہ بہار میں یہ پہلے موقع تھا جب اسے استعمال کیا گیا۔

    اسی طرح سونار ٹولی کے محفوظ خاں پہلے شخص گذرے ہیں جو بیگ پائپ لاکر بجاتے تھے، یہ فن بھی اب نایاب ہے، میر سلامت علی جسے اب ماسلامی کہتے ہیں وہاں جھمن خلیفہ بہترین شاہنائی بجانے والے شہر میں مشہور آدمی گذرے ہیں، اس فن میں ان کے جانشیں استاد بفاتی میاں ہوئے، اسی طرح لودی کٹرہ کے روشن باجہ والا پہلا شخص ہوا جس نے ہینڈو کلارنٹ ویگ پائپ کی تعلیم لوگوں کو دیا، اس کے پہلے شہر میں اس عنوان کا باجہ نہ تھا، تمبور ڈھول نرم مورتیں سنگھا کا چمر بجتا تھا جو سادھوؤں کے ساتھ بجتا ہے۔

    بہار کے بعض قوال کی داستان بھی سنیے اور جی ہی جی میں لطف بھی لیجیے اور آنسوؤں کے چند قطرات بھی ان کے نام نذر کیجیے کہ کیسے کیسےصاحبِ فن بہار کی سرزمین پر پیدا ہوئے اور کچھ وقتوں کے بعد غروبِ آفتاب کی طرح سمٹ کر بے نام و نشاں ہوئے، اس وقت کے آداب و لحاظ کا یہ عالم تھا کہ جو خانقاہوں کی محافل میں شرکت کرتے وہ بعض دنیاوی محافل میں شریک نہ ہوتے، بلکہ ہر محافل کے لیے مختلف قوالوں کی جماعت ہوتی، ہم پہلے ایسے قوالوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کی شہرت شادیات، نوابین و رئیسان کے مخصوص محافل وغیرہ کے لئےمخصوص تھے، ان میں خیراتی خاں قوال امیٹھی کے سلون علاقے کے رہنے والے تھے، ستار خوب بجاتے تھے، ان کی برادری بہار کے بتیا میں رہتی تھی، وہیں ان لوگوں کی شادی بیاہ ہوتی تھی، خیراتی کا عقد بھی بتیا کے بشارت خاں قوال کی بہن سے ہوا ان سے مور خاں، معزز خاں اور بساون خاں قوال ہوئے، ان کے یہاں سرود ہر کوئی جانتا تھا، یہ مضراب سے بجایا جانے والا باجہ کہلاتا ہے، ان کے قرابت کا ایک لڑکا احمد خاں سرود جانتا تھا جو ان لوگوں کے بعد پٹنہ کبھی کبھی آتا تھا۔

    امین خاں قوال خسروپور کے رہنے وال تھے، ستار بجاتے تھے، شادیات وغیرہ میں جاتے اور رئیسوں کے یہاں سے پرورش پاتے تھے، ان کی چوکی کے زیادہ تر افراد نوادہ خسرو پور سے تعلق رکھتے تھے، یہ چوکی خانقاہوں میں ممدوح نہیں تھی۔

    کالے خاں قوال نوادہ کے رہنے والے تھے، ان کی چوکی کو ایک زمانے میں عروج ہوا تھا۔ اسی وقت لودی کٹرہ میں مقیم ہوگئے پر ان کی کمائی قوالی سے زیادہ نہ ہوئی، بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ

    ’’ان کا لڑکا ماجد جوان مرگیا، یہ لوگ رئیسوں کے ساتھ رہے اور وہیں سے پرورش پاتے رہے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍ ۸۷۰)

    اب بعض بہار کی خانقاہوں کی محافل میں شرکت کرنے والی جماعت کا تذکرہ بھی سنیے کہ اب ان میں سے چند ہی جماعت باقی رہ گئی ہے، قوالوں کی بستی بہار شریف کے خانقاہ محلہ سے متصل نشیمن کے قریب، شہسرام کے عدم خاں بستی اور اب پھلواری شریف میں ان کی برادری رہتی ہے جو اس فن کی پاسداری کر رہی ہے، اب تو یہ حال ہے کہ خانقاہی قوال عرس و اعراس کی محافل میں بھی گاتے ہیں، شادی بیاہ کے موقع پر بھی اپنا فن پیش کرتے ہیں اور موجودہ کلچر میں مقابلہ جاتی قوالی جو عورت و مرد کے مابین ہوتی ہے اس میں بھی حصہ لیتے ہیں، ہاں البتہ اس کی ایک وجہ سامنے آئی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اعراس و محافل میں کمی آ رہی ہے، خانقاہوں کی سالانہ محافل یا دو تین محافل کے لیے وہ اس پیشے کو مخصوص نہیں رکھ سکتے بلکہ اس کے ساتھ دوسرے کاموں کی طرف بھی توجہ دینا ان کی ذاتی زندگی کے لیے بھی ضروری ہوتی ہے، اس لیے وہ ہر طرح کی محافل میں اب شریک ہوتے ہیں اور اپنی زندگی گزر بسر کرتے ہیں، یہ رواج ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں تو بہت پہلے رائج ہوچکا ہے مگر بہار کے قوال اب اس طرف قدم بڑھانا شروع کر رہے ہیں، بعض قوال تو اپنی اولاد کو روزگار کے لیے دوسرا فن سکھانے پر توجہ دے رہے ہیں، قوالوں کی معاشی زندگی پر اگر توجہ دی جائے تو وہ ہر دور میں قوالی کے ساتھ ساتھ رقعہ لانا پہنچانا، دعوت دینا، خانقاہوں کی خدمت، انگوٹھی، پان، خضاب اور عطر و لوہبان کی خرید و فروخت کرنا ان کا پیشہ تھا، موجودہ عہد میں اگر دیکھا جائے تو بعض بیڑی وغیرہ کا پیشہ رکھتے ہیں، خیر! ہم چند قوالوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

    ایک نظر شہسرام کی برادری پر بھی ڈالتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ حضرت مخدوم ابوالفتح چشتی نے جو حضرت بابا فرید گنجِ شکر کی اولاد میں ہیں اپنے صاحبزادوں کو مختلف مقامات پر اپنا مازون و مجاز بناکر غازی پور سے روانہ کیا، ان میں سے ایک حضرت مخدوم محمد صالح چشتی ہیں، حضرت ابوالفتح نے خرقہ و خلافت اور شہسرام کی ولایت عطا فرما کر شہسرام کے لیے رخصت کیا، آپ مع اہلِ عیال ایک قافلہ کے ساتھ جس میں قوال، کمہار اور چوڑی فروش وغیرہ شامل تھے ۹۰۰ھ میں شہسرام میں رونق افروز ہوئے، ان قوالوں کو شہسرام کے محلہ املی آدم خاں میں آباد کیا گیا، اب تو یہ محلہ قوال ٹولی کہلاتا ہے۔

