حضرت قطبِ عالم
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-87
حضرت قطبِ عالم جمعِ فیوضِ سبحانی، منبعِ علومِ روحانی، درِ دریائے معرفت اور گوہرِ کانِ حقیقت ہیں۔
خاندانی حالات : آپ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے پوتے ہیں جن کا نام حضرت سید جلال الدین بخاری ہے، وہ حضرت سید کبیر احمد کے لڑکے تھے، ان کے دادا حضرت شیخ جلال الدین سرخ بخاری تھے، وہ ساداتِ حسینی سے تھے اور بخارا کے ایک معزز اور ذی علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
والد ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نام سید نصیرالدین محمد ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آپکے والد ماجد کا نام ناصرالدین محمد ہے۔
والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حاجرہ بی بی ہے، وہ حضرت سید قاسم حسینی کی صاحبزادی تھیں، حاجرہ بی بی کا مزار پٹن میں ہے، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت ان کو سعادت خاتون کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
پیشین گوئیاں : ایک دن جو حسبِ معمول آپ کی والدہ ماجدہ حاجرہ بی بی صبح کے وقت حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کو سلام کرنے کی غرض سے آئیں تو حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت ان کی تعظیم کی غرض سے کھڑے ہوگئے، یہ بات آپ کے والد حضرت سید نصیرالدین محمد کی اور بیویوں کو ناگوار ہوئی، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے فرمایا کہ
”حاجرہ بی بی کے پیٹ سے ایک قطبِ وقت پیدا ہونے والا ہے، اس لیے ان کے لیے کھڑے ہوکر تعظیم کی“
ایک دن حضرت نصیرالدین محمد زمین پر سو رہے تھے، ان کے پیٹ پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے جب ان کو اس طرح سوتا دیکھا تو وہ کچھ دیر وہاں باادب کھڑے رہے پھر تعجب اور خوشی کے لہجہ میں فرمایا کہ
”اللہ اکبر! ایک قطب پیدا ہوگا جو صرف قطب ہی نہ ہوگا بلکہ قطب الاقطاب ہوگا جو فیض کا چشمہ ہوگا اور جو لوگوں کو راہِ حق دکھائے گا“
اس کے بعد انہوں نے حضرت نصیرالدین محمد کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور پھر وہی ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا۔
ایک دفعہ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت گجرات تشریف لے گئے، اس وقت احمدآباد میں جو نہیں آیا تھا، وہ بٹوہ بھی تشریف لے گئے، فجر اور اشراق کی نماز کے بعد انہوں نے وہاں کی تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور مٹی سونگھ کر فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اس پاک زمین سے تو ہماری ہڈیوں کی خوشبو آ رہی ہے“
حاضرین سے انہوں نے اس مٹی کی زیارت کرنے کو کہا اور یہ پیشن گوئی فرمائی کہ ”یہ مقام قطبیت کا خزانہ ہوگا اور روحانیت کا سرچشمہ ثابت ہوگا“
ایک دن حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے آپ کی والدہ جن کو وہ سعادت خاتون کہہ کر پکارا کرتے تھے، ان کو وہ چادر جس کو وہ عبادت کرتے وقت اوڑھا کرتے تھے عطا کی، پھر پانے صاحبزادے نصیرالدین کو حکم دیا کہ میری وفات کے بعد سعادت خاتون کے بطن سے لڑکا ہوگا۔
”یہ میری امانت اس بچے کو دینا“
جب بچپ پیدا ہوا تو اس کے لیے کپڑے اسی چادر سے بنائے جائیں اور چادر کے بچے ہوئے ٹکڑے بھی نہایت احتیاط سے رکھے جائیں، یہ چادر متبرک ہے، جب خداوند تعالیٰ نے شبِ قدر کی دولت سے نوازا تو یہ چادر مجھے پہنائی گئی پھر آپ نے نصیرالدین محمد کو آگاہ کیا کہ جو بچہ پیدا ہوگا وہ قطب الاقطاب ہوگا، اس کو مقامِ ابدیت حاصل ہوگا، مقامِ ابدیت پر فائز ہونے والے کو عبداللہ کہتے ہیں اور سلوک میں یہ سب سے بڑا درجہ شمار کیا جاتا ہے۔
ولادت : آپ اوچہ میں 14 رجب 790 ہجری مطابق 1388 عیسوی کو پیدا ہوئے، آپ کے والد نے آپ کے کان میں اذاں دی، آپ کے دادا کی چادر سے آپ کے کپڑے بنائے گئے۔
