تصوف کی عملی تصویر حضرت مظفر علی شاہ اکبرآبادی
(1227-1299ھ / 1881/1811ء)
تخلص : اللّٰہی اکبرآبادی
محبِ الفقرا و الغرابا حضرت سید امجد علی شاہ قادری کے سبط و جانشین ہیں، 21 جمادی الاول 1227ھ میں ولادت ہوئی، ہندوستان کے مشہور مشائخ میں ہیں ہزاروں لوگوں نے آپ سے سلسلۂ قادریہ چشتیہ کا فیضان حاصل کیا۔
زندگی : حضرت سید مظفر علی شاہ اکبرآباد کے معروف سادات خاندان کے وارث اور سلسلۂ قادریہ کے امین تھے، تمام زندگی فقیرانہ وضع داری اور حفاظتِ نفس کے ساتھ بسر کی، بندگانِ خدا کو رشد و ہدایت فرمایا کرتے، صوفیانہ تعلیمات اور محبتِ خدا و رسول و آلِ رسول کی پابندی فرماتے، 32 سال صاحبِ مسند رہے، حضرت سید مظفر علی شاہ کا فیضِ روحانی ہر خاص و عام تک پہنچا، شہر آگرہ میں سبھی مشائخ آپ سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے آئے ہیں، آپ کو بہت ساری زبانوں میں کمال حاصل تھا آپ کی تصنیف جواہرِ غیبی شریعت اور طریقت کی مشہور و معروف کتاب ہے جو ہندوستان افغانستان ایران وغیرہ کے کتب خانوں میں موجود ہے، کلامِ فارسی کے انتخابات کتابوں میں مل جاتے ہیں جس میں نعت و منقبت عارفانہ غزلیں شامل ہیں، 30 سال ایک تنگ ہجرے میں موتقف رہ کر زندگی کا بڑا حصہ صرف خالقِ اکبر کے نام کردیا سیرت میں مصطفٰویت و کردار میں مرتضیویت کا عکس نمایاں نظر آتا تھا، نفاست کا خیال بہت غالب رہتا، شریعت پہ سختی کے ساتھ کاربند تھے، اپنے دور میں معاشرے میں آئی خرابیوں کو دور کیا، طریقت کے اصولوں پر طالبانِ حق کو چلنے کی سختی سے ترغیب دیتے تھے، آپ کے مریدین خلفا اور شاگردوں میں علما، شعرا اور اؤلیا نے بہت مقبولیت حاصل کر درجہ کمال پر پہنچے۔
اخلاق : کریمٌ نفس اور حلیم طبیعت سیرتِ رسول کےحامل سنتِ رسول کے پابند وعدوں کو پورا کرنے والے نفیس مزاج، استقامت اور سنجیدگی آپ کی کرامت میں سے ہے۔
کرامت: استقامت در اصل کرامت است کی روشنی میں دیکھیں تو آپ کی پوری زندگی ہی کرامت ہے علاوہ ازیں مستجاب الدعا ہیں، لوگوں کی مدد کے لئے اکثر جو فرمایا کرتے وہ کام ہوجاتا تھا، بارگاہِ مصطفٰوی اور بارگاہِ مرتضٰوی میں خاص مقام آپ کو حاصل ہے۔
وصال : سفر سے واپسی کے کچھ دن بعد جب طبیعت ناسازگار ہوئی تو حضرت قبلہ شاہ نیاز بے نیاز کا یہ شعر پڑھتے جاتے۔
بے سر و پائے سے عشاق کو خطرہ کیا
اثر عشق ہے یہ گردشِ ایام نہیں
دوشنبہ 10 ربیع الاول کی شب خادم سے اپنے اس شعر کا ورد کروا کر سنتے رہے۔
یارسول اللہ کریمی سیدی
انتِ مولائی حبیبی مرشدی
اسی دوران وصال فرمایا درگاہ پنجہ مدرسہ اپنے آبائی قبرستان میں والد اور دادا کے ساتھ آرام فرماں ہیں اہلِ عقیدت اور وابستگان سلسلہ حضور کے نام سے پکارتے ہیں، دعاوؤں کی مقبولیت کے لئے آپ کا مزار مستجاب ہے جو دعا مانگی جائے ضرور پوری ہوتی ہے ہر سال 9/10 ربیع الاول کو درگاہ پر عرس شریف طریقت کے تمام اصولوں کی پابندی کے ساتھ مانایا جاتا ہے۔