    بنو اور اسمٰعیل شہسرام کے قوال اور آپس میں بھائی تھے، بڑے خوبصورت لوگ تھے، ہارمونیم اور ستار اچھا بجاتے تھے، قوالوں میں یہ گویّے مشہور تھے، با ترکیب گاتے تھے، ان لوگوں کا زمانہ اچھا تھا، بدرالحسن عمادی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    ’’یہ لوگ گیا میں تجارت بھی کرتے تھے، دونوں بھائی تجارت کرنے لگے، بنو جوانی میں مر گئے، اسمٰعیل زندہ ہیں‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۷۲)

    بخشی قوال بھی شہسرام کے تھے، ان کو زیادہ عروج نہ ہوا، صاحبِ اولاد ہوئے۔

    عبداللہ اور حرمت دو بھائی تھے، رہنے والے شہسرام کے تھے، عبداللہ شرح وقایہ تک پڑھے ہوئے تھے، ان سے بہتر مخرج الفاظ گانے میں کوئی نہیں نکال سکتا تھا، جس غزل کو گاتے تھے معنی و مفہوم کو سمجھ کر گاتے تھے، حرمت ڈھولک بجاتے تھے، مشائخ میں بھی پسند کیے جاتے تھے کہ نوجوان لڑکا مرگیا جب سے ان کی حالت خراب ہوگئی تھی پھر وہ بات پیدا نہ ہوئی۔

    پناہ علی شہسرام کے رہنے والے قوال گانے میں استاد کہلاتے تھے، ستار دانشت کے ساتھ بجاتے تھے، پکا گانا بھی گاتے تھے، صاحبِ یادگارِ روزگار آپ کے تعلق سے تبصرہ کرتے ہیں کہ

    ’’بوڑھے اور کبڑے آدمی تھے، قوالوں میں ان کی عزت اچھی تھی، رؤسا اور مشایخین بھی پسند کرتے تھے مگر ان کے گانے میں مجلس روشن نہیں ہوتی تھی، پکے گانے میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی کہ مشائخوں کو لذت ملے، ان کے لیے رواں گانا اور چلتے ہوئے اشعار کی ضرورت ہے، وہ علمِ موسیقی کی لذت نہیں پاتے، موسیقی جو حرام ہے وہ پکا گانا ہوسکتا ہے، اس میں ارواح کو تڑپ کی لذت نہیں ملتی، عمدہ مضمون والے گانے کو فقرا پسند کرتے ہیں، پکے گانے میں روحانیت کو فائدہ نہیں ملتا، اس لیے قوالوں کا خاص فرقہ تیار کیا گیا، ان کو تال و سر کی ضرورت نہیں رہی، الفاظ کو چیخ کر بلند کر دینا، کافی ہے زندہ پیر کو اچھالنا کون کمال ہے، وہ لوکا سب لوگوں کے جذبات ذاتی میں بھر تنگو والے تو مردے بھوتوں کو شیشہ میں اتار لیتے ہیں، بیٹھکی کا گانا تو پورا بھر تنگو ہے، شکور ہارمونیم والے اسی خاندان کے ہیں، جوانی میں بہت حسین تھے، اب وہ تجارت کرتے ہیں، قوالوں کے جتھے نوادہ بہار، پھلواری اور شہسرام میں ہیں، کچھ الہ آباد میں ہیں کچھ خیرآباد ہیں کچھ دہلی والے ہیں، پچھم کی قوالی اور صوبۂ بہار کی قوالی میں بڑا فرق ہے، پچھم والے دوہا ملا کر اردو کی غزل بہت گاتے ہیں، اب جہالت بڑھ گئی ہے، فارسیت غائب ہے، عوام اردو پسند ہیں اس لیے قوال بھی اسی پر اتارو ہوگئے ہیں، رنڈیاں بھی زیادہ تر اردو ہی گاتی ہیں، قوالی دھن آسان ہے، بس جس طائفہ کو بھی دیکھیے قوالی دھن اندھا دھن جاری ہے، اب راگ کہاں معلومات کہاں؟ ٹھمری کدھر، ٹپہ کدھر، خیال تدادو، دھرپت غائب، جب یہ چیزیں نہیں ہیں تو گویّے اپنا وقت کیوں ضائع کریں اور کاہے کو سیکھیں کس کے لیے محنت کریں، الغرض اب موسیقی بھی ذبح کر دیں گے‘‘

    اب گانا بجانا بھی خود رواں ہے، لے کس کو کہتے ہیں، سم کہاں پر ہے، سار کہاں پر ہے اور تال کہاں پر ہے، سر کس جانور کا نام ہے جو گانے کے شوقین اور دھرپت کار ہیں ان کو اب گانے کا لطف نہیں ملتا، عام پسند گانا جاری ہوگیا، صوبۂ بہار میں ہنوز ہیپت کی دھن ایک خاص چیز ہے جو پچھم والے نہیں جانتے، یہ خاص صوبۂ بہار کی چیز ہے، اسے عورتیں عام طور پر گاتی ہیں جو ایک پرتاثیر دھن ہے، اب کسی قوال یا طائفہ پر راگ کی فرمائش کی جائے تو دو چار ہی ادا کر سکتی ہیں، رفتہ رفتہ ہر قسم کا علم اور ہنر سب غائب ہوتا جا رہا ہے، کتابوں میں علوم و ہنر کی خبر رہ جائے گی، چندے بعد ظاہری وجود باقی نہیں رہے گا۔

    مدار بخش خاں بہار کے ایک کامیاب اور بہترین قوال تسلیم کیے جاتے تھے، ان کی آواز میں تہذیب و شائستگی تھی، فارسی کلام جابجا پڑھتے، ٹھمری اور گیت پر مشق تھی، خاص بات یہ تھی کہ محفل کے مطابق کلام سناتے اس لیے مشائخ کے پسندیدہ قوال بنے، زیادہ تر محافل میں آپ کو بلایا جاتا اور دور دور تک پہنچتے، اس زمانہ میں قوالوں کے نذر کی شکل تھوڑی مختلف تھی کہ اگر کوئی کلام یا شعر مشائخ کو پسند آتا تو وہ اپنی کوئی پسندیدہ چیز قوال کو نذر کر دیتے جیسے رومال، کلاہ، پٹکہ، چادر اور بعض دفعہ روپیے پیسے بھی دیتے جسے نوابین قوال کو اچھی قیمت دے کر خرید لیتے، مدار بخش کی ایک محفل کا ذکر حضرت شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں کیا ہے، لکھتے ہیں کہ

    ’’ایک روز شہر چھپرہ محلہ کریم چک حضرت حکیم سید شاہ مظہر حسین صاحب قدس اللہ سرہٗ کی خانقاہ میں عرس کی مجلس تھی، حضرت قطب العصر(شاہ قمرالدین حسین) بھی عظیم آباد سے تشریف لائے تھے اور جناب خواجہ سلطان جان صاحب اور جناب خواجہ میرن جان صاحب اور جناب سید شاہ علی حسین صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب کساروی وغیرہم سب حضرت قطب العصر کے ہمرکاب تھے، اس مجلس میں میاں مدار بخش قوال نے یہ غزل شروع کی۔