نام : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی عبداللہ ہے۔
کنیت : آپ کی کنیت ابو محمد ہے۔
لقب : آپ کا لقب برہان الدین ہے۔
خطاب : آپ کا خطاب قطبِ عالم ہے۔
ولادت کے بعد کی کرامات : آپ نے دائی کا دودھ نہ پیا، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ پیا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دائی جس کا دودھ آپ نے نہیں پیا، بدچلن تھی، ابھی آپ صرف تیرہ دن کے تھے کہ 27 رجب شبِ معراج پر ایک نور آپ کے پاس آتا دکھائی دیا اور حضرت نے نید میں کچھ الفاظ فرمائے جن کا ترجمہ یہ ہے۔
”چراغ کی روشنی دن کی روشنی سے بڑھ کر ہے“
برادران : آپ کے بھائیوں کے نام یہ ہیں۔
سید فضل اللہ، سید علاؤالدین اور سید عبدالحق۔
بیعت و خلافت : آپ اپنے والدِ ماجد کے مرید و خلیفہ ہیں، آپ کی عمر پانچ سال کی تھی کہ ایک دن آپ اپنے والد ماجد کے پاس آئے، آپ کے والدِ ماجد اس وقت حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا خرقہ پہنچے ہوہے بیٹھے تھے، آپ نے آکر اپنے والد سے دریافت کیا کہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا خرقہ کیا آپ کے پاس ہے، مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے پاس سوائے دو خرقہ کے اور کچھ نہ تھا، ان پر خراسان کے ایک تاجر اسی ہزار دینار کا قرضہ تھا، فیروز شاہ تغلق سے یہ کہا گیا کہ وہ اسی ہزار دینار کا قرضہ ادا کر دے اور اس کے بدلے مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا ایک خرقہ لے لے، فیروز شاہ تغلق اس پر راضی بھی ہوگیا تھا لیکن خراسان کے اس تاجر کو جب اس بات پتہ لگا تو وہ اوچہ آیا اور قرضہ معاف کرکے اور دستاویز پھاڑ کر اور اسی ہزار دینار کے بدلے ایک خرقہ لے کر خراسان واپس چلا گیا، مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا دوسرا خرقہ آپ (قطب عالم) کے والد کے پاس رہا اور وہی خرقہ پہنچے وہ اس وقت بیٹھے ہوئے، آپ کے والد نے وہ خرقہ اتار کر آپ کو پہنا دیا اور آپ کو تاکید کی خرقہ پہن کر مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوں۔
آپ نے اپنے والدِ ماجد کے چچا اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے چھوٹے بھائی اور خلیفہ حضرت صدرالدین المعروف بہ راجو قتال سے بھی روحانی فیض پایا، ایک دن آپ کے والد کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت راجو قتال نے ان سے کہا کہ رنج اور فکر کی کوئی بات نہیں جو روحانی فیوض مجھے اور تمھیں ملے ہیں وہ ہم دونوں قطب عالم کو دے دیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، اس کے بعد حضرت راجو قتال نے آپ کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مزارِ مبارک پر لے گئے، انہوں نے اپنے فیوض آپ کو دے دیے اور پھر آپ سے کہا کہ یہی نہیں بلکہ تین اور نعمتیں جو مجھے میرے پیر و مرشد سے ملی ہیں، وہ بھی تم کو دیتا ہوں، وہ تین نعمتیں یہ ہیں، مرشد کا خرقۂ مبارک مال و دولت کی دیگ اور تلوار جس کی دو دھاریں ہیں، آپ نے حضرت شیخ احمد کھٹو سے بھی روحانی فیض پایا، آپ نے حضرت شیخ احمد کھٹو سے بھی خلافت پائی۔
”از شیخ احمد کھٹو نیر خلافت یافت“
والد ماجد کا وصال : آپ کی عمر دس سال کی تھی کہ پدرِ بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا، وفات سے پہلے کے والدِ ماجد نے سب اہلِ خاندان کو جمع کیا جن کی مجموعی تعداد ایک سو بیس تھی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ
”اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ تم اپنی اولاد کے بیچ انصاف کرنا“
”میں سامان اور کتابوں کا بٹوارہ کرنا چاہتا ہوں، سب کو ان کا حق دینا چاہتا ہوں“
آپ کے والدِ ماجد نے 22 رمضان المبارک 801 ہجری کو اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ فرمایا۔