خانقاہ : میوہ کٹرہ کا ابتدائی حصہ اور پہلی حویلی حضرت نے خانقاہ کے لئے وقف کردی تھی مریدین کو شغل اور وضائف کی سختی سے پابندی کرائی جاتی تھی، نصف رات میں بنا دودھ کی چائے پیش کی جاتی کبھی حلقہ میں کبھی تنہائی میں ذکر کیا جاتا، 1 تاریخ اور 17 کو ماہانہ فاتح کا اہتمام ہوتا تمام شرائط سماع کے ساتھ سماع منعقد ہوتی، سالانہ گیارھویں شریف اور ربیع الاول محافل کا انعقاد حناب سید میر علی شاہ کے ساتھ کرتے آگرہ میں یہ خانقاہ سید امجد علی شاہ اور ان کے اجداد کے زمانے سے سلسلئہ قادریہ کی مرکزی خانقاہ رہی تھی حضرت قبلہ مظفر علی شاہ کے زمانے میں چشتیہ سلسلئہ کے رسومات بھی شامل ہو گئے ان کی تعلیمات نے آگرہ میں اس عہد میں تصوف کا علمی و عملی دسطور قائم کیا۔
'تاریخ مشائخ قادریہ' : میں ڈاکٹر غلام یحیٰی انجم لکھتے ہیں حضرت سید مظفر علی شاہ اکبرآبادی آپ حضرت سید امجد علی شاہ قادری کے نبیرہ ہیں، ۲۱ جمادی الاولیٰ ۱۲۲۷ھ کو ولادت ہوئی، اکبرآباد کے مشہور مشائخ میں آپ کا شمار ہوتا ہے، پورے تیس سال ایک تنگ حجرہ میں رہ کر آپ نے مجرد زندگی بسر کی، دنیا سے لا تعلق رہ کر صرف یاد الٰہی میں مصروف رہے، ایک شب میں اٹھارہ ہزار ضربیں لگانے کا معمول تھا، خواجئہ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی اجمیری سے آپ کی عقیدت کا عالم یہ تھا کہ فرط شوق میں اجمیر شریف کا سفر پا پیادہ فرماتے تھے۔
آپ ظاہری و باطنی دونوں خوبیوں سے آراستہ تھے، یعنی پاکیزہ سیرت کے ساتھ پاکیزہ صورت کے بھی مالک تھے، نفاست و طہارت کا خاص اہتمام فرماتے، رخسار مبارک اس قدر جاذب تھے کہ بندگان خدا آپ کو دیکھتے ہی حلقئہ ارادت میں شامل ہو جایا کرتے تھے، سنجیدگی اس قدر آپ پر طاری رہتی کہ کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا، مولوی ابوالحسن فریدآبادی کا بیان ہے کہ
میں دس سال تک آپ کی خدمت میں رہا، خلا ملا میں کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا
مگر جب لبوں پر مسکراہٹ طاری ہوتی تو پوری مجلس زعفران زار بن جاتی اور جب کبھی آنکھیں نم ہوتیں تو تمام حاضر باش گریہ کناں ہو جاتے، حضرت سید مظفر علی سلسلئہ قادریہ چشتیہ کے امین تھے، اسی سلسلے میں لوگوں کو مرید کرتے، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں نے آپ سے سلسلئہ قادریہ کا فیضان حاصل کیا اور حلقئہ ارادت میں شامل ہوئے، سلسلۂ قادریہ کا فیضان بیعت و خلافت کی شکل میں آپ کو اپنے دادا حضرت سید امجد علی شاہ قادری سے حاصل ہوا تھا، ۹ ربیع الاول ۱۲۹۹ھ/۱۸۸۱ء کو وصال ہوا، مدرسہ شاہی آگرہ میں مدفون ہوئے۔
('تاریخ مشائخ قادریہ' جلد 2 صفحہ 299،300 تصنیف و تالیف : ڈاکٹر غلام یحیٰی انجم)
بوستان اخیار : میں سعید احمد مارہروی لکھتے ہیں کہ