    تیغ در کفش دیدم، خون من بجوش آمد

    خندہ زد گلِ زخمم نالہ در خروش آمد

    حضرت قطب العصر کو وجد طاری ہوا، ریشِ مبارک کے بال اس طرح سے کھڑے ہوگئے جیسے سوزن اور باریک باریک فوارے خون کے ہر بن منہ سے اُڑنے لگے جو لوگ کے حلقہ میں حاضر تھے، سب کے کپڑے خون سے تر ہوگئے، حضرت قطب العصر کا قمیصِ مبارک افشاں ہوگیا، تمام حاضرینِ مجلس شریف بے خود ہوگئے‘‘(ص؍ ۲۱)

    اس محفل میں حضرت قطب العصر کا خون آلود کپڑا بطور تبرک خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور میں موجود ہے جس کی ہر سال ۱۵؍ رجب کو صبح کے وقت زیارت کرائی جاتی ہے۔

    مدار بخش کے بعد ان کے صاحبزادے نبی بخش بھی اچھے قوال ہوئے، صحیح معنوں میں والد کے جانشیں تھے، مشائخ کے پسندیدہ قوال ہوئے، بقول شاہ حسین الدین احمد کہ جب حضرت شاہ عطا حسین فانیؔ رحلت فرما گئے تو حسبِ وصیت ان کی فارسی غزل جس کا مطلع یہ ہے۔

    چوں زد ام زلف او ایں دم رہائی یافتم

    شکر للہ بعد مدت جاں فدائی یافتم

    غسل و تکفین کے بعد عصر کے وقت نبی بخش خاں شہسرامی قوال غزل مذکور جنازہ پر پڑھی۔(ذکرِ عطا، ص؍۸۱)

    نبی بخش خاں کے بعد ان کے خاندان میں عبدالعزیز خاں، آلِ نبی خاں، آلِ بخش اور نور نبی خاں وغیرہ ہوئے یہ سب باضابطہ قوال تھے، خوبصورت لوگ تھے، آواز بھی اچھی تھی، بزرگوں کے خوب سارے کلام زبانی یاد تھے، نور نبی خاں عرف جوکھو کے بیٹے فخرالنبی اس فن میں نہیں آئے انہوں نے بنارس میں تجارت شروع کردی اور اسی میں اپنی قسمت آزمایا۔

    اسی برادری میں محمد فہیم رضا خاں قوال کی چوکی بہت مشہور ہوئی، ان کے والد امیر رضا بن محمد رضا سب قوال تھے، شہسرام ان کا مولد و مسکن تھا، فہیم رضا پانچ بھائی تھے، لطیف رضا، فہیم رضا، صفدر رضا، حیدر رضا اور قیام رضا، یہ سب برادران کی چوکی ایک تھی، فہیم کی شہرت شہسرام، گیا، نوادہ میں خوب ہوئی، یہ غلام نبی خاں قوال (بہار شریف کے داماد ہیں، ان کی آؤ بھگت اس اطراف کے علاقوں میں خوب تھی، فہیم کے دو بیٹے ہوئے مفید خاں اور انیس خاں، مفید کے بیٹے وزیر خاں کی اب الگ چوکی ہے، مشرقی بہار میں پسند کیے جاتے ہیں، انیس خاں اب اپنے سسرال پھلواری میں جا بسے، ان کی الگ چوکی ہے، بہار کی خانقاہوں میں پسند کیے جاتے ہیں، اب وہ بات نہ رہی جو پہلے تھی، روایت پسند قوال ہیں، کلام پختہ یاد ہیں، دور تک بلائے جاتے ہیں، بارگاہِ عشق کے ذریعہ بنگلہ دیش تک آؤ بھگت ہے۔

    نوادہ کے قریب مغل پورہ کی برادر اب تک میری نظر میں سب سے کامیاب چوکی گزری ہے جو لگاتار پانچ پشتوں سے بہار کی خانقاہوں کی زینت بنی ہوئی ہے، یہ خاندان بخشی خاں قوال کا ہے، ان لوگوں کی شروعات تو خانقاہ چشتیہ سے ہوئی، وہیں کی محفل سے ترقی پائے اور پھر پٹنہ کی طرف بلائے گئے۔

    بخشی خاں قوال اور شبو خاں قوال یہ دونوں اپنے بھائی تھے، رہنے والے نوادہ کے مغل پورہ کے تھے، ان لوگوں کو وہاں کی خانقاہ چشتیہ سے اعتقاد حاصل تھا، تمامی مشائخ کے یہاں آنا جانا تھا، بخشی خاں کے تین بیٹے تھے عبدالغنی خاں، یعقوب خاں اور عبدالرحیم خاں قوالان، بڑے بھائی عبدالغنی بہت جلد انتقال کر گئے، اس لیے یہ دو بھائی یعقوب خاں اور عبدالرحیم خاں قوال ہی ایک وقت تک خانقاہوں کی محافل میں گاتے، یعقوب خاں کو بیعت خانقاہ چشتیہ، نوآبادہ خرد کے سجادہ نشیں حضرت شاہ نصیرالدین چشتی سے تھی، عبدالرحیم خاں کو بیعت حضرت شاہ فیاض اصدقی سے تھی، صدیق خاں پھلواری شریف کترو خاں کے خاندان میں بیاہے اور پھر سسرال میں ہی جا بسے، یعقوب خاں قوال کے تعلقات بہت وسیع تھے، دور دور تک ان کی پہچان ہوچکی تھی، ستار لاجواب بجاتے جن لوگوں کو ان کی محفل یاد ہے وہ بڑے خوش نما انداز میں آپ کی تعریف کرتے ہیں، کلام شروع کرتے تھے تو پہلے صرف ستار بجاتے اور ایسا بول کاٹتے کہ ستار سے خود بخود لاالہ اللہ کی آواز آتی، لوگ اس کیفیت پر مست ہوتے پھر باضابطہ کلام پڑھتے، لباس بالکل رئیسوں جیسا پہنتے شیروانی اور شانہ پر پٹکہ اور دو پلا کی ٹوپی ان کا پسندیدہ لباس تھا، بہار کی تقریباً تمام خانقاہوں میں یعقوب کا چرچہ تھا، آپ کی چوکی کے صدر آپ خود ہوتے اور نائب عبدالرحیم خاں تھے، اس طرح ایک پوری ٹیم تیار تھی، خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، شاہ ٹولی، داناپور کی محافل میں یعقوب خاں کا ستار لاجواب بجتا جس پر کیفیت کرتے لوگ نعرہ مارتے، بعض کے بدن سے خون کی چھینٹ تک سامنے آتی، یعقوب معمول کے مطابق پہلے وضو کرتے، با ادب سجادہ نشیں کے روبرو بیٹھتے اور نیچی نگاہوں کے ساتھ عقیدتوں سے بھرا سلام پیش کرتے اور تقریباً ۲۰؍ منٹ ستار بجاتے اور ان کے ساتھی طبلہ اور ڈھولک پر اپنی مشق کرتے، یہ مشق مشق نہیں ہوتی بلکہ پورے کلام کے ترنم کی عکاسی ہوتی، بخشی خاں کی طرز پر یعقوب بھی حسبِ معمول محفل کی ابتدا حضرت شاہ اکبر داناپوری کی مشہور حمد سے کرتے۔