حضرت راجو قتال کی تاکید : حضرت راجو قتال نے آپ کو تاکید فرمائی کہ تم گجرات میں سکونت اختیار کرنا اور وہیں رہ کر زندگی گزارنا اور رشد و ہدایت کرنا، گجرات کی سر زمین تمہارے سپرد ہے اور گجرات کے لوگوں تک پیامِ حق پہنچانا اور ان کو تاریکی سے روشنی میں لانا تمہارے ذمہ ہے، ان فرائض کو بخیر و خوبی انجام دینا۔
گجرات میں آمد : اپنے والد کے انتقال کے بعد آپ اوچہ سے 802 ہجری مطابق 1399 عیسوی میں گجرات میں رونق افروز ہوئے، اس وقت گجرات کا دارالخلافت پٹن میں تھا، آپ پٹن پہنچ کر حضرت شیخ رکن الدین کے مہمان ہوئے جو بابا فریدالدین گنج شکر کے نواسے تھے، حضرت شیخ رکن الدین نے آپ کی بہت عزت اور خاطر مدارات کی۔
حضرت شرف الدین مشہدی کی ملاقات : حضرت سید شرف الدین مشہدی جو بھڑوچ میں رہتے تھے کو جب آپ کے پٹن میں قیام کا علم ہوا تو وہ آپ سے ملنے کے لیے پٹن روانہ ہوئے، راستہ میں احمدآباد میں رکے اور پھر سرکھیج پہنچے جہاں حضرت شیخ احمد کھٹو رہتے تھے پھر پٹن پہنچے اور آپ (حضرت قطب عالم) سے ملے۔
سلطان مظفر شاہ کا استقبال : سلطان مظفر شاہ جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مرید، معتقد اور منقاد تھا، حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔
تعلیم و تربیت : آپ کی روحانی تعلیم و تربیت آپ کے والد اور آپ کے والد کے چچا اور حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے چھوٹے بھائی حضرت راجو قتال کی نگرانی میں ہوئی، حضرت جب گجرات میں رنق افروز ہوئے تو دنیاوی علم حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، آپ ایک مدرسہ میں داخل ہوگئے، اس مدرسہ میں حضرت مولانا علی شیر درس دیا کرتے تھے، حضرت نے ان کی خاص توجہ سے دنیاوی علم حاصل کیا اور علومِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال کو پہنچے، جب آپ گجرات تشریف لے گئے تھے، اس وقت آپ کی عمر قریب دس سال کی تھی، سنِ بلوغ کے پہنچنے تک آپ علم حاصل کرنے میں کوشا رہے۔
حضرت گیسو دراز کی ملاقات : آپ جب چودہ سال کے ہوئے تو اسی زمانہ میں حضرت سید گیسو دراز دکن سے گجرات تشریف لے گئے، پٹن پہنچے اور حضرت شیخ رکن الدین سے ملاقات کی، پٹن میں حضرت سید گیسو دراز بندہ نواز نے جب آپ (قطب عالم) کو دیکھا تو قطبیت کے آثار آپ میں دیکھ کر خوش ہوئے اور آپ سے کہا کہ ”میرے بزرگوں سے جو فیض مجھے ملا ہے وہ میں آپ کو بطور تحفہ دینا چاہتا ہوں“
شادی و اولاد : آپ جب سِن بلوغ کو پہنچے تو حضرت شیخ رکن الدین نے آپ کی شادی کرانا چاہی، انہوں نے بادشاہ کے وزیر امین الدین خداوند خاں کو ایک خط لکھا کہ اگر بادشاہ کی لڑکی کی شادی حضرت (قطب عالم) کے ساتھ ہو جائے تو کیا اچھا ہو، امین الدین خداوند خاں نے اپنی لڑکی کی شادی حضرت کے ساتھ کرنی چاہی لیکن ہوا ایسا کہ حضرت کی شادی شہزادی کے ساتھ ہوئی، وقت گزرتا رہا اور آخر کار امین الدین خداوند خاں کی آرزو پوری ہوئی یعنی اس کی لڑکی سلطانہ خاتون (بی بی آمنہ) حضرت کے عقدِ نکاح میں آئی، اس کے بعد حضرت پر غلبۂ عشق و شوق ایسا طاری ہوا کہ حضرت کو اپنے تن کی ذرا خبر نہ رہتی، دیواروں پر دوڑتے اور کسی قسم کا کوئی آرام نہ کرتے تھے، امین الدین خداوند خاں کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے ایک زنجیر بنوا کر اور طباق میں رکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجی، جب حضرت نے زنجیر کو دیکھا تو اول مسکرائے اور پھر فرمایا کہ
”شروع کی دونوں زنجیریں مجھے قبول ہیں“
اس کے بعد حضرت نے کریم الدین کی صاحبزادی بی بی دھنّا سے شادی کی جن کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔
سید محمد اصغر شیخ محمد، سید صادق محمد، سید محمد راجو اور بیویوں کے بطن سے جو بچے ہوئے ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔
حضرت شیخ محمد دریائے نوش، حضرت منجھن میاں جو شاہ عالم کے لقب سے مشہور ہوئے، حضرت سید احمد شاہ پیر، حضرت شاہ زاہد، حضرت شاہ محمد امین۔