سید مظفر علی شاہ، آپ سید منور علی شاہ ابن سید امجد علی شاہ کے فرزند رشید اور شیخ نظام الدین حسین پسر مولانا نیاز احمد بریلوی کے خلیفہ تھے، تمام عمر طالبان راہ حقیقت کو تعلیم و تلقین فرما کر 1299ھ میں رحلت فرمائے، مزار صحن مسجد محلہ مدرسہ میں واقع اور لوح مزار پر یہ تارخ کندہ ہے۔
شاہ مظفر نصف شب از عشرہاول ربیع
آسودہ در قرب الھدا اھلاً و سھلاً مرحبا
سالِ وصالش از سر اللہ اکبر اے حسن
شمس الہدیٰ بدرالدّجٰی نجم العلٰی نور العبا
(1299ھ)
( تایخ وصال مولانا ابوالحسن فریدآبادی نے لکھی)
تصوف میں ایک ضخیم کتاب جواہر غیبی آپ کے کمالات کی بہترین یادگار ہے جو مطبع نول کشور، لکھنؤ میں چھپ گئی ہے۔
صفحہ : 210
جواہر غیبی شریف : تصوف اور سلوک کی مستند کتابوں میں شمار کی جاتی ہے، حضرت میکش اکبرآبادی اپنی تصنیف 'مسائل تصوف' میں کہتے ہیں کہ
بڑے سائز پر نو سو صفحے کی یہ کتاب تصوف کے ایک پورے کتب خانہ کا حاصل ہے جس کے مؤلف میرے جد محترم حضرت سید مظفر علی شاہ صاحب اللہّٰی اور جامع و مرتب ان کے ایک مرید خصوصی مولانا ابوالحسن فریدآبادی ہیں، اس کے کئی ایڈیشن مطبع نول کشور سے شائع ہو چکے ہیں، یہ کتاب تصوف و سلوک کے تمام مسائل اذکار اوراد، اعمال اور تذکرہ و غیرہ ضروری اور اہم مسائل پر مشتمل ہے (مسائل تصوف، صفحہ 12)
خلیق انجم اسی کتاب کے 'حرف آغاز' میں کہتے ہیں کہ
میکش اکبرآبادی کے جدِ اول حضرت سید مظفر علی شاہ اپنے زمانے کے مانے ہوئے عالم دین اور صوفی تھے، ان کی ایک تصنیف ہے جواہر غیبی جیسے شریعت اور طریقت دونوں کی مستند کتاب سمجھا جاتا ہے اور اس کے حوالے تصوف کی مختلف کتابوں میں ملتے ہیں
مولانا ابوالحسن فریدآبادی صاحب نے اس کتاب کو مرتب کیا تین جلدوں کے ساتھ 1898ء میں نول کشور سے شایع ہوئی، آخر حصہ تذکرۃ اللھی کے نام سے حسن فریدآبادی کا لکھا ہوا ہے جو سوانح ہے حضرت سید مظفر علی شاہ صاحب کی۔
تلامذہ : حضرت سید مظفر علی شاہ صاحب کے تلامذہ بالخصوص آگرہ و بالعموم ہندوستان میں کافی تعداد میں موجود تھے لیکن سب کا حال معلوم نہ ہو سکا، آگرہ میں آپ کے مریدین کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے جن میں سے کچھ کا ذکر کتابوں میں اور تذکروں میں مل سکا نیز جن کا تعلوق ادب سے تالیف و تصنیف و شعر و سخن سے ہے۔
١- اصغر علی شاہ قادری چشتی نظامی۔
فرزند اکبر اور جانشین جن کو دوران حاضری اجمیر شریف کا جانشین اور سجادہ مقرر فرمایا، قبل اس کے بچپن سے ہی آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ فرمائی، دینی علوم خاندانی شغل و وظائف اور سلوک کے تمام مراحل توجہ خاص سے عطا فرمائی۔
حضرت سید اصغر علی شاہ قادری چشتی نظامی : فرزند اکبر اور جانشین حضرت سید مظفر علی شاہ والد کی سرپرستی میں دینی علوم معقولات و منقولات پڑھے خاندانی وذائف اور شغل میں کمال حاصل کیا شعر گوئی کا شوق تھا کچھ اشعار بھی کہے لیکن کو کلام محفوظ نہیں کیا درگاہ اجمیر شریف سے ایک غیبی آواز کے ذریہ چشت کے دولہ کا خطاب عطا ہوا دوران حاضری اجمیر شریف والد محترم نے اپنا جانشین معین کیا۔