    اے بے نیاز مالک مالک ہے نام تیرا

    مجھ کو ہے ناز تجھ پر میں ہوں غلام تیرا

    بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ

    ’’اس شہر میں تمامی مشائخ کے یہاں یعقوب قوال ولد بخشی قوال کا بڑا دار دورہ ہوا‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۷۶)

    یعقوب خاں کے بعد ان کے صاحبزادے یوسف خاں اور پھر ان کے لڑکے مصری خاں ہوئے مگر یعقوب کے بعد عبدالرحیم خاں کے صاحبزادے کریم خاں قوال مشہور ہوئے، یہ حضرت شاہ فریدالحق عمادی کے مرید اور فہیم خاں قوال (شہسرام) کے داماد ہیں، اب ان کے لڑکوں پرویز احمد خاں، ممتاز احمد خاں، مہتاب احمد خاں، مستقیم احمد خاں اور نیاز احمد خاں قوالان بہار کی خانقاہوں کے با اثر قوال ہیں، مشق بھی کر رہے ہیں اور اچھا گاتے ہیں، اب انہیں کی چوکی مشہور ہے، پرویز احمد خاں اور مہتاب احمد خاں یہ دونوں لائق ہیں، اس خاندان کی چوکی کو ان سے زینت ہے۔

    بہار شریف میں قوالوں کا ایک عہد تک خوب عروج رہا، طرح طرح کی قوالیاں، ٹھمریاں، راگ اور فقرے گاتے تھے، یہ ایک نایاب کلیکشن تھا، بعض تو مقامی بولی پر مشتمل ایک انتخاب تھا جسے قوال سے فرمائش پر سنا جاتا ہے، یہ مختلف لوگوں کی ٹھمریاں، گیت اور کچھ ابیات تھے، زمانہ کی گردشوں کے ساتھ ساتھ اس کے پڑھنے والے اور اس کے شوقین سب ختم ہوگئے، محمد رضا قوال بہار شریف کے رہنے والے اچھا گاتے اور ستار بجاتے تھے، یہ بارگاہِ عشق، میتن گھاٹ کے سجادہ نشیں خواجہ امجد حسین نقشبندی کے مرید تھے اور وہاں کے ذریعہ سے خوب نام کمایا اور ڈھاکہ تک ان کا گذر ہوگیا، ڈھاکہ کے نواب بارگاہِ عشق کے مرید تھے اس لیے ان کی آؤ بھگت بہت رہی۔

    صوبہ خاں اور ان کی چوکی بہار شریف کی تھی، نشیمن کے قریب ان کا محلہ ہے جہاں ان کی برادری رہتی ہے، خانقاہ معظم، بہار شریف کے معتقد ہیں، ان کے ناتی لوگ اچھے قوال تھے، حضرت شاہ حیات احمد فردوسی کے کلام کی دھن ان لوگوں نے ہی بنائی ہے، نوجوانی کے دنوں میں خانقاہوں میں آؤ بھگت رہی، یوسف خاں قوال بھی اسی برادری سے تعلق رکھتے، ان کی چوکی بہت مشہور تھی، مشائخ میں پسند خاطر تھے، یوسف کو خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف کے مرید تھے، بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ

    ’’یہ چوکی کسی قوال کے خاندان کی ہے، کبھی اپنے وقت میں مشہور گانے والے گذرے ہیں‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۶۹)

    غلام نبی خاں قوال بھی بڑے مشہور قوال ہوئے ہیں، ان کی چوکی نوادہ بہار میں مشہور رہی ہے، یہ پانچ بھائی تھے، غلام نبی خاں، صلاح الدین خاں، غلام مفتی خاں، چندو خان اور عباس خاں، اسی برادری میں پانچ بھائی حبیب خاں عرف حبّو، حسنین خاں، تاج الدین خاں عرف چجّو اور لڑکے اور تھے، حبّو خاں کی چوکی بہت مشہور رہی، انہوں نے اپنی برادری کو پھر سے زندہ کیا، کیا بوڑھا کیا جوان، کیا مرد کیا عورت، سب اس چوکی کے دیوانے ہوئے، فارسی، اردو، ہندوی، ٹھمری سب گاتے تھے، چجو خاں کے ایک بیٹے منہاج الدین تھے، اب یہ چوکی میں وہ بات نہیں ہے۔

    اسی طرح ایک چوکی غلام ذاکر خاں کی تھی، یہ بڑے نفیس اور عمدہ قسم کے لباس پہنتے تھے، ہر طرح سے خوب صورت معلوم ہوتے تھے، آواز میں ایک دبدبہ تھا، یہ بھی اسی برادری کے تھے، ان کی چوکی بھی مشائخ میں مشہور تھی، ان کے بعد ان کے بیٹوں کامل خاں، صمدانی خاں، غوثی خاں، وارث خاں مشہور قوال گزرے ہیں، تمام خانقاہوں میں ان کی آؤ بھگت تھی، غوثی خاں ان میں سب سے قابل اور سُر و تال کے ماہر تھے، آخر عمر تک قوالی پڑھتے رہے اور ہر جگہ پابندی سے شرکت کرتے، اب یہ چوکی کامل خاں کے بیٹے آفتاب عالم کے سپرد ہے، یہ بھی خانقاہوں میں پابندی سے گاتے ہیں۔

    پھلواری شریف میں قوالوں کا دور دورہ رہا ہے، غلام حسین قوال پھلواری شریف کے رہنے والے تھے، اپنے وقت میں آپ کی چوکی سب سے مشہور تھی، مشائخ کے پسندیدہ تھے، بزرگوں کے انتخاب کردہ کلام زیادہ پڑھتے، آداب و اصول سے بھی واقف تھے، بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ

    ’’قوالوں میں سب سے زیادہ نامور یہ چوکی گذری حالاں کہ گانا عمدہ نہ تھا مگر تمامی پرانے مشایخین ان کے گانے پر کیفیت کرتے اور بہت پسند کرتے تھے، وہ با اثر ہوتی تھی، بزرگوں کے کلام کا اثر تھا، ان لوگوں کے کلام مقامات کے ہوتے ہیں اور آدابِ مجلس نہیں جانتے، رنگِ مجلس نہیں پہچانتے، اس لیے لوگوں کو انقیاض و انشراح ہوتا رہتا ہے، پرانے قوال پرانے مشایخوں کی آنکھ دیکھنے والے ان کی صحبت پانے والے لوگوں کی طرف ان کی کیفیت کی طرف توجہ کر کے اس رنگ پر جاتے تھے، اس لیے سننے والوں کو مزہ آتا تھا، وہ لوگ پرتمیز اور تجربہ کار تھے، نہ وہ قوال ہیں نہ وہ مجلس ہے، نہ وہ وقت ہے، نہ ویسے سننے والے ہیں، نہ ویسے کا سب ہیں، نہ طالب، اب قوالوں کو روپیہ ملنا چاہیے، ایک رنگ ہے تو ایک ہی رنگ پر چلے جا رہے ہیں، وہ لوگ مجلس جماتے تھے، تین بھائی تین آواز کے تھے، تا ہم مجلس روشن تھی‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۷۰)

    آپ کے صاحبزادوں میں محمد کبیر اور محمد قدیر تھے، ان کی چوکی مشہور تھی، نتھے خاں اور محمد کبیر نے اچھا نام پیدا کیا، ابتدائی دنوں میں منشی محمد امیر کے دربار میں مدتوں اس کام پر ملازم رہے کہ رات کو وہ مراقب ہوتے اور ادھر قوال گاتے رہتے تھے، منشی صاحب کے مرنے کے بعد تک کبیر خاں کی چوکی خانقاہ میں بڑی ممتاز رہی، یہ لوگ بڑے اقبال مند گذرے ہیں، ستار خوب بجاتے تھے، قوالی کم کرتے تھے، آخر عمر میں ان کی تکلیف اور تنگی میں گذری، کبیر کے لڑکے کا نام صغیر ہے، بدرالحسن عمادی آپ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    ’’محمد کبیر جوان ہی مر گئے تھے کے آخری عمر خراب گذری، ان کے اولاد تھی مگر ان لوگوں نے اپنے والدین کی امداد اپنے عروج کے وقت میں نہ کیا، بجنسہٖ ان کی اولاد نے بھی ان کی خبر نہ لی، کبیر کے خاندان میں صغیر وغیرہ ہیں مگر اس خاندان کی حالت خراب ہوگئی، ہر آدمی کا خاص خاص اقبال ہوتا ہے اور اس کے دم کے ساتھ جاتا ہے، گھر میں سب اقبال مند نہیں پیدا ہوتے، کبیر کا بھائی قدیر تھا وہ تکلیف کی زندگی گذار گئے، ہر شخص میں اقبال و ادبار ضرور ہوتا ہے، ہر آدمی کو عروج و زوال لازمی ہے، دنیا میں کسی کی ایک ساں کٹتے نہیں دیکھا کسی کو بچپن میں کسی کو جوانی میں کسی کو بڑھاپے میں عروج ہوتا ہے، اس طرح اس تین زمانوں میں سے کسی ایک زمانے میں زوال بھی ضرور ہوتا ہے، یہ نظامِ عالم ہے مگر انسان اپنے وقت کو بھول جاتا ہے اور آئندہ وقت کو یاد نہیں کرتا، کسی کو کیا معلوم ہے کلمہ عروج ہوگا یا زوال، موجودہ وقت کو میراث جانتے ہیں اسی پر دائمی بھروسہ کر لیتے ہیں یہی انسانی غلطی ہے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍ ۸۷۱)

    کبیر قوال کے بعد اس کے بھانجے ہنجرو نے خاندان کا نام اونچا کیا، سب کے مرنے کے بعد پھر اس خاندان میں عروج ہوا، کبیر کے بعد اس لڑکے نے تمام خاندان کی پرورش کی اور صغیر بن کبیر کو اپنے ساتھ رکھا۔

    اسی طرح ناصری گنج، اورنگ آباد کے کریم خاں، ابرار خاں اور مشتاق خاں کی چوکی بھی رہی ہے، کریم خاں کے بیٹے غلام جیلانی اور سنّو بھی گاتے بجاتے ہیں، جہان آباد کے قریب میں نظام خاں، بشارت خاں اور الفو خاں قوال بھی مشہور ہوئے ہیں، کاکو کے قریب ان کی خوب آؤ بھگت تھی، یہ چوکی نوجوانوں کے لیے پسندیدہ تھی، اب وہ بات نہیں ہے، نوادہ میں ایک قوال قیصر وارثی ہیں، ارریہ کے ابرار خاں ہیں یہ سیوان میں رہتے ہیں اور وہاں کے قرب و جوار میں گاتے بجاتے ہیں، ایک قوال ردولی سے آئے تھے اور سیوان میں جابسے، نام ان کا امراؤ خاں تھا، یہ خانقاہ امجدیہ کے معتقد تھے، ابتدائی دنوں میں ان کی خوب شہرت تھی، پٹنہ تک بلائے جاتے تھے، ان کے دو بیٹے غلام جیلانی اور غلام ربانی بھی اسی فن سے جڑے رہے، اب غلام جیلانی کے بیٹے غلام سبحانی اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

    چند ایسے قوال کا تذکرہ بھی سن لیجیے جو دوسری ریاستوں سے آئے اور اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    صدیق خاں دلی گھرانے کے ایک رکن تھے، آپ کا خاندان اصل میں غازی پور سے متصل ایک دہی علاقہ دسنہ کا تھا جہاں سے آپ کے جد دہلی آئے اور پھر گوالیار، آگرہ، حیدرآباد وغیرہ میں زندگی بسر کی، موسیقی کا آغاز ان کے دادا قادر بخش نے کیا تھا، وہ اپنی موسیقی کو مزید فروغ دینے کے لیے دہلی کورٹ کے غلام حسین خاں عرف میاں اچپال کے شاگرد بنے اور اپنے بیٹوں کو بھی شاگردی میں ڈالا، ان کے چچا قطب بخش عرف تنرس خاں آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر دوم کے درباری موسیقار تھے، تنرس کا لقب انہیں بادشاہ نے دیا تھا، کبھی کبھار تنروس خاں قوالیاں بھی گاتے تھے، ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے بہت سے خیالوں اور ترانوں کو تنرس خاں نے کمپوز کیا تھا، یہ سب جانتے ہیں کہ پٹیالہ گھرانے کے بانیوں نے تنرس خاں کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی تھی، 1857ء کی بغاوت کے بعد وہ دہلی چھوڑ کر گوالیار چلے گئے لیکن محسوس کیا کہ وہاں ان کی زیادہ تعریف نہیں کی جا رہی، چنانچہ وہ حیدرآباد کے نظام دربار میں گئے اور وہاں کام کیا اور آخر کار 1885ء میں حیدرآباد میں وفات پائی۔