آپ کی چوتھی بیوی بی بی جام زادی کے شکم سے بی بی فردوس اور بی بی مریم پیدائیں۔
خط : آپ کی عمر قریب پچیس سال کی تھی کہ آپ کے اوپر ایک عجیب طرح کا کیف و مستی کا جذبہ طاری ہوا، آپ بار بار فرماتے تھے کہ
”اے نفس! شیطان کے استاد! سن لے، میں تیری بات کبھی بھی، ہرگز نہ مانوں گا‘‘
ایک دن آپ نے طے کیا کہ اپنی اس حالت سے اپنے دادا حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے بھائی حضرت راجو قتال کو مطلع کریں، چنانچہ آپ نے ان کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ
”۔۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور والدِ محترم اور آپ کی نورانی نظروں اور روحانی فیوض کی وجہ سے اس احقر کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ نہ بیان کرسکتا ہوں اور نہ دکھا سکتا ہوں، حالت یہ ہے کہ آج کل میرے جسم کی ہر نبض اور ہر ہر رگ و تار میں انالحق کی آواز آیا کرتی ہے، آواز اس قدر صاف اور زور سے آتی ہے کہ پاس بیٹھنے والوں کے کانوں میں سنائی دیتی ہے، اس لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ الگ تھلگ ایک گوشہ میں رہتا ہوں، کئی بار میں نے اپنے کو پتھروں کی چٹانوں پر پھینکا، آگ میں گرایا، میں گہرے پانی میں کودا تاکہ موت آجائے لیکن ایسا نہیں ہوتا، میں تھک کر بیٹھ جاتا ہوں، موت نہیں آتی، میں دیکھ رہا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ میری سختیوں کے سامنے ہر چیز اپنی طاقت اور قوت کھو بیٹھتی ہے، اب آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے، اگر اجازت ہو تو خدمتِ اقدس میں حاضر ہوں اور اپنی حالت خود آپ کے گوش گزار کروں، زیادہ حدِّ ادب۔۔۔“
جواب : آپ کے خط کا جو جواب حضرت راجو قتال نے دیا وہ حسبِ ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم، اہلِ اسلام کے نزدیک یہ مسنون طریقہ ہے، میرے بیٹے! سیدوں کے سردار! سوالوں کے سمندر، طٰہٰ یٰسیٰن یعنی حضرت نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے مانند اور نبی کی نچوڑ اور پرہیز گاری کی کان کے موافق اور قطبیت کے آسمان اور سورج کے موافق شیخ برہان الدین اللہ کی دعائیں اور سایہ آپ کے ساتھ رہے، یہ بات یاد رکھنا اور کبھی نہ بھولنا کہ میں خاص وقت میں فرزند عزیز کی استقامت کی مضبوطی اور ثابت قدمی کے لیے دعا کرتا ہی رہوں گا، بعدہٗ جو کیفیت ظاہر ہوئی ہے اس کو قطبیت کبریٰ کے آثار کو مان کر اور سمجھ کر اور زیادہ بلند درجہ ملنے کیے ہمیشہ تیار رہنا، فقط والسلام۔۔“
سلاطین سے تعلقات : ظفر خان جو بعد میں مظفر شاہ کے لقب سے گجرات کا فرماں روا ہوا وہ حضرت کے دادا حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا مرید تھا، مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے اس کو گجرات کا بادشاہ ہونے کی خوشخبری دی تھی، انہیں کی دعا کا یہ نتیجہ تھا کہ ظفر خاں گجرات کا بادشاہ ہوا، ایک دن ایسا ہوا کہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی خانقاہ میں لنگر کے لیے کچھ بھی نہ تھا، اس دن درویشوں کے کھانے کے لیے بھی خانقاہ میں کوئی انتظام نہ تھا، اس بات کی خبر ظفر خاں کو ہوئی، اس نے لنگر کے لیے کافی تعداد میں غلہ اور مٹھائیاں وغیرہ بھیجیں، جب وہ سامان خانقاہ میں لایا گیا تو مخدوم جہانیاں جہاں گشت خوش ہوئے اور مظفر خان کو طلب فرمایا اور اس سے کہا کہ
”اے مظفر خاں! بغرض ایں طعام حکومتِ تمام ملک گجرات را بنامِ شما انعام فرمودیم مبارک باشد“
ترجمہ : اے مظفر خاں! اس کھانے کے بدلے میں ملک گجرات کی تمام سلطنت ہم نے تم کو عطا کی، تم کو مبارک ہو“