سید عبدالعلی شاہ صاحب فرزند دوم ہیں خاندانی علوم اور خانقاہی خدمات میں بھائی کے مددگار رہتے تھے، شعر گوئی سے بھی شغف تھا کچھ کلام منقبت کا تذکرہ میں ملا ہے۔
٢-سعید میر سعادت علی قادری
مرزا قادر بخش صابر کے تذکرے میں ان کے حالات اس طرح درج ہیں: سعید تخلص، میر سعادت علی ساکن بلوچ پورہ کا ایک محلہ ہے، محلات اکبرآباد سے اول مدرسے میں عہد مدرسی رکھا تھا، اب مولوی سید محمد امیر علی شاہ (برادر قبلہ گاہی حضرت سید مظفر علی شاہ) جاگیردار و رئیس اکبرآباد کی سرکار میں تحصیل دیہات و سرانجام امور ضروری رئیس موصوف پر مامور ہے عہدہ قضا بھی ان کی ذات سے متعلق ہے
معلوم ہوتا ہے کہ امیر علی شاہ کی وفات کے بعد سعید نے پھر ملازمت کر لی تھی چناچہ شعر و سخن کے حوالے سے منقول ہے کہ
سید سعادت علی سعید اکبرآبادی مرزا حاتم علی بیگ مرزا حاتم علی مہر 1286ھ (1851ء) 1853 سے شعر کہہ رہے ہیں، لالہ سری رام نے ان کی ولدیت اور تصانیف وغیرہ کا حال اس طرح قلمبند کیا ہے کہ
سعید سید سعادت علی خلف سید مہر علی، مرزا حاتم علی مہر سے تلمز تھا عہدہ قضا ان کے خاندان میں عرسہ دراز سے چلا آتا ہے، اردو و فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے، کسی زمانے میں مدرسی کا شغل بھی تھا، فسانہ گلدستہ نثر، گلزار سعادت، ذخیرہ سعادت جیسی کتابیں اور کلیات سعید ان کی یادگار ہے، آگرہ میں ان کے شاگردوں کی کثرت تھی، شعر گوئی میں مشتاق تھے، طبیعت منجھی ہوئی اور زبان میں سلاست تھی
شعر اس قسم کے کہتے تھے کہ
حضرت نوح سے کہہ دو کہ سنبھالیں کشتی آج طوفان کی خبر دیدہ تر دیتے ہیں
(تاریخ ادب اردو جلد دواز دہم از محمد انصار اللہ صفحہ نمبر ۴۲۸- ۴۲۹)
علامہ سیماب اکرآبادی شاعر آگرہ نمبر جون و جلائی 1936 ، صفحہ نمبر 52 مضمون آگرہ کے صوفی شعرا میں لکھتے ہیں کہ
مولانا محمد سعادت علی قادری : آپ قاضی سید مہر علی کے فرزند اور سید مظفر علی شاہ قادری کے مرید تھے، صاحب علم و فضل اور عابد و زاہد بزرگ تھے، سعید تخلص فرماتے تھے، اردو فارسی دونوں زبانوں میں آپ کا کلام موجود اور کلیات سعید کے نام سے موسوم ہے 1331 میں وفات پائی مزار محلہ سید پاڑہ میں واقع ہے۔
(آگرہ کے صوفی شعراء - صفحہ : 54 شاعر آگرہ نمبر)
دفیئہ سعادت اور آئینہ سعادت دو مجمعہ کلام ان کی یادگار ہیں۔
بوستان اخیار میں صفحہ 84 میں مندرجہ بالا ذکر سعید احمد مارہروی نے بھی کیا ہے۔
مولوی ابوالحسن فریدآبادی متخلص حسن شیدائی صاحب تذکرۃ اللّٰہی : جناب حسن فرید آبادی صاحب حضرت کے معروف اور جانثار اور قابل مریدین میں ہیں منقبت نعت گوئی میں درجہ کمال رکھتے تھے، ان کے حالات مرزا قادر بخش صابر نے کسی قدر تفصیل سے قلمبند کئے ہیں، ان کا اختصار یہ ہے کہ