    صدیق خاں یہ ستار لاجواب بجاتے اور بلا مضراب بول کاٹتے اور راگ بجاتے تھے، اپنے فن میں لاجواب دانست کے آدمی تھے، ان کا خاندان قوالوں کا تھا، یہ پہلے اسلام پور میں ملازم رہے پھر خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت شاہ اکبر داناپوری کے مرید ہوگئے، قوالی بھی کرنے لگے، بی چھوٹی زہرہ کی لڑکی کو گانا سکھانے لگے، دھیرے دھیرے ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ آپ کی انوکھی آواز و انداز کی تعریف و توصیف کرنے لگے، جب شہرت خاصی بڑھ گئی تو فقیروں سے دور حیدرآباد کے نظام کے جانب مائل ہوئے، نظام ان سے متاثر ہوا اور اپنے یہاں رہنے کی دعوت دی لہٰذا ایک طویل عرصے تک نظامِ حیدرآباد کے لیے درباری گلوکار بن گئے اور اور خوب مال کمایا۔

    بدرالحسن عمادی لکھتے ہیں کہ

    ’’ان کے وقعت میں فرق آگیا، بڑھاپا بُری بلا ہے، عافیت کی زندگی گذارا ہوا آدمی آمدنی کم خرچ زیادہ ہوگیا۔ بڑھاپے میں ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں، اخراجاتِ کثیر آرام کے غرض سے بڑھ جاتے ہیں، آرام طلبی آ جاتی ہے، ضعف آ جاتا ہے، کمانے کی شکلیں بند ہو جاتی ہیں، صحت جواب دیتی ہے، محنت ہو نہیں سکتی، تکلیف تو لازمی ہے، مستقل آمدنی والے پریشان ہو جاتے ہیں، توکل کے آمدنی والے لوگوں کو کون پوچھتا ہے، ان کو شہر چھوڑنا پڑا، وطن میں ان کا لڑکا تیار ہو رہا ہے، کہیں ملازم ہے، رئیسوں کے لڑکے تو محنت سے بھاگتے ہیں، ہر نوجوان والدین کی زندگی تک لا پروا رہتا ہے، غربا کے لڑکے تو اور بھی آرام طلب ہوتے ہیں، جب تک نوجوانوں پر دنیاوی ضرورتوں کا پورا بوجھ نہ ڈالیں آدمی تلاشِ روزگار میں تکاسلی کرتا ہے‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍۸۶۲)

    اس دوران اپنے پیر و مرشد سے دور ہوگئے، جب زندگی ڈھلنے لگی تو آواز بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونے لگی ۔اس طرح آپ آگرہ اپنے پیر کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، حضرت شاہ اکبر داناپوری نے آپ کو دیکھتے ہی آگرے کی نرم زبان میں فرمایا کہ ارے میاں صدیق! کہاں تھے؟ سنو! یہ تازہ غزل لکھی ہے ذرا اس پر دھن تو بیٹھاؤ! ایک عرصے بعد حاضر ہونے پر بھی پیر کے لہجے میں ذرا بھی دبدبہ نہیں تھا، اپنی دھن میں حضرت کی یہ غزل پڑھنے لگے۔

    طالبِ وصل نا ہو آپ کو بیدادنہ کر

    حوصلہ حد سے زیادہ دلِ ناشاد نہ کر

    خاک جل کر ہو پر اُف اے دلِ ناشاد نہ کر

    دم بھی گھٹ کر جو نکل جائے تو فریاد نہ کر

    جب اس شعر پر صدیق خاں قوال پہنچے تو روتے ہوئے اپنے پیر کے قدموں کو تھام لیا۔

    آکے تربت پے میری غیر کو یاد نہ کر

    خاک ہونے پے تو مٹی میری برباد نہ کر

    اس کے بعد تاعمر اپنے پیر کے قدموں میں زندگی گزار دی، ان کے پوتے ظہیر احمد خاں بن عزیز احمد خاں نے ’’وارثی برادران‘‘ کا گروپ بنایا تھا۔

    علی بخش قوال کی چوکی تین آدمیوں کے ساتھ الہ آباد سے آیا کرتی تھی، زیادہ تر غزلیں ان کو حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی کی یاد تھی، وہیں گاتے تھے، فارسی غزلیں سلیقے سے پڑھتے، ایک خاص انداز تھا، وہ لوگ حضرت شاہ محمدی نیازی الہ آبادی کے مرید تھے، ربیع الاول میں آیا کرتے تھے اور باترتیب مجلس میں گاتے، مغل پورہ میں مولانا محمد سعید حسرتؔ عظیم آبادی کے یہاں ۱۰؍ تاریخ کو مجلس ہوتی تھی۔وہاں مقرری تھی، ۱۱؍ تاریخ کو خانقاہ عمادیہ، منگل تالاب میں مقرری تھی، ۲۵؍ تاریخ کو حضرت پیر دمڑیا سہروردی میں مقرری تھی، بدرالحسن عمادی تبصرہ کرتے ہیں کہ

    ’’راقم کے والد ماجد ۱۴؍ ربیع الاول کو مولود کرتے تھے، مجلسِ قوالی ہوتی تھی، طعام داری ہوتی تھی، باغ کے مکان میں کھانا کھلایا جاتا تھا، راقم کے لڑکوں نے اس مکان کو میدان کر دیا، چوں کہ راقم نے زبانی نذرالحسن کو دے دیا۔ عمارت غائب ہے، اس گروہ کی مقرری بھی سالانہ دی جاتی تھی‘‘(یادگارِ روزگار، ص؍ ۸۷۵)

    محمد عباس قوال گورکھ پور سے خلیل داس کے ساتھ شہر میں آئے تھے، یہ لوگ بہت اچھے قوال تھے، خوب اچھی قوالی جانتے تھے، مجلس کا رنگ خوب پہچانتے تھے، معیاری کلام پڑھتے، ایک خاص قسم کا ناز و انداز تھا۔

    خیرآباد کے قوال عبدالواحد اور اصغر حسین تقریباً ۱۹۰۵ کے آس پاس آتے تھے، ان لوگوں نے یہاں کے قوالوں سے زیادہ کمایا اور نام پیدا کر گئے، اس وقت قائم میاں حضرت شاہ فضل بنارسی سے مسترشد ہوئے تھے، شاہ فضل نے اپنی زندگی راجی کرکے گذارا، شہر میں حکیم محمد حسن ان کے مرید ہوئے، حکیم اسحاق نے ان سے ارشاد لیا اور بھی چند لوگ مرید ہوئے، ان کے زمانہ میں ان قوالوں کا بڑا عروج ہوا، شاہ فضل کے انتقال کے بعد پھر یہ لوگ نہیں آئے اور نہ چوکی کی حیثیت باقی رہی۔