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے ظفر خان کو دعا کے ساتھ ساتھ ایک چادر بھی عطا فرمائی، حضرت جب گجرات میں رونق افروز ہوئے اور پٹن میں قیام فرمایا تو مظفر شاہ کو جب خبر ہوئی تو حضرت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوا، راستہ میں اس نے سوچا کہ یہ صحیح ہے کہ حضرت کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا پوتا ہونے کا فخر حاصل ہے اور حضرت کی رگوں میں مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا خون بھی ہے لیکن اگر انہوں نے تین باتیں اس طرح انجام دیں تو میں سمجھوں گا کہ وہ مخدومِ جہانیاں جہاں گشت سے سچے پوتے اور حقیقی وارث ہیں، پہلی بات جو اس نے سوچی وہ یہ تھی کہ جہاں ان کا قیام ہوگا وہیں مجھے طلب فرمائیں گے اور خود میرے استقبال کے لیے نہیں آئیں گے، دوسرے یہ کہ جو کچھ گھر میں اس وقت کھانے کو ہوگا وہی مجھے دیں گے، میرے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کریں گے، تیسرے یہ کہ رخصت ہوتے وقت اپنی پگڑی مجھے عطا فرمائیں گے، جب سلطان مظفر شاہ آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوا تو لوگوں نے چاہا کہ اس کا شیانِ شان استقبال کیا جائے، آپ اس بات پر راضی نہ ہوئے، آپ جہاں تھے وہیں آپ نے سلطان مظفر شاہ کو قدم بوسی ہونے کا موقع عطا فرمایا، تھوڑی ہی دیر بعد آپ نے حکم دیا کہ جو کھانا گھر میں ہو وہ لایا جائے اور دستر خوان بچھایا جائے، کھانا جب آگیا تو آپ نے سلطان مظفر شاہ سے کہا کہ فقیروں کا کھانا حاضر ہے، بسم اللہ کیجیے، آپ نے بھی سلطان مظفر شاہ کے ساتھ کھانا تناول فرمایا، اب سلطان مظفر شاہ نے اجازت چاہی، آپ نے اس کو رخصت کرتے ہوئے اس سے فرمایا کہ
”فقیروں کی پگڑی آپ کے لیے نہیں ہے“
مظفر شاہ نہایت خوش و خرم اور شاداں و فرحاں واپس آیا، اس نے حضرت کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا حقیقی وارث پایا، وہ حضرت کا دل و جہاں سے معتقد ہوا اور اس کا اعتقاد حضرت کی طرف سے کبھی کم نہ ہوا۔
سلطان احمد شاہ بھی حضرت کا معتقد تھا، اس نے جب احمدآباد آباد کیا تو حضرت سے درخواست کی کہ حضرت نئے شہر میں سکونت اختیار فرما کر اس (احمدآباد) کو زینت بخشیں، سلطان احمد شاہ نے حضرت کی شان میں ایک قصیدہ لکھا اور حضرت کے سامنے کھڑے ہوکر نہایت ادب سے اس کو پڑھا، قصیدہ اس طرح شروع ہوتا ہے۔
قطبِ زمانہ ما برہان بس است مارا
برہان او ہمیشہ چوں نامش آشکارا
قصیدہ پڑھنے کے بعد سلطان احمد شاہ نے حضرت سے انعام و صلہ مانگا، حضرت نے فرمایا کہ
”میرے دادا نے تم کو پہلے ہی نعمت عطا کی ہے اور دعا دی ہے“ اس پر سلطان احمد شاہ نے عرض کیا کہ
”یہ درست ہے جو کچھ پایا وہ حضرت کے خاندان والوں سے پایا لیکن جو دعا حضرت کے دادا نے دی تھی، وہ میری سلطنت اور میرے خاندان کے لیے تھی، اب میں حضرت سے التجا کرتا ہوں کہ حضرت اس نئے شہر (احمدآباد) کے لیے دعا فرمائیں کہ یہ شہر تا ابد قائم اور آباد رہے اور روز بروز اس کی رونق اور زینت میں اضافہ ہو“
حضرت نے یہ سن کر فرمایا کہ
”اچھا میں دعا کرتا ہوں، خدواند تعالیٰ کے کرم سے یہ شہر تا ابد قائم رہے گا“
حضرت کا کرم سلطان احمد شاہ کے شاملِ حال رہا اور اس کو اپنی طاقت بڑھانے، اپنے کو مضبوط بنانے اور اپنا اقتدار قائم کرنے میں کافی سہولت پہنچی، حضرت کی خانقاہ گجرات کے اونچے اور متوسط طبقے کا مرکز بن گئی، اس طبقے میں امیر، وزیر اور افسران شامل تھے، حضرت نے کچھ دن اساول میں قیام فرمایا اور پھر بٹوہ تشریف لے گئے اور وہیں رہنے لگے، سلطان نے حضرت کو بٹوہ کا گاؤں نذر کیا، مرزا محمد حسن بٹوہ کے متعلق اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ
”موضع مذکور بر خرچ اخراجات سرکارِ ایشاں سلطان مقرر داشت“
ترجمہ : (موضع مذکور کو بادشاہ نے حضرت کے خرچ کے لیے مقرر رکھا، سلطان احمد شاہ کا پوتا سلطان جلال خاں جو قطب الدین کے لقب سے مشہور ہے جب گجرات کے تخت پر بیٹھا تو اس کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ حضرت قطب عالم کا مرید تھا، اس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ
”در عہدِ دولتِ او دو عمارتِ عالی در عالمِ ہستی بدیدار گشت، یکے حوضِ کانکریہ و نزدیک او قلعہ و محلہائے بادشاہی بنا شد و دوم باغِ فردوس کہ بغایتِ وسیع و کلاں و جائیہا می سر کشاد کہ در آں محلہا و سردا بہا ساختند و واز ہر گو نہ نہال و اشجار غیر مکرر حتیٰ درختِ صندل و عود نشاند و پرورش یافت۔۔۔“
یہ بادشاہ بہت رحم دل اور سخی تھا، اسی وجہ سے اس کو ”زرنجش“ کہتے تھے اور وہ ”مرید حضرت قطب العالمین بود“ (قطب العالمین کا مرید تھا)
ابھی اس کو تخت پر بیٹھے زیادہ زمانہ نہ گزرا کہ سلطان محمود خلجی نے گجرات پر چڑھائی کی، سلطان قطب الدین نے حضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ ”سلطان محمود خلجی اسی (80) ہزار سپاہی لے کر آیا ہے، میرے پاس نہ اتنی بڑی فوج ہے اور نہ ہی ساز و سامان ہے، حضور دعا فرمائیں کہ میں دشمن کی فوج پر غالب آؤں اور دشمن ناکامی کا منہ دیکھے۔
حضرت نے مراقبہ کیا اور پھر فرمایا کہ
”یہ ساری مصیبت تمہارے والد سلطان محمد شاہ کی ایک غلطی کی وجہ سے آئی ہے، تمہارے والد نے پیر شیخ کمال کی دل آزاری کی تھی، یہ اس کا نتیجہ ہے“
آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت شاہ عالم کو پیرِ کمال کے پاس بھیجا اور یہ کہلوایا کہ آپ در گزر کریں اور معاف کریں، باپ کا بدلہ بیٹے سے نہیں لینا چاہیے، پیر کمال معاف کرنے پر کسی طرح راضی نہ ہوئے اور حضرت شاہ عالم سے کہاکہ میں نے گجرات کی سلطنت سلطان محمد خلجی کو دے دی ہے، یہ بات جب حضرت (قطب عالم) کو معلوم ہوئی تو وہ خاموش ہوگئے، پیر کمال کی کافی عمر تھی، تیسرے دن ان کی وفات ہوگئی، سلطان قطب الدین نے پھر آکر عرض کیا کہ دشمن قریب آگیا ہے، حضور سے جازت لینے آیا ہوں، حضور فتح و کامیابی کے لیے دعا فرمائیں اور اپنے صاحبزادے شاہ عالم کو میرے ساتھ کردیں، حضرت نے حضرت شاہ عالم کو سلطان قطب الدین کے لشکر کے ساتھ کیا اور ایک تیر دیا جس کی نوک حضرت نے توڑ دی، حضرت نے تاکید فرمائی کہ یہ تیر دشمن کے لشکر پر پھینک دینا، گھمسان لڑائی ہوئی، شاہ عالم نے وہ تیر پھینکا تو وہ سلطان محمود خلجی کی آنکھ میں جاکر لگا، سلطان قطب الدین کامیاب و کامراں لڑائی کے میدان سے واپس آیا۔
وفات : حضرت کو بخار آیا، اس حالت میں بھی حضرت نے نماز، نفل اور اوراد و وظائف جاری رکھے، وفات سے قبل حضرت نے شیخ مبارک سے خوش ہوکر کہا کہ
”اب ہم ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس دنیا سے جا رہے ہیں“ حضرت نے تین مرتبہ یا حیُّ یا قیوم کریم کہا اور 857 ہجری مطابق 10 دسمبر 1453 عیسوی کو جوارِ رحمت میں داخل ہوئے، مزارِ پُرانوار بٹوہ میں (احمدآباد کے قریب) فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے، سلطان محمود بیگرہ نے آپ کے مزارِ مبارک پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کرایا۔
خلفا : حضرت کے بہت سے خلفا تھے، خاص خاص حسبِ ذیل ہیں۔
حضرت مخدوم شیخ محمود دریا نوش، حضرت شاہ عالم، حضرت سید احمد شاہ پیر، حضرت سید محمد اصغر عرف شیخ محمد، حضرت شاہ صادق، حضرت شاہ سلیم، حضرت شاہ راجو، حضرت مخدوم شیخ صالح، حضرت شاہ زاہد، حضرت شیخ عبداللطیف، حضرت سید عثمان برہانی، حضرت شیخ علی خطیب۔
سیرت مبارک : حضرت ترک و تجرید میں یگانہ روزگار تھے، توکل و قناعت کی دولت سے مالا مال تھے، عشقِ الٰہی میں سرشار تھے، عبادت، ریاضت اور مجاہدات میں زیادہ وقت گزارتے تھے، لوگوں کی حاجت روائی کو ایک فریضہ سمجھتے تھے، آپ کا لنگر ایک وسیع پیمانے پر جاری تھا، آپ کی خانقاہ زیر دستوں، مظلوموں اور غریبوں اور کمزوروں کے لیے جائے پناہ تھی، آپ قرآن شریف کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے تھے، جہاں قرآن شریف رکھا ہوتا وہاں بہ پاسِ ادب نہ بیٹھتے تھے، سخاوت اور دریا دلی کے لیے مشہور تھے، علومِ ظاہری و باطنی میں اپنی مثال آپ تھے، ہر ایک کی عزت کرتے تھے اور ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے، کسی کی دل آزاری پسند نہ کرتے تھے، اپنا راز چھپاتے تھے، شریعت، طریقت اور حقیقت میں کامل تھے۔