شیدائی تخلص حال و حسن تخلص سابق، مولوی ابوالحسن متوطن فریدآباد۔ ایام خرد سالی میں وطن مالوف سے حضرت شاہجہان آباد میں وارد ہوکر علم فارسی اور عروض و قافیہ کو مولانا مخدومنا امام بخش صہبائی کی خدمت میں بالاستعیاب حاصل کیا اور چند مدت مدرسہ شاہجہاں آباد میں وظیفہ یابان سرکار انگریزی کی سلک میں منسلک ہوکر علم ہندسہ اور ریاضی میں رشک امثال و اقران ہوا، مہینہ داور مدرسہ نے علوم مزکورہ میں بے مثل اور فن فارسی میں یگانہ دیکھ کر مدرسہ اکبرآباد کا مدرس مقرر اور ساٹھ ستر روپے کا مشاہرہ معین کیا، اسی نواح میں ایک (1)درویش صافی ضمیر کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا، اب تک اسی شہر میں اسی عہدے پر مامور ہے، اشعار فارسی کا فکر بیشتر دامگیر ہے، خوبی مضامین اور متانت عبارت اور چشتی تراکیب اور تازگی طرز کی توصیف دائرہ امکان سے خارج ہے
باطن کے تذکرے میں ان کا صرف یہ ایک شعر درج ہے۔
منفعل ہوں دست و پا بھی مارنے سے وقت ذبح
کیوں میں تڑپا جو ترے دامن پہ چھینٹا پڑ گیا
(تاریخ ادب اردو جلد دواز دہم از محمد انصار اللہ صفحہ نمبر ۴۳۰)
1:(صافی ضمیر درویش سے حضرت سید مظفر علی شاہ صاحب مراد ہیں)
گلستان سخن صفحہ نمبر 301 میں لکھتے ہیں آفتاب تنویر کی خدمت سراپا عافیت میں نیاز حاصل اور اس بزرگ کے جذبہ باطن سے دل دوام ملازمت کی طرف مائل ہوا، ایک دو صحبت کے بعد اعتقاد راسخ کی تحریک سے شرف بیعت سرمایہ تحصیل کمال ہوا اور اوہام باطلہ کا موجب زوال فی الواقع صحبت اہل اللہ اکسیر سے کم نہیں چند روز میں ضمیر اعتقاد و تخمیر کو ایسی صفائی بہم پہونچی کہ اسرار غیب اس آئینہ میں مثل عکس ظاہر ہونے لگے اور رموز خفیہ اس جام گیتی نما میں ظاہر، اس آغاز شباب میں متانت پیراں اور اس جوانی میں وقار کہن سالان جو اس سر گروہ ارباب سعادت کو حاصل ہے شاذ و نادر ہی عنایت الہی سے اب تک اسی شہر میں............توالات کے خوف سے حسن فریدآبادی کا ذکر کم کیا ورنہ ان کی خدمات اور نمونہ کلام بھی شامل کیئے جاتے اللہ ان کو اجرے اعظیم دے جدی قبلہ گاہی حضرت سید مظفر علی شاہ صاحب کی خانقاہ کے حاضر باشوں میں حکیم سید مہر علی صاحب، سید اولاد حسین صاحب سید حکیم معصوم علی (یہ ہم نسب تھے) اصغر علی صاحب، خادم حسین رئیس اکبرآبادی، مفتی اکرام اللہ شہابی، تراب علی صاحب، عرشی کاکوروی، چودھری رحیم نخش صاحب وغیرہ۔
(ماخذ : جواہرِ غیبی تذکرہ الٰہی، تاریخ مشائخ قادریہ جلد دوم صفحہ 299،300، مسائلِ تصوف ماہتاب اجمیر صفحہ112 وغیرہ )
تاریخ ادب اردو جلد دواز دہم از محمد انصار اللہ صفحہ نمبر ۴۳۰
فرزند الاعظم : سید محمد علی شاہ میکش آکبرآبدی
آگرہ اور آگرہ : : سید محمد علی شاہ میکش آکبرآبدی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.