    بعض طوائف کا مختصر حال بھی سن لیجیے کہ کس کس طرح طائفہ پٹنہ میں آ کر بسیں جن کے نام کی شہرت دور تک رہی، آج ان کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں، ان میں زیادہ تر لکھنؤ کی رہنے والی جیسے بی حیدر جان، بی رمزو، بی چھٹن، بڑی کنیز، بی حنا یہودن، اللہ جلائی، بی محمد باندی، راضیہ بیگم، بی بسم اللہ، بی ہرمزی، گورکھپور کی بی بستی اور کلکتہ کی بسنتو دھری اور آگرہ کی زہرہ بائی جو حضرت شاہ اکبر داناپوری کی مریدہ اور شاگردہ تھیں۔

    آگرہ کی زہرہ بائی اپنی والدہ کے ساتھ ۱۸۸۵ میں مہاراجہ دربھنگہ کے دربار میں پہنچی، بدرالدین احمد بدرؔ لکھتے ہیں کہ

    ’’یہ گاتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ در و دیوار سے نغمے پھوٹے پڑتے ہیں، فضا سے نغموں کی بارش ہو رہی ہے اور محفل میں راگنی دیوی اپنے جاہ و جلال کے ساتھ براجمان ہے، اس کے پاس دور دور سے گانوں کے ماہر اور استا آتے تھے اور کچھ نہ کچھ اس سے فیض حاصل کرکے لے ہی جاتے تھے‘‘(حقیقت بھی کہانی بھی، ص۳ ۱۶۵)

    زہرہ بائی کی موسیقی کو آگرہ میں استاد فیاض خاں اور پٹیالہ گھرانے کے بڑے غلام علی خاں نے بھی اختیار کیا، انہوں نے بعد میں ان چیزوں سے دوری اختیار کرلی، انہیں حضرت شاہ اکبر داناپوری سے بڑی عقیدت تھی، تائب ہونے کے بعد انہیں سے مرید بھی ہوئی اور انہیں سے اپنے اشعار پر اصلاح بھی لیتی رہی، اس کو شعر کہنے کا اچھا خاصہ مذاق تھا، انہیں میں سے دوچار شعر سنیے اور لطف لیجیے۔

    پی کے ہم تم جو چلے جھومتے میخانے سے

    جھک کے کچھ بات کہی شیشے نے پیمانے سے

    ہم نے دیکھی ہیں کسی شوخ کی مئے گوں آنکھیں

    ملتی جلتی ہیں چھلکتے ہوئے پیمانے سے

    (حقیقت بھی کہانی بھی، ص؍ ۱۶۶)

    مخدوم بخش بھی زہرہ بائی کے ساتھ بجاتے تھے، ان کو راگ کی دانست تھی، موسیقی میں استاد کہے جاتے تھے، شہر کی ایک عورت کے ساتھ ہو کر خود کو برباد کر دیے، ورنہ زمانہ میں نام پیدا کرتے، یہ عام طور سے اس وقت کے ماحول کا اثر تھا کہ زیادہ تر افراد اس میں ملوث ہوکر خود تباہ کرلیتے تھے۔

    بی حیدر جان پٹنہ میں نام مارگٹین ٹھمری ان پر ختم ہوگئی، لکھنو ال مرکیاں ان کی دم کے ساتھ گئی، ان کا عروج اس شہر میں بے حد ہوا، لکھنؤ میں بھی ہاتھی بندھا ہوا تھا، ان کا گذر بڑے دربار میں تھا، ان تک پہنچنا آسان نہ تھا، یادگار روزگار والے لکھتے ہیں کہ

    ’’صورت تو بدنما تھی مگر سیرت لاجواب تھی، آخر میں ان کے یہاں لکھنؤ میں چوری ہوئی اور حیثیت خراب ہوگئی وہ بھی مر گئیں‘‘(ص؍ ۸۷۶)

    راضیہ بیگم لکھنؤ سے پٹنہ آئیں تھیں، یہ بہترین صورت دار تھیں، ان کو مرتضیٰ سارنگی والے نے اپنے گھر لے جا کر رکھا، چند روز بعد یہ بری حالت سے لکھنؤ واپس گئیں، باوجود صورت داری ان کی مالی حالت برباد ہوگئی تھی، یہ کسی اچھے خاندان کی عورت تھیں، تقدیر نے طوائف بنا دیا تھا، ڈھاڑیوں کے پنجہ میں آکر برباد ہوئیں، یہ مسلمانوں میں گویوں کی ایک قوم ہوتی تھی جو بادشاہوں اور امیروں کی سواری کے آگے گاتی ہوئی جایا کرتی تھی، ان کی صحبت غنیمت ہے، یہ مخرب اخلاق صحت ہے، اچھے اچھے خیال والے کو ان کی صحبت شیطان مجسم بنا دیتی ہے۔

    بی بسم اللہ رہنے والی تو لکھنؤ کی تھیں، مدتوں پٹنہ سیٹی کی صدر گلی میں رہیں، یہ بہترین ناچ دکھاتی تھیں اور بتاتی تھیں، شہر میں دور دور تک ان کا نام تھا، ابتدا ان کی بڑی عیش سے گذری، انتہا ان کی لکھنؤ جا کر مرگئیں، بی جدن لکھنو والی شہر میں آئیں اور گئیں بہترین گانے والی ناچنے والی گذریں ۔ابتدا بہترین گذری انتہا خراب گذری ۔لکھنؤ والے جانتے ہیں ان کی خبر نہیں ہیں یا نہیں مگر غالباً نہیں ہیں ورنہ شہر میں ضرور آتیں۔

    بی ہرمزی لکھنو کی تھیں، شہر میں رہیں خوب نام کمایا، لکھنؤ جا کر کسی بڑے گھر میں متاہ میں رہیں، لکھتے ہیں کہ

    ’’صورت چیچک کے داغ کے ساتھ تھی، سیرت بہت اچھی تھی، بتاتے وقت بے انتہا خوب صورت معلوم ہوتی تھی، اس رئیس کے مرنے کے بعد اس کا حشر بھی اچھا نہ رہا‘‘(ص؍ ۸۷۷)

    گورکھپور کی بی بستی خوب صورت اور خوب سیرت تھیں، پٹنہ میں آئیں تو نام کمایا پھر صحت بگڑی، بیمار ہو کر گھر سے نکلی۔ اپنے گھر گئیں، دولت بھی گئی، عزت بھی گئی، جان بھی گئی، مر بھی گئی اور نام و نشان بھی مٹ گیا، یہ تو اصولِ دنیا ہے۔

    بسنتو اور دھری دونوں ماں بیٹی کلکتہ گئیں، دونوں کا زمانہ کلکتہ میں بہترین زمانہ تھا، دونوں عورتیں خوب صورتی میں مشہور تھیں اور آگرہ والی ملکہ نامی گرامی تھیں، شروعاتی دنوں میں قیامت کا چرچہ تھا پھر وہی پرانہ قصہ چراغ گل، اس طرح کے قصے تو درجنوں ہیں کیا لکھوں کیا چھوڑوں، اس عنوان پر لکھنا گویا خود پر عیب ڈالنے کے مترادف ہے مگر تاریخ کا یہ بھی ایک باب ہے۔