حلیۂ مبارک : آپ کا چہرہ نوانی تھا، پیشانی چوڑی تھی، آنکھیں پُرکمار تھیں، قد میانہ تھا، ناک اونچی اور گردن باریک تھی۔
علوئے مرتبت : ابھی آپ کی عمر نو سال کی تھی کہ ایک دن آپ کو خیال آیا کہ اگر سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ کی حیاتِ ظاہری میں ہوتا تو حضور کے پیر چومتا اور حضور کے قدموں کے نیچے کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتا، اسی دن رات کو آپ کو سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ کی زیارت نصیب ہوئی، آپ نے حضور کے قدموں پر سر رکھ دیا، آپ کی عمر جب چھ سال کی تھی تو ایک مرتبہ آپ شیخ مونکر جو شیخ مبارک کے مرید اور شیخ جمال کے پوتے ہیں سےملنے گئے، شیخ مونکر نے جوں ہی حضرت کو دیکھا تو وہ ایک دم تعظیم کو کھڑے ہوگئے اور حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ
”اس بچے کو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی گہری نسبت ہے کہ اس وقت حضرت اویس قرنی مانے جاتے ہیں‘‘
حضرت کی عمرِ مبارک اکتیس (31) سال کی تھی کہ اوچھ میں سیلاب آیا، مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے لوگوں کو بشارت کی کہ ان کی نعش کو کسی دوسری جگہ دفن کی جائے، جس وقت نعش دوسری جگہ لے جائی جارہی تھی تب ایک آواز اس طرح سننے میں آری گویا حضرت (قطب عالم) سے کوئی مخاطب تھا، حسبِ ذیل الفاظ صاف طور پر سننے میں آئے۔
”قطبیتِ کبریٰ، ہدایتِ مرتضیٰ اور نعمتِ مصطفیٰ پورے خاندان کو حضرت نبی رسول کریم کے طفیل سے ایک دوسرے کو ملتی رہتی ہیں، کتنے خوش قسمت میرے فرزندِ عزیز سید برہان الدین قطبِ عالم ہیں کہ اب ان کو عطا ہوئی ہیں“
ایک دن آپ کے مزارِ مبارک پر حضرت شیخ حسن خندشاہ اور حضرت شاہ عالم حاضر ہوئے تو دیکھا کہ ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے مزارِ مبارک کی چادر پکڑ کر کہا ”ھذا قطب“ یعنی یہ قطب ہے۔
حضرت شاہ عالم نے فرمایا کہ
”امروز قطب اند“ یعنی اب بھی قطب ہیں۔
حضرت شاہ عالم نے فرمایا کہ
”پانچ بزرگوں کو خداوند تعالیٰ نے ایا بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ حیاتِ ظاہری میں وہ قطب تھے اور وصال کے بھی وہ قطب رہے، ان کی قطبیت ان سے لی نہیں گئی، ان پانچ بزرگوں میں حسبِ ذیل بزرگ شامل ہیں۔
1۔ میرے والد (حضرت قطب عالم) 2۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت 3۔ حضرت غوث الاعظم 4۔ حضرت معروف کرخی 5۔ حضرت بایزید بسطامی۔
تعلیمات : ایک شخص نے آپ کو سات مرتبہ سلام کیا اور ہر مرتبہ آپ نے گھوڑے سے اتر کر اس کے سلام کو جواب دیا، ایک خادم نے عرض کیا کہ یہ شخص پاگل ہے پھر حضرت اس کی اتنی عزت کیوں کرتے ہیں گھوڑے سے اتر کر اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں، حضرت نے جواب دیا کہ
”وہ شخص پاگل سہی لیکن میں تو ہوش میں ہوں“
پھر آپ نے فرمایا کہ
”میں کیا کروں، انسان کی جگہ، مرتبہ اور حقیقت اس کی تعظیم کرنے کو مجبور کرتی ہے، اس لیے میں تعظیم میں مسلمان اور کافر اور امیر و غریب کا فرق رکھنا پسند نہیں کرتا ہوں، میرے نزدیک ہر انسان بھائی بھائی ہے اور ہر انسان کی عزت اور ادب کرنا اپنے اوپر فرض ہے“
حضرت نے فرمایا کہ
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام کا ورد کرنا بہتر ہے، اگر محمد کہتے ہوئے مرجائے تو بیڑا پار ہوجائے“
آپ نے فرمایا کہ
”سکرات کی حالت میں کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھنے میں خطرہ ہے اور وہ خطرہ یہ ہے کہ اگر آدھا کلمہ پڑھتے ہوئے ہی دم نکل جائے تو نفی کا حصہ یعنی لا الٰہ پڑھتے ہوئے اس جہاں سے رخصت ہوا جو اچھی حالت نہیں، ہوسکتا ہے کہ لا الٰہ کہتے ہوئے دم نکل جائے اور الا الہ نہ کہہ سکتے، پس محمد رسول اللہ پڑھے، اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے“
ورد و وظیفہ : ”یالطیف“ پڑھنے کی تلقین فرمائی، حضرت کا یہ ورد تھا کہ عشا کی نماز کے بعد یا حیُ یا قیوم پڑھا کرتے تھے اور لا الٰہ الااللہ کا ذکر کرتے تھے۔
کشف و کرامات : حضرت سے بہت کرامات ظاہر ہوئیں، بہ نظرِ اختصار یہاں چند پیش کی جاتی ہیں، حضرت سید شرف الدین مشہدی ایک نامور بزرگ تھے، بڑوچ علاقہ میں مشہور تھے، انہوں نے اپنے دونوں لڑکوں سید قطب الدین اور سید سعداللہ سے جو حضرت (قطب عالم) سے عمر میں بڑے تھے، حضرت کا مرید ہونے کو کہا، انہوں نے جواب دیا کہ
’’ان (حضرت) کی ٹوپی ہمارے سر پر نہیں آسکتی“
ان کا مطلب یہ تھا کہ حضرت ان کو بیعت کرنے کے قابل نہیں ہیں، حضرت سید شرف الدین مشہدی نے اپنے لڑکوں سے کہا کہ اچھا ان سے ملنے تو چلو، حضرت اس وقت کھنبائیت میں تھے، جب وہ سب پہنچے تو حضرت وضو کر رہے تھے، حضرت نے جوں ہی ان کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا کہ
”میرے سر کی ٹوپی ان کے سرپر کس طرح آئے گی اور ان کو کس طرح دی جائے گی“
یہ سن کر حضرت سید شرف الدین مشہدی کے دونوں صاحبزادے حضرت کے معتقد ہوئے اور مرید ہوئے، آپ پل بھر میں پٹن سے اوچہ پہنچ جاتے تھے اور حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے مزارِ پُرانوار کی زیارت کرکے واپس آجاتے تھے۔
ایک دن حضرت کی صاحبزادی کی نوکرانی آئی اور کہنے لگی میری بچی بھوکی بیٹھی ہے، بغیر گھی کے روٹی نہیں کھاتی ہے، ضد کر رہی ہے، گھی کہاں سے لاؤں، حضرت نے یہ سن کر حالتِ وجد میں کہا کہ ”جاؤ دیکھو، گھی تو کنویں میں ہے“
اتنا کہہ کر پھر فرمایا کہ
”فقیروں کی اولاد اور خامدوں کے لیے پانی ایک گھی کی طرح ہے“
اس وقت حضرت کا قیام اساول میں ایک کنویں کے قریب تھا، تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص کنویں پر پانی لینے آیا، ڈول جو ڈالا تو ڈول میں گھی آیا، تین دن تک اس کنویں سے گھی نکلتا رہا، حضرت کے بھائی جلال خاں کے صاحبزادے سید سکندر خاں دکن مین ایک اونچے عہدہ پر فائز تھے، انہوں نے حضرت کی خدمت میں کچھ قیمتی کپڑے، جواہرات اور کچھ اشرفیاں بھیجیں، جب سید سکندر خان کا بھیجا ہوا آدمی سامان لے کر آیا تو اس وقت حضرت سابرمتی دریا کے کنارے وضو کر رہے تھے، جب اس شخص نے وہ سامان پیش کیا تو حضرت نے فرمایا کہ
”گندک کے دھوئیں سے فقیروں کی اولاد کی داڑھی کے بال جلنا نہیں چاہئیں“
پھر حضرت نے اس آدمی سے کہا کہ سامنے جو پتھر پڑے ہیں، جتنے لاسکتے ہوں لے آؤ، اس نے پتھر لاکر آپ کے سامنے رکھ دیے، حضرت نے ان پتھروں پر جو ہاتھ لگایا تو وہ پتھر سونے کے ہوگئے، اس شخص سے مخاطب ہوکر حضرت نے فرمایا کہ جو کچھ لے کر آئے ہو وہ سابرمتی دریا میں ڈال دو پھر حضرت فرمانے لگے کہ
”حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی قوتوں اور ایسے انعامات سے نوازا ہے کہ جن کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی اندازہ، تو پھر یہ دنیا کی دولت ہمیں کیا فائدہ پہنچائے گی، یہ دنیا کی دولت ہمارے کس کام کی ہے اور اس کو کس طرح اور کیوں قبول کیا جائے“
ایک دن آپ پانی میں تشریف لے گئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک رات آپ اپنے مکان سے مسجد جارہے تھے تو آپ کے پیر میں کوئی چیز لگی، چوٹ کا لگنا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ
”لوہا ہے کہ لکر ہے کہ پتھر ہے“ (کیا یہ لوہا ہے یا لکڑی ہے یا پتھر ہے) اس کے فوراً بعد ہی اس چیز میں تینوں چیزوں کی خصوصیات پیدا ہوگئیں یعنی لوہے کی صفت، لکڑی اور پتھر کی صفت۔
شہنشاہ ہمایوں جب گجرات میں تھا تو بٹوہ بھی گیا اور اس نے اس متبرک یادگار کو دیکھا تو اس کو تعجب ہوا، وہ تھی ”ایسی عجیب چیز جو اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی“ شہنشاہ اکبر جب احمدآباد گیا تو اس نے بھی اس متبرک یادگار کو دیکھا اور اس کا آدھا حصہ آگرہ لے آیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.