    پٹنہ کے افراد بڑے آن والے ہوتے ہیں، یہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے، زیر و زبر دونوں کی طاقت رکھتے ہیں، باہر کا جب بھی کوئی نامور آیا اس کے داشت کو ضرور توڑا، کیا اس شہر کا دستور ہے کوئی نیا آدمی کسی لائن کا جو آیا اس کی قدر شروع میں کرتے ہیں کہ اسے آسمانِ ہفتم تک پہنچا دیتے ہیں پھر جس طرح ہو سکتا ہے اس کو زمین کے نچلی حصوں تک کی سیر کرا دیتے ہیں، وہ بھی کیا یاد کریں گے کہ کس شہر میں گئے تھے، اب اس شہر کی عادت سے متعلق کیا لکھوں کیا نظر انداز کروں، ابتدا میں تو لوگ خود بے وقوف بن جاتے ہیں، اپنی دولت ضائع کرتے ہیں مگر آنے والوں کی دولت کو مٹا چھوڑتے ہیں، ابھی تک باہر والا ایسا نہ آیا جسے پوجا نہ گیا ہو، تعریفوں کے پل نہ باندھے گئے ہوں، بدنصیبی سے دوبار اگر آ گئے بس غضب ہوگیا اور نظروں سے اترتا چلا گیا، اول بار تو وہ نفع میں رہتے ہیں، دوسرے بار گھر کے جمع کھو کر جاتے ہیں اور سیکڑوں الزام اپنے سر لے جاتے ہیں، سیکڑوں شکایتیں سن کر جاتے ہیں، یہ تو اس شہر کی معمولی پرانی روش اور عادت ہے، راقم ابھی درجنوں نام انگلی پے گنا دے کہ کس کس افراد کا چراغ گل ہوا ہے، لودی کٹرہ کے کتنے صاحبان کا خاندان آج بسا ہوا ہے جن کے اجداد کی کل قیمت تھی وہ آج نام و نشاں بھی نہیں جانتے اور یہ تو دستور ہے کہ عروج و زوال ہر تین پشتوں میں اچھال مارتا ہے، کیسے کیسے افراد تھے، کیا کیا فن جانتے تھے، ہر چند کہ دوسری ریاستوں سے آ آ کر پٹنہ میں بستے تھے اور مال و دولت کماتے تھے، بات کہاں قوال اور قوالی کی چل رہی تھی اور دنیا اور دنیا پرستی کی بھث چھڑ گئی، خدا ہم سب کو بیتی ہوئی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔

    اگر ہم بہار کی خانقاہوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں بارگاہِ عشق، خانقاہ مجیبیہ اور خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کی مجلس کے قصہ یاد آتے ہیں، یہاں کی مجلس قوالی کے اعتبار سے بڑی کامیاب رہی ہیں، خود خواجہ رکن الدین عشقؔ قوالی سنتے اور خوب کیفیت کرتے تھے، بارگاہِ عشقؔ کے قصے آج بھی بہار میں مشہور ہیں، ایک مجلس کا تذکرہ ہے کہ قوال ساز چھیڑے ہوئے تھا اور کسی مصرع کی تکرار کر رہا تھا جس پر مجلس میں بیٹھے تمام لوگوں کو کیفیت آ گئی، ادھر ایک صاحب چاپڑ لے کر گوشت بنا رہے تھے اور تکرار پر بے خود تھے پر جیسے تکرار بند ہوئی وہ خود بھی چاپڑ لے کر مجلس میں آ گئے، خواجہ رکن الدین عشقؔ حقہ کے شوقین تھے، ان کے اندر کی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حقہ کے دھواں سے مجلس میں لوگ کیفیت کرنے لگتے۔

    حضرت قاسم ابوالعلائی ڈھولکی پنجاب کے رہنے والے تھے، جب بنگال کا سفر کیا تو پٹنہ آئے اور حضرت پیر مجیب اللہ قادری سے اجازت حاصل کی اور اپنے سلسلے کی اجازت انہیں دی، آپ کا شمار سلسلۂ ابوالعلائیہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتا ہے، آپ قاسم ڈھولکی کے نام سے مشہور تھے کیوں کہ سفر میں بھی اپنے ذوقِ سماع کے بنا پر قوال ساتھ لے کر چلتے تھے۔

    خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کی مجلس کا واقعہ ہے کہ ۱۹ رمضان کو حضرت مولیٰ علی کا فاتحہ ہوتا چلا آرہا ہے، مخدوم سجاد پاک کو اس دوران کیفیت آئی اور اسی کیفیت کے دوران یہ مصرع زبان سے نکلا، شروع سے آخر تک یہ مصرعہ زبان پر رہا۔

    ’’فنائے ذات علی ہوں عجب مقام میں ہوں‘‘

    اس مجلس میں پٹنہ کے اکثر نواب اور زمیندار موجود تھے، مجلس کے بعد دوسرا مصرعہ یوں ادا کیا۔

    میں مقتدی بھی ہوں میں ہی صفِ امام میں ہوں

    فنائے ذات علی ہوں عجب مقام میں ہوں

    یہ وہ قصے ہیں جو آج بھی بہار کی خانقاہوں میں مجلسِ سماع کے حوالے سے بیان ہوتے رہتے ہیں۔

    بہار کی قوالیوں کو ترتیب دینے کا صرف یہی مقصد ہے کہ بہار کی پرپمپرا کو زندہ کیا جاسکے، ان کی زمین سے نکلے ہوئے صوفیوں کے لکھے بول کو دوسروں تک پہنچایا جاسکے، یہ کام فارسی کلام کے لیے ہوچکا ہے پر اردو کلام کا ایسا سنگرہن اب تک کسی زبان میں نہیں آیا، یہ پہلی کوشش ہے کہ بہار کے صوفیوں کے لکھے ہوئے کلام کو ایک جگہ جمع کیا جا رہا ہے، اس میں ہر طرح کے کلام شامل کیے گئے ہیں، تقریباً ۴۰ صوفی شعرا کے الگ الگ کلام جو آج قوال پڑھتے ہیں اس کے علاوہ ان کلام کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کسی زمانے میں پڑھا جاتا تھا، ہمیں خوشی ہے کہ صوفی نامہ اس طرح کی کتابوں کو پبلش کرکے اک بہترین کام نجام دے رہا ہے، اس سے پہلے بھی صوفی نامہ سے سمن مشرا صاحب کی دو جلدوں میں گلدستۂ قوالی آ چکی ہے جو پاٹکھوں کے درمیان خوب مقبول ہوئی، ابھی گرامو فون قوالی کے ٹایٹل سے بھی سیکڑوں کلام کا مجموعہ لا رہے ہیں جو قوالی کے دائرے کو مضبوط بناتی ہے، اس سے پہلے چار صوفیوں کا سنگرن بھی صوفی نامہ سے آچکا ہے، میرے خیال میں ابھی اس وقت صوفی نامہ تصوف کